صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

رفیق احمد اصلاحی صاحب کی رحلت

87,850

🖊️ انس ابو ہریرہ اصلاحی

31 مئی بروز بدھ ایک زندہ دل اور باغ و بہار شخصیت رفیق احمد اصلاحی صاحب کی اچانک رحلت کی خبر ملی۔ آبائی وطن موضع کسہا میں تدفین عمل میں آئی۔

رفیق احمد اصلاحی صاحب کو ہم لوگ بچپن سے دیکھتے آئے تھے نام بعد میں معلوم ہوا ہوگا شکل و صورت سے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی سے مانوس تھے، کچھ کچھ وقفے کے بعد دادا سے ملاقات کرنے آتے دیر تک بیٹھتے گفتگو گھر سے شروع ہوتی بڑے بھائی انیس احمد اعظمی صاحب کا ذکر، دوکان کے حالات، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مدرسۃ الاصلاح موضوع گفتگو بن جاتا، اصلاحی شخصیات کا ذکر نئی کتابوں پر گفتگو، آخر میں ایک بار پھر روئے سخن گھر اور رشتے داروں کے طرف ہوجاتا پھر وہ اپنی بہن سے جو گاؤں ہی میں منسوب تھیں ملاقات کرنے جاتے اور وہیں سے واپس ہو جاتے۔

رفیق صاحب کا آنا ایک معمول کا حصہ تھا نہ کبھی آنے سے پہلے انہوں نے اطلاع دینے کی ضرورت سمجھی نہ کبھی ان کی آمد غیر متوقع محسوس ہوئی۔ خوش مزاج و خوش طبع، بے تکلفی میں بھی ایک شرافت، مزاح میں بھی ایک ادب، بچوں سے گفتگو میں ایک شفقت ان کی پہچان تھی۔

تعلقات کا دائرہ بہت وسیع تھا فارغین مدرسۃ الاصلاح سے خاص تعلق رکھتے، مجلس انتظامی مدرسۃ الاصلاح اور جماعت اسلامی ہند کے رکن تھے ساتھ ہی سیاسی حلقوں میں بھی خوب جانے جاتے ہے، تعلقات کو نبھانے اور اظہار کرنے کا سلیقہ بھی انہیں خوب ودیعت ہوا تھا۔ دادا سے تعلق کی ابتداء انکے بڑے بھائی انیس احمد اعظمی سے ہوئی جو مدرسۃ الاصلاح میں ان کے جونیئر تھے، دونوں میں گہری دوستی تھی اس دوران انہوں نے انور اعظمی کی تحریک پر ایک قلمی رسالہ "کارواں” کے نام سے نکالا، محمد ایوب اصلاحی مدیر اور انیس احمد اعظمی نائب مدیر تھے، انیس صاحب فراغت سے پہلے ہی غالباً کراچی چلے گئے اور آزادی کے بعد وہیں کے شہری ہوگئے لیکن خط و کتابت ہمیشہ برقرار رہی اور تعلق خاطر پر کبھی خزاں نہیں آئی محمد ایوب اصلاحی کے الفاظ میں "عہد طالبعلمی میں کارواں کے تعلق سے انیس احمد اعظمی کی رفاقت جو میسر آئی تو الحمدللہ وہ جوئے اخلاص آج بھی رواں ہے”

رفیق احمد صاحب مدرسے پر آئے تو وہ بھی اسی تعلق کا حصہ بن گئے، طالبعلمی میں وہ دادا کی تربیت میں آئے تھے، لکھتے ہیں ان کے انتقال پر ایک مضمون میں لکھتے ہیں: "ماموں مرحوم نے مجھے مولانا کی تربیت میں دے دیا پھر مولانا نے سرپرستی کا حق ادا کردیا اور میری تمام ضرورتیں بڑی خوش اسلوبی سے پوری کرتے رہے، میں جب مدرسہ میں رہا مولانا کی سرپرستی مجھے حاصل رہی، مولانا مجھے بیحد عزیز رکھتے اور بے انتہا شفقت سے پیش آتے۔”

انیس احمد اعظمی صاحب کے اس زمانے کے خطوط میں رفیق صاحب کی تعلیم و تربیت کے تعلق سے مسلسل فکر مندی کا اظہار ملتا ہے اور دادا سے ان کی نگرانی پر دھیان دینے اور اچھی تربیت کرنے کا اصرار کیا گیا ہے بیماری اور علاج تک کا ذکر موجود ہے۔ بعض وجوہ سے وہ مدرسے سے فارغ نہیں ہوسکے لیکن بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہے، محترمی پروفیسر اشتیاق احمد ظلی صاحب اور عبد المجید ندوی صاحب مرحوم ان کے ساتھیوں میں سے تھے، یہ حضرات دادا سے بہت جونیئر تھے مگر تینوں ہی سے ان کے بیحد گہرے تعلقات تھے اور دادا سے ان کی اولاد میں بھی منتقل ہوگئے۔

ان تعلقات کا بنیادی سبب مولانا اختر احسن اصلاحی کی ذات گرامی اور پھر منشی مقبول صاحب مرحوم کی شخصیت تھی، منشی مقبول صاحب ظلی صاحب کے ماموں تھے اور مولانا اختر احسن اصلاحی، ان کے منتسبین اور پھر اس پورے حلقے سے ایک والہانہ تعلق رکھتے تھے۔

اسی تعلق کی ایک کڑی مولانا اختر احسن اصلاحی کے خاص شاگرد مولانا امانت اللّٰہ اصلاحی صاحب پھر ان کے برادران عنایت اللہ اسد سبحانی صاحب اور سلامت اللہ اصلاحی صاحب بھی اس حلقے کا حصہ بن گئے۔اس پورے حلقے میں رفیق صاحب کا بظاہر علمی کاموں سے کوئی واسطہ نہیں تھا ابتداء ہی سے وہ تجارت سے وابستہ ہوگئے تھے لیکن اس سے انکے ذوق، علمی و تعلیمی لوگوں سے تعلقات، کتابوں اور مضامین سے باخبر رہنے کا شوق کبھی نہیں کمزور پڑا، نہ خود وہ اپنے پرانے لوگوں سے کٹے نہ لوگوں نے کبھی انہیں کسی اور میدان کا سمجھا، سبھی لوگ ان کے مہمان ہوتے تھے اگلے دنوں میں جب سفر مشکل ہوتا تھا تو ان کے گاؤں کسہا جانے کے بعد قیام بھی کیا جاتا تھا ظاہر ہے کہ یہ سب ایک گہرے تعلق کی وجہ ہی سے تھا۔

دادا جب بیمار اور دہلی کے ایک ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھے تو ایک روز اچانک رفیق صاحب کا فون آیا کہ یہ ہاسپٹل کہاں ہے میں دہلی میں فلاں جگہ پر ہوں، فورا کوئی انہیں لینے کے لیے گیا، آئے تو معلوم ہوا کہ گھر سے شاہ گنج کے لیے نکلے تھے وہاں سے ان کے کوئی عزیز جو دہلی میں رہتے ہیں کے ساتھ دادا کی عیادت کرنے گھر کے لوگوں کو بتائے بغیر ہی دلی کے لیے پا بہ رکاب ہوگئے، بڑھاپے میں ایسی ہمت پر ہم لوگوں کو سخت تعجب تھا۔ میرے علم کی حد تک رفیق صاحب نے ایک ہی مضمون لکھا اور وہ دادا مرحوم کی وفات پر۔ بہت ہی سلیس مضمون ہے، ان کی گفتگو اور مزاج ہی کی طرح نہ کہیں تکلف ہے نہ تصنع، نہ کہیں جذباتی زبان یا مدح سرائی کا انداز لیکن ایک گہرے تعلق کا آئینہ دار ایک بے لوث ادب و احترام کا غماز۔ اس مضمون میں ان کی مولانا اختر احسن اصلاحی رح کے تئیں عقیدت اس جملے سے ملاحظہ فرمائیے کہ "مجھے یہ شرف بھی حاصل تھا کہ میں بعد نماز مغرب روزانہ مولانا اختر احسن اصلاحی صاحب کی لالٹین صاف کر کے جلایا کرتا تھا اس حوالہ سے مولانا کی سرپرستی بھی مجھے حاصل تھی” اسی مضمون میں لکھتے ہیں کہ "ہم لوگوں کا رشتہ 1948 سے شروع ہوا تو ان کے انتقال تک بڑی کامیابی کے ساتھ قائم رہا۔۔۔۔۔

بعد میں یہ تعلقات رشتے میں تبدیل ہوگئے ان کے بھتیجے جاوید انور صاحب کی بیٹی برادرم ہشام اجمل سے منسوب ہوگئیں اس نکاح میں جب ہم سب لوگ پہنچے تو انیس احمد اعظمی صاحب نے اپنے دیرینہ دوست یعنی ہمارے دادا کا استقبال کرتے ہوئے بڑا معنی خیز جملہ کہا کہ مولانا آپ تو تنہا تھے آج تو پورا قبیلہ ہوگئے۔

رفیق صاحب کی خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے اس قبیلے سے بھی رشتے کو بنائے رکھنے کی کوشش کی اور جب بھی کوئی ان سے ملا انکے محبت آمیز انداز کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔ ادھر چند سالوں میں میری جب بھی ان سے ملاقات ہوتی وہ کسی نہ کسی بہانے میری کسی تحریر کا ذکر کرکے اس کی تعریف کر دیتے، ظاہر ہے کہ اس سے مقصود صرف حوصلہ افزائی ہوتی تھی ورنہ نہ وہ کوئی باقاعدہ تحریر ہوتی تھی نہ کہیں چھپی ہوئی ہوتی تھی لیکن وہ اس کا ذکر ضرور کرتے بلکہ ایک ہی تحریر کا کئی ملاقاتوں میں بھی ذکر کر دیتے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا کہ وہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی چیزوں سے بھی باخبر رہتے تھے۔

رفیق صاحب نے مدسۃ الاصلاح سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد امباری بازار میں ایک دوکان کھول لی تھی یہ دوکان خوب چلی اور ان کے بڑے خانوادے کا ذریعہ معاش تھی یوں تو ان کے پاس جائداد کی بھی کمی نہیں تھی ان لوگوں کو نانہال میں بہت بڑا حصہ ملا تھا جس کے بعد یہ اپنے آبائی وطن موضع سرہی سے موضع کسہا منتقل ہوگئے تھے۔ ضلع اعظم گڑھ کے گاؤں بھی عموماً بدل چکے ہیں چھوٹے چھوٹے پختہ مکانات اور تنگ گلیاں، ایسے میں ان کی رہائش گاہ ایک خوشگوار منظر پیش کرتی تھی روڈ کے شور شرابے اور گنجان آبادی سے دور نہر کے کنارے پر ایک بڑا باغ اور باغ کے وسط میں قدیم طرز کا تعمیر شدہ مکان جس کے سامنے ایک طرف کھپریل کی چھت والا بیٹھک اور سامنے بہت کشادہ کھلی جگہ جہاں زراعت وغیرہ کے لوازمات نظر آتے تھے، جب بھی گئے تو تین بزرگ بھائیوں کی وہیں پر زیارت ہوتی تھی۔ امباری میں انہوں نے جو دوکان کھولی تھی وہ خوب چلی اور ہول سیل کی ایک بڑی دوکان بن گئی بعد میں ان کے گھر کے دوسرے افراد دوکان کی ذمہ داریاں سنبھالنے لگے تو ان کی مصروفیت کم ہوگئی لیکن ان کی مجلسوں اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز وہی دوکان رہی، ان کے بھتیجے اور داماد اسلم صاحب جو بڑے بھائی شفیق احمد صاحب کے بیٹے ہیں انہوں نے امباری ہی میں سکونت اختیار کر لی تو رفیق صاحب بھی وہیں قیام پذیر ہوگئے۔

اس خانوادے میں عموماً تعلیم و تعلم کا شوق پایا جاتا تھا چنانچہ دوسری نسل کے لوگوں میں زیادہ تر یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ اور اچھی صلاحیت کے لوگ ہیں لیکن بیشتر اسی دوکان کی طرف لوٹ کر آئے اور پھر دوسرے کاروباروں سے منسلک ہوئے، تیسری نسل میں مزید تعلیم یافتہ چہرے ہیں۔

خود رفیق صاحب کی کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی۔ اہل خانہ کے لیے ان کی اچانک رحلت بڑا حادثہ ہے، وہ گھر کے تین بزرگوں یعنی تینوں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور سب سے پہلے رخصت ہوگئے علاقے میں ان کے متعلقین کا ایک وسیع دائرہ تھا، لہذا ان کے گھر کے لوگ مہمانوں کی ایک بڑی تعداد کی میزبانی کرتے نظر آتے تھے یقینا یہ رونق انہی بزرگوں کی رہین منت تھی اور انہی کے ساتھ رخصت جائے گی اس بڑے خانوادے میں ماشاءاللہ افراد کی کمی نہیں لیکن پھر بھی ایک ویرانی کا احساس ضرور ہوگا۔

میں تمام متعلقین کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں، خدا ان کی مغفرت فرمائے اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے، ان کے بزرگ بھائیوں محترم انیس احمد اعظمی اور شفیق احمد صاحب کو تادیر سلامت رکھے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.