این ڈی ٹی وی،روش کمار اور پرنو رائے
گذشتہ چند سالوں میں این ڈی ٹی وی کے سینئر ایگزی کیوٹو ایڈیٹر اور اینکر جناب روش کمار نہ صرف وطن عزیز کے مسلمانوں کے بلکہ تمام ہی حق پرستوں کے ، انصاف پسندون کے حقیقی سیکولرسٹوں کے بجا طور پر ہیرو بن چکے ہیں ۔ شاید ہی کوئی اردو اخبار ہو جس میں آجکل ان کے مضامین نہ شائع ہو رہے ہوں ۔ انھوں نے ٹاک شوز مین فرقہ پرستوں کے بڑے بڑے مہارتھیوں کے چھکے چھڑا دئے ہیں ۔ یہاں تک کے جھوٹوں کے سب سے بڑے سردار جناب مودی کو بھی وہ چیلنج کر چکے ہیں کہ وہ انھیں انٹرویو دیں اور ان کے سوالات کے جواب دیں ۔ اور کیوں نہ چیلنج کریں ؟ بڑی مشہور بات ہے کہ ’’جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے‘‘جھوٹ اس وقت تک نہیں چلتا جب تک بزور طاقت اسے چلانے کی کوشش نہ کی جائے ۔
چوالیس سالہ جناب روش کمار پانڈے موتیہاری بہار کے رہنے والے ہیں ۔ ابتدائی تعلیم لوئلا اسکول پٹنہ سے حاصل کی ۔ پھر دہلی آکر دیش بندھو کالج سے ماس کمیونیکیشن میں ڈگری لی ۔ پھر پی جی ڈپلومہ ان جرنلزم کیا ۔ اور این ڈی ٹی وی جوئن کرلیا ۔ موصوف ۱۹۹۶ سے اب تک این ڈی ٹی وی میں ہی ہیں ۔ روش کمار کے تجزئے ، تبصرے اپنی مثال آپ ہوتے ہیں ۔ انھوں نے پرائم ٹائم میں کئی ماہ مسلسل ایسے پروگرام بھی چلائے ہیں جس سے مختلف شعبہ جات میں خالی خولی نعروں سے ہٹ کردیش کی اصل حالت کا پتہ چلتا ہے ۔ مثلاً ابھی چند ماہ پہلے وہ دیش کے تعلیمی اداروں پر حکومت کی پول کھولنے والا پروگرام چلا چکے ہیں ۔ نوکریاں واقعتاً پیدا ہو رہی ہیں یا نہیں یہ حقائق خود دیش کے نوجوانوں کی زبانی سنا چکے ہیں ۔ فرقہ پرستوں اور ان کے کیڈر کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ جس بات کا جواب نہیں دے پاتے اس کے جواب میں گالیان اور دھمکیاں دیتے ہیں ۔ روش کمار کو بھی نہ صرف گالیاں کھانی پڑتی ہیں بلکہ جان سے مار دئے جانے کی دھمکیوں کو بھی ہضم کرنا پڑتا ہے ۔ اور وہ جنھوں نے نریندر دابھولکر، گووند پانسرے ، ملیشپا کلبرگی اور گوری لنکیش جیسے دانشورون کو صحافیوں کو جان سے ماردیا اور تو اور ہیمنت کر کرے جیسے پولس افسر کو اپنے راستے سے ہٹا دیاہو ، ان کی دھمکیوں کے سامنے ڈٹے رہنا ، یہ صفت تو آجکل ایمان والوں کو بھی میسر نہیں ۔ کبھی صحافت میں شہید بھی ہوا کرتے تھے ۔ اور اردو والوں کا اس میں لیڈنگ رول ہوا کرتا تھا۔اب صحافت میں پتی ہوتے ہیں ، نا نا سبھا پتی اور راشٹر پتی نہیں۔لکھ پتی ،کروڑ پتی اور ارب پتی ،اب یہ رجحان غالب ہے۔اس لئے ہم جناب روش کمار کے فین بنے ہوئے ہیں ۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود ہم اس بات کو کبھی نہیں بھولتے کہ روش کمار کو روش کمار پرنو رائے نے بنایا ہے۔عموماً ہوتا یہی ہے کہ جب کوئی آئی کان بن جاتا ہے توآئی کان کے پیچھے بنانے والے کی شخصیت چھپ جاتی ہے ۔ ہماری خواہش ہے اور کوشش بھی اردو دنیامیں پرنو رائے کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ویسے خود پرنو رائے کی شخصیت بھی بہت بڑی ہے ۔اس کے علاوہ حکومت کو بھی اس کا احساس ہے کہ روش کے پیچھے کہیں پرنو گم نہ ہوجائیں اس لئے وہ وقتاً فوقتاً ایسے اشوز اٹھاتی رہتی ہے جس سے پرنو رائے لائم لائٹ میں آتے رہتے ہیں کچھ بھی کہئے ہم بہرحال اس کے لئے حکومت کے شکر گزار ہیں۔ایسا ہی معاملہ ترون تیج پال کا بھی تھا ۔ وہ بھی فرقہ پرستوں کے ایسے ہی مخالف تھے ۔ مگر کانگریس نے بڑی ہوشیاری سے بڑی مکاری سے ان کا کانٹا نکال پھینکا۔اس لئے ہم کانگریس کو ’جن ہت‘ میں بی جے پی سے زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں ۔ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آج ۷۰ سال بعد بھی باشندگان ملک کا ایک بڑا حصہ کانگریس کی مکاریوں سے آشنا نہیں ہے ۔ آج بھی صورتحال یہ ہیکہ ۴ سال میں بی جے پی سے ڈسے ہوئے لوگ پھر کانگریس کے تلوے چاٹ رہے ہیں ۔احمقوں کو معلوم ہی نہیں کہ بی جے پی کو یہاں تک لانے والی ہی کانگریس ہے۔خیر اس بار پرنو رائے بمقابلہ بی جے پی حکومت تھی ۔بی جے پی میں اسٹیٹس مین لوگ ہیں ہی نہیں ۔ انھیں جنگی چالیں نہیں آتی ۔ یہ ٹھوکنے پیٹنے والے لوگ ہیں ۔ جون ۲۰۱۷ میں اچانک این ڈی ٹی وی کے مختلف آفسوں و دیگر مقامات پر چھاپا مارا گیا ۔کہا گیا کہ اس نے آئی سی آئی سی آئی بینک سے ۳۶۶ کروڑ کا لون لیا تھا جس میں بینک کے ساتھ۴۸ کروڑ کا فراڈ کیا گیا ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب پنجاب نیشنل بینک ،جو کہ سرکاری بینک ہے اور جس کی حفاظت کے لئے مودی سرکار ’وچن بدھ‘ ہے میں ایک دوسرے مودی نے گھپلا نہیں کیا تھا ۔ آئی سی آئی سی آئی تو پرایؤیٹ بینک ہے ۔ خیر این ڈی ٹی وی کے مالکین نے کہا کہ یہ ایک قرض تھا جسے ۷ سال پہلے چکا دیا گیا ہے ۔انھوں نے مزید کہا کہ چھاپے ابتدائی تحقیقات کے بغیر مارے گئے ہیں۔اور یہ آزاد میڈیا کوخاموش کرنے کی ایک کوشش تھی ۔یہ وہ وقت تھا جب پرنو رائے کی اپنی بیٹی نے حالات سے گھبرا کر ان سے گذارش کی تھی کہ وہ حکومت سے مخاصمت مول لینا چھوڑدیں۔اور انھوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کی محبت کو اس سے بھی زیادہ خوبصورت الفاظ میں ٹال دیا تھا۔یہ نہ پہلی کوشش تھی نہ آخری بلکہ یہ جنگ تو زندگی بھر بلکہ تا قیامت چلتی رہے گی۔
آئیے اب تھوڑا بہت پرنو روئے کے بارے میں بھی جان لیجئے ۔ موصوف ۱۵۔ اکتوبر ۱۹۴۹ کو ایک برہمن خاندان میں کلکتہ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم دون اسکول دہرہ دون سے حاصل کی ۔ اس کے بعد انھیں ہیلی بیری اور امپریل سروس کالج انگلینڈ میں اسکالرشپ ملی جہاں سے وہ برٹش چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بن کر نکلے پھر انھوں نے دہلی اسکول آف اکانومکس سے پی ایچ ڈی کیا ۔ وہ ایک کامیاب ٹی وی جرنلسٹ اور اکونومسٹ تھے ۔ وہ انڈیا کے نیشنل ٹیلیویژن نیٹ ورک ’دور درشن ‘ پر بجٹ اور الیکشن کے کامیاب تجزیہ کار تھے۔انھوں نے دور درشن پر دو نئے پروگرام دی ورلڈ دس ویک اوردی نیوز ٹو نائٹ جاری کئے تھے جس کے وہ خود میزبان تھے ۔ دونوں پروگرام اپنے زمانے کے ۵ بہترین ٹیلی پروگراموں میں سے تھے۔موصوف منسٹری آف فنانس میں اکانومک ایڈوائزر بھی رہ چکے ہیں ۔ آخر میں یعنی ۱۹۸۸ میں اپنی بیوی رادھیکا رائے ، جو کہ خود بھی جرنلسٹ ہیں کے ساتھ مل کر نئی دہلی ٹیلیویژن این ڈٰ ٹی وی کی بنیاد رکھی جسے دونوں بڑی ہمت اور جراء ت کے ساتھ ہر قسم کے نامساعدحالات سے نبرد آزما ہوتے ہوئے چلا رہے ہیں ۔ یہ جناب پرنو رائے کا مختصر تعارف ہے مکمل نہیں۔اور تحریر کا مقصد صرف یہ ہے کہ اردو قارئین فرنٹ مین کے ساتھ ساتھ اس کی پشت پر کھڑی شخصیت کوبھی جانیں اور یاد رکھیں۔
ممتاز میر