صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

روزہ سے اصل مقصود ہر معاملہ میں حکمِ الٰہی کی اتباع اور گناہوں سے اجتناب کی تربیت ہے

درسِ قرآن مجلس میں شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کے سابق صدر پروفیسر ظفرالاسلام اصلاحی کا خطاب

1,005

علی گڑھ : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کے سابق صدر پروفیسر ظفرالاسلام اصلاحی نے اقرأ کالونی میں درس قرآن کی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے سورہ البقرۃ کی آیات کے حوالے سے واضح کیا کہ روزہ سے اصل مقصود زندگی کے ہر معاملہ میں حکمِ الٰہی کی اتباع اور گناہوں سے اجتناب کی تربیت ہے ۔

شدید بھوک و پیاس کی حالت میں تنہائی میں رہتے ہوئے بھی روزہ دار کھانے پینے سے اپنے آپ کو اس لیے دور رکھتاہے کہ اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ ایسا کرنا اللہ رب العزت کے حکم کو توڑنا ہے اور حکمِ الٰہی کو توڑنا اس کی ناراضگی کا موجب ہوگا۔

سابق صدر شعبۂ اسلامک اسٹڈیزنے کہا کہ یہ احساس در حقیقت تازہ ہوتا رہتا ہے، دل میں اللہ کے خوف، قیامت میں اللہ کے سامنے حاضری اور باز پرس کے تصور اور اخروی زندگی کی تعمیر کی فکر سے۔

پروفیسر اصلاحی نے کہا کہ دل میں اسی کیفیت کے پیدا ہونے کا نام تقویٰ ہے ، یعنی روز جزا باز پرس کے احساس سے گناہ سے نفرت اور نیکی کی طلب پیدا ہونا ۔ قرآن میںروزہ کی فرضیت کے بیان میں اس کا خاص مقصد یہی ذکر کیا گیا ہے : لعلکم تتّقون ؍ تاکہ تم تقویٰ والے بن جائو ۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ روزہ دار اللہ کے حکم کی پیروی میں صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک اپنے آپ کو کھانے پینے اورجنسی خواہشات سے دور رکھتا ہے اور گناہ کے کاموں سے اپنے کو بچاتا ہے تو گویا وہ اپنے کو اس بات کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ باقی ایّام میں بھی احکام الٰہی کی پیروی کرے گا اور اللہ کی نگاہ میں ناپسندیدہ کاموںسے پرہیز کرے گا ۔

انہوں نے کہا کہ ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جب تم روزہ رکھو تو تمھارا کان،تمھاری آنکھ، تمھارا ہاتھ اور تمھارے جسم کا ہر عضو روزہ رکھے ،یعنی جسم کے تمام اعضاء کو ان باتوں اور ان کاموں سے باز رکھو جو اللہ کو ناپسند ہیں اور جن سے منع کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ کہ روزہ رکھتے ہوئے اگر یہ نکتہ دھیان میں رہے تو تقویٰ کی صفت اور پروان چڑھے گی اور اس کے اثرات ان شاء اللہ بعد میں بھی باقی رہیںگے۔

پروفیسر ظفرالاسلام نے رمضان و قرآن کے تعلق سے واضح کیا کہ سورہ البقر ہ ہی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ۔ اس سے اس ماہ کی عظمت و فضیلت و برکت آشکارا کرنامقصود ہے اور اہلِ ایمان کو یہ یاد دلانا بھی کہ ہر حال میں قرآن سے تعلق مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تعلق تلاوت اور اس کی ہدایات پر عمل سے مضبوط ہوگا اور اسی تعلق کی مضبوطی سے تقویٰ کی صفت میں نکھار آئے گا۔

پروفیسر اصلاحی نے کہا کہ اِن آیات میں دو مزید باتوں کی تلقین کی گئی ہے ۔اول اللہ کی کبریائی و عظمت کا تصور دل میں بٹھانا اور زبان و عمل سے اس کا ظہار کرنا، دوسرے اللہ کی خصوصی رحمتوں اور بے پایاں نعمتوں پر شکر بجا لانا، دل سے، زبان سے اور عمل سے بھی۔ عملی شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو نعمتیں میسرہیں ان میں اللہ کے محتاج و ضرورت مند بندوں کو شریک کیا جائے ۔ شکر گزاری سے نعمتوں میں اور اضافہ ہوگا، جیسا کہ سورہ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے ۔

اس مجلس کا اختتام مولانا محمد صادق اختر ندوی کی دعا پر ہوا کہ اللہ رب العزت قرآن سے ہم سب کا تعلق مضبوط فرمائے اور ہمیں ماہِ مبارک کے فیوض و برکات سے مالا مال کردے۔آمین ثمّ آمین۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.