ہے بھگوان !
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نویں یا دسویں کلاس کا طالب علم تھا ۔گاؤں کے سرکاری ٹیوب ویل کی نہر سے کھیت کی طرف جارہا تھا کہ اچانک نہر کے اسی راستے سے تیز رفتار میں سامنے سے آتی ہوئی بھینس پر نظر پڑی ۔میں خود کو بچانے کیلئے اپنا راستہ تو بدل سکتا تھا لیکن اتنے میں نہر سے دور گھاس کاٹ رہی ایک عورت کی چیخ سنائی دی کہ ’ارے میرا بچہ ‘اس آواز پر میری نظر ایک سال کے اس بچے پر پڑی جسے اس کی ماں نہر کے راستے پر بٹھا کر نیچے کھیت میں اپنا کام کرنے میں مصروف تھی ۔ یہ سوچ کر کہ کہیں بھینس بچے کو کچل نہ دے کھیت سے بچے کی ماں اور میں دونوں تیزی کے ساتھ دوڑ پڑے ۔ ہماری یہ کوشش صرف دل کی تسلی کیلئے ہی تھی کہ ہم دونوں بچے کو بچانے کیلئے دوڑ پڑے جبکہ ہمیں پتہ تھا کہ بھینس کی رفتار ہم سے زیادہ تیز بھی ہے اور وہ ہم سے زیادہ بچے کے قریب بھی ہے اور بچے کو یقیناً کچل دیگی لیکن قربان جائیے اس جانور پر کہ ہمارے پہنچنےسے پہلے ہی جب بھینس نے خود بچے کو دیکھا تو تقریباً ایک میٹر کی معمولی دوری سے اس نے اچانک نالی کی دوسری طرف کود کر اپنا راستہ بدل دیا ۔موت کے منھ سے بچے کی زندگی کو دوبارہ اپنی گود میں پاکر بچے کی ماں نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا ’ہے بھگوان‘! اورتھوڑی دیر کیلئے میں خود سکتے میں آکر وہیں بیٹھ گیا کہ ہم جس جانور کو کم عقل سمجھتے ہیں ان کے اندر بھی رحم کے جذبات ہیں اور انہیں بھی اللہ نے شعور دیا ہے ۔اس کے برعکس جب میں معصوم آصفہ کے ساتھ ظلم کرنے والے انسانوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو دل دہل جاتا ہے کہ آخر انسان درندوں اور جانوروں سے بھی خونخوار اور بے رحم کیسے ہوسکتا ہے؟ مگر یہ سچائی ہے کہ انسان پر جب خون سوار ہوجاتا ہے تو وہ حیوان سے بھی زیادہ خونخوار بن جاتا ہے ۔سوال یہ نہیں ہے کہ جن درندوں نے آصفہ کے ساتھ گھناؤنی حرکت کی وہ ہندو تھے ۔ جہاں پر اس کی آبرو کو لوٹ کر قتل کیا گیا وہ مندر تھا۔ جن سیاستدانوں اور وکیلوں نے ان مجرموں کو بچانےکیلئے احتجاج کیا وہ ہندو تھے ۔ نہیں درندوں کا کوئی مذہب نہيں ہوتا اور اگر ہم اس طرح کے واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ سے دیکھتے ہیں تو پھر ہم پاکستان افغانستان شام اور مصر میں درندگی اور حال ہی میں شام اور قندوز میں طیاروں سے روندے جانے والے معصوم بچوں بوڑھوں اور عورتوں کے قتل عام کو کیا نام دیں گے ؟قندوز میں جن بچوں کو قتل کیا گیا وہ حافظ قرآن تھے اور جنھوں نے قتل کیا وہ مسلمان افغانی فوجی تھے ۔
عافیہ صدیقی کو پاکستانی اور افغانی حکمرانوں نے خود امریکہ کے حوالے کیا اور پھر عدالتی کارروائی کے دوران عافیہ نے امریکی جیلوں میں اپنے ساتھ ہورہے وحشیانہ سلوک کی جو بات کہی یہ بیان رونگٹے کھڑے کردیتے ہیں ۔تقریباً ساٹھ سال پہلے مصر کی جیل میں زینب الغزالی کو نو سال تک برہنہ کرکے کتوں سے نچوانے والا جمال ناصر بھی مسلمان تھا۔آصفہ کے مجرموں کی حمایت کرنے والے فرقہ پرستوں کو ہم گالی ضرور دیں لیکن یاد رہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ جمال ناصر کی بھی درنددگی کی حمایت کرتا ہے ۔ایک کتاب ہم نے شام کے تعلق سے بھی پڑھی تھی ’صرف پانچ منٹ ‘ایک نوجوان دوشیزہ کو شامی حکمراں حافظ الوحشی کے سپاہیوں نے کالج سے ہی یہ کہہ کر گرفتار کر لیا تھا کہ اسے پوچھ تاچھ کے بعد پانچ منٹ میں رہا کردیا جائے گا مگر وہ اس وقت تک جیل کی صعوبتوں سے گزرتی رہی جب تک کہ اس کے بھائی کو گرفتار کرکے گولی نہیں مار دی گئی ۔پانچ سال بعد جب وہ رہا ہوئی تو جیل کے باہر اس کی دنیا ویران ہوچکی تھی ۔ سر چھپانے کیلئے اس کا اپنا کوئی گھر نہیں تھا ۔اس کے والدین پولس کے ٹارچر اور صدمے سے انتقال کرگئے تھے اور جس گھر میں وہ کھیل کود کر جوان ہوئی تھی شامی فوجیوں نے اسے اپنی چھائونی بنا لیا تھا۔ اس لڑکی کا نام ہبہ دباغ تھا اور اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک اخوانی بھائی کی بہن تھی ۔پتہ نہیں اس قصے میں کتنی صداقت ہےکسی یوروپین جرنلسٹ کے مضمون کا یہ اقتباس کئی بار نظر سے گزرا ۔ شام کے شورش زدہ علاقوں کی رپورٹنگ کرتے ہوئے وہ لکھتی ہے کہ میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتی جب میں نے دیکھا کہ ایک مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے عورتوں کی چیخ اٹھ رہی ہے ۔مسجد میں بشارالاسد کے فوجی نہ صرف عورتوں کی آبرو ریزی کررہے تھےبلکہ انہوں نے لاؤڈ اسپیکر کو چیختی اور کراہتی ہوئی عورتوں کے اتنے قریب رکھ دیا تھا تاکہ ان کی چیخ سے بستی کے لوگوں کو دہشت زدہ کیا جاسکے ۔
مصر میں جولائی 2012 میں رابعہ العدویہ میں اخوانیوں اور خواتین مظاہرین کے ساتھ مصری فوجیوں نے جو کچھ کیا ،کیا مہذب دنیا اسے بھلا سکتی ہے ۔عوام نے فوجیوں سے منت سماجت کی کہ ہم تمہارے بھائی ہیں ہم پر گولی نہ چلاؤ لیکن مصری فوجیوں نے ایک نہ سنی ۔یہ فوجی بھی مسلمان تھے اور انہوں نے جس مقدس مہینے میں روزہ دار عوام پر گولیاں چلائیں وہ رمضان کا مہینہ تھا ۔مظاہرین ابھی سحری کرکے نماز میں کھڑے تھے کہ فوج نے عین سجدے کی حالت میں بھی گولیاں چلائیں ۔اتنا ہی نہیں باحجاب پردہ نشین عورتوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور ہتکڑیاں لگا کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا اورقرآن سنت پر عمل کی دعویدار مصر کی سیاسی پارٹی النور نے لبرلسٹوں عیسائیوں اور رافضیوں کے ساتھ مل کر ڈاکٹر مرسی کے خلاف السیسی کے حق میں مظاہرہ کیا خادم الحرمین شریفین نے السیسی کی یہ کہہ کر حمایت کی کہ فوج نے مصر کو گہری کھائی میں گرنے سے بچا لیا ۔یا اللہ مصر کے نہتے عوام پر یہ سب مظالم اسلام اور حرمین شریفین کی آڑ لیکر کیےگئے ۔جموں کشمیر میں آصفہ کے سانحے کا ایک تاریک اور بھیانک گھناؤنا پہلو یہ ہے کہ کچھ وکیلوں اور ہندو سیاست دانوں نے زانیوں اور قاتلوں کے حق میں مظاہرے اور نعرے بازی کیے ۔سوال یہ ہے کہ آصفہ کے فرقہ پرست جنونی قاتلوں کے حمایتیوں اور السیسی کے مسلمان حمایتیوں میں کیا فرق ہے ؟یہ ایک سماجی ناسور ہے اور اس طرح کی مجرمانہ ذہنیت نہ صرف دیگر فرقوں میں بلکہ خود اہل ایمان میں بھی کثرت سے پروان چڑھ رہی ہے جو اپنے مسلک اور عقیدے کی اندھی تقلید میں اپنے علماء کے خرافات اور وہ حکمراں جن سے انہیں مراعات حاصل ہوتی ہیں ان کے ظلم اور زیادتی کی حمایت کو بھی جائز ٹھہراتے ہیں ۔اس کے برعکس آصفہ سانحے کا ایک مثبت اور روشن پہلو یہ بھی ہے کہ آصفہ کے والدین کو انصاف اور قانون کی لڑائی میں جو لوگ آگے آئے جن میں آصفہ کے والدین کی خاتون وکیل دیپیکا رجاوت سنگھ اور خاتون ڈی ایس پی شرما دونوں ہی ہندو ہیں ۔ اس کے علاوہ جن اخبارات الیکٹرانک چینل اور غیرسرکاری تنظیموں نے اسے عوامی مسئلے میں تبدیل کیا وہ مسلمان نہیں تھے ۔
اسی طرح کے ایک واقعے کا ذکر آربی سری کمار نے اپنی کتاب گجرات پس پردہ میں کیا ہے "…….28فروری(2002)کی شام جب میں آفس میں تھا‘خورشید احمد(آئی پی ایس)نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ تقریباً 400مسلم خاندان ،جو فسادیوں کی زد پر ہیں،سیجاپور کے محفوظ (ریزروڈ)کمانڈ ہیڈ کوارٹرمیں پناہ مانگ رہے ہیں۔مسٹر خورشید اس کمانڈ ہیڈ کوارٹر کے کمانڈنٹ تھے‘جو کہ نرودا پاٹیا سےمتصل ہے ۔ میں نے انہیں زبانی اور تحریری اجازت دے دی کہ وہ انہیں خالی بیرکوں میں جگہ دے دیں۔ لیکن میری اجازت کے باوجود دو مسلمان افسر مسٹر خورشید اور ان کے نائب مسٹر قریشی نے ان مسلم خاندانوں کو کوار ٹر ہیڈ میں داخل نہیں ہونے دیا ۔اسی دن نرودا پاٹیا میں جن 96 مسلمانوں کا قتل ہوا وہ انہیں چار سو مسلمانوں میں سے تھے ۔بعد میں ریاستی حکومت نے خورشید احمد کو سورت کا ڈپٹی کمشنر آف پولس بنادیا۔ یہ ایک انتہائی اہم منصب ہے جس کی طلب بہت سے افسران کو رہتی ہے۔یہی نہیں ان کی اہلیہ شمیمہ حسن (آئی اے ایس) کو ولساڈ کا ضلع ڈیولپمنٹ افسراور سریندر نگر کا کلکٹر بنادیا گیا ۔ایک ہم عصر صحافی نےآر بی سری کمار کے اس انکشاف پر تبصرہ کیا ہے ’ اس سے یہ اندازہ ہوگیا کہ ان دونوں مسلم افسروں نے جان بوجھ کران مظلوم مسلمانوں کو درندوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیاتھا۔جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کی مدد کر نے والے اس بے باک ہندوافسر(آر بی سری کمار)کو قدم قدم پر ستایا گیا،ترقی روکی گئی ، مقدمے قائم کئے گئے، چھوٹی چھوٹی باتوں پرباز پرس کی گئی ،جونئر افسروں کو ان کے اوپر بٹھایا گیااوراہم منصبوں سے ہٹاکرکم ترعہدے دیئے گئے۔
عمر فراہی