صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

جلوسِ عید میلادالنبیؐ ۲۹؍ ستمبر کو نکالنے پر علماء اور منتظمین کا اتفاق

86,140

آل انڈیا خلافت کمیٹی کی میٹنگ میں علماء ، سماجی خدمتگاروں اور منتظمین نے آراء اور تجاویز پیش کیں ، کہا:ہمیں ماحول خراب کرنے کی کوشش کرنے والے شرپسندوں کو کوئی موقع نہیں دینا ہے

جلوسِ عید میلادالنبیؐ اور گنپتی وسرجن کیلنڈر کے مطابق ایک ہی تاریخ میں آنے کے سبب جلوس ‌نکالنے کے تعلق سے بدھ کو‌ بعد‌ نمازِ مغرب آل انڈیا خلافت کمیٹی کی جانب سے ذمہ داران، علماء، ائمہ اور منتظمین کی میٹنگ بلائی گئی جس میں حاضرین نے اپنی جانب سے تجاویز اور مشورے دیئے ۔ میٹنگ میں شہر ومضافات کے ساتھ پونے، ناسک اور مالیگاؤں وغیرہ سے عمائدین نے شرکت کی نیز پولیس اور سی آئی ڈی اہلکار بھی موجود تھے۔ میٹنگ میں جلوسِ عیدمیلادالنبیؐ جمعہ ۲۹؍ستمبر کو نکالنے پر اتفاق ہوا۔ مولانا سید معین الدین اشرف عرف معین میاں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ’’موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داری ہے کہ دانشمندی کا ثبوت دیں۔ ائمہ اور علماء جمعہ کے دن جلوسِ عید میلادالنبیؐ نکالنے کا اعلان کریں۔ اس کے علاوہ جلوس عید میلادالنبیؐ میں‌ درآئی خرافات سے روکنے کیلئے ذہن سازی بھی کریں۔ آج حالات یہ ہیں کہ نوجوان جلوس میں شریک ہورہا ہے لیکن نماز سے بے پروا ہے۔‘‘ معین میاں نے فضول خرچی اور ڈی جے پر رقم‌ برباد کرنے پر سختی سے منع کیا۔محمد سعید نوری نے کہا کہ گھر گھر پرچم رسالت لہرایا جائے اور سرکار کی سنت پر عمل کیا جائے اور تزک و احتشام سے جلوس عید میلادالنبیؐ نکالا جائے۔


 آل انڈیا خلافت کمیٹی کے چیئرمین سرفراز آرزو نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات میں ہمیں دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہے ، خاص طور پر اپنے ان بھائیوں کا خیال رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرنا ہے جو ملی جلی آبادی میں رہتے ہیں ۔ انہوں نے جلوس کے تعلق سے سعید نوری کے خط کے ذریعے گزارش کا ذکر کیا ۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے ایک دن قبل یعنی ۲۷؍ ستمبر کو جلوس نکالنے کی تجویز رکھی تو کچھ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ اسی دن جلوس صبح  کے وقت نکال کر دوپہر تک ختم کردیا جائے، لیکن یہ مشکل امر ہے۔ ویسے اگر دیگر علاقوں میں لوگ حالات کی مناسبت سے اپنی سہولت سے نظم کریں تو ہمیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔
 مولانا خلیل الرحمٰن نوری نے جلوس کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ۱۹۹۵ءء سے علماء کی قیادت میں جلوس نکالا جارہا ہے،  اس سے قبل قدآور  سیاسی لیڈران قیادت کرتے رہے۔ ہمیں موجودہ حالات میں سوچ سمجھ کر اتفاق رائے سے طے کرنا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ اگر چاند ۳۰؍ کا نہ ہو تو ہم ۲۹؍کو جلوس نکالیں۔ اس لئے سیاسی لیڈران سے درخواست ہے کہ وہ کوشش کریں کہ عید میلاد کی چھٹی کا اعلان حکومت۲۹؍ کو کرے۔
 مولانا اعجاز احمد کشمیری نے کہا کہ حالات جس طرح کے ہیں اس سے انکار نہیں، کچھ شرپسند اسی فراق میں رہتے ہیں کہ وہ حالات بگاڑیں ، ہمیں شرپسندوں کو موقع نہیں دینا ہے۔ اس سے قبل بھی ایسا ہوچکا ہے‌ دوسرے ہمیں اتحاد کا پیغام‌ دینا ہے۔ اس تعلق سے منتظمین مقامی سطح پر پولیس کمشنر سے بھی ملاقات کریں اور ان کو خط دیں اور پولیس ڈی جے بجانے والوں پر سختی کرے۔ 

سید جمیل احمد (جالنہ) نے کہا کہ ہم سب کی نگاہیں ممبئی کے ذمہ داران اور قائدین پر تھیں، آپ کے فیصلے پر مہاراشٹر ہی نہیں پورا ملک لبیک کہے گا۔حاجی محمد یوسف (مالیگاؤں) نے کہا کہ اس سے قبل بھی گنیش اتسو اور جلوس عید میلاد ایک دن آیا تھا۔ مالیگاؤں میں ہماری باہمی میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ۱۲؍ ربیع الاوّل کو نکالا جائے لیکن یہاں جو بھی فیصلہ ہوگا، میں مالیگاؤں کے ذمہ داران کو واقف کراؤں گا۔حافظ سمیر احمد (ناسک) نے کہا کہ جلوس ایک دن کے بعد جوش وخروش سے نکالا جائے۔ شکیل رضا (بھیونڈی)   نے کہا کہ میٹنگ بلاکر ذمہ داران نے بہت اچھا کیا ، بھیونڈی میں ۱۰؍ دن سے بے چینی تھی‌۔ جمعہ کو جلوس نکالا جائے تو بہتر ہوگا۔خالد اشرفی (ممبرا)سلیم ماپ خان نے۲۹؍ستمبر کو جلوس نکالنے کا مشورہ دیا۔ حافظ خلیل اللہ سبحانی نے کہا کہ اتفاق رائے سے عمل کیا جائے‌۔مولانا جمال علیمی (کرلا) نے کہا کہ مختلف علاقوں کی چھوٹی کمیٹیاں مرکزی کمیٹی کے رابطے میں رہیں تاکہ اور بہتر انداز میں کامیاب کریں۔ قاری عبدالرحمٰن ضیائی نے کہا کہ ہم یہ پیغام دیں کہ ہم ڈر کر نہیں ، حالات اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے پیش نظر کیا ہے۔ مولانا ظفرالدین  رضوی (بھانڈوپ) ،مولانا الطاف (ورلی) اور حافظ شکیل احمد (دھاراوی)  اورنسیم صدیقی (این‌سی پی)  نے بھی اظہار خیال کیا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.