صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

ندیم ترین ہال میں تراویح میں تکمیلِ قرآن کے موقع پر ناظمِ دینیات پروفیسر فلاحی کا خطاب

1,246

علی گڑھ : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ندیم ترین ہال میں تراویح میں تکمیل قرآن کے موقع پر حافظ قاری محمد عثمان اور تمام مصلیین کو خطاب کرتے ہوئے ناظمِ دینیات پروفیسر توقیر عالم فلاحی نے کہاکہ آپ اور تمام مسلمانان عالم دنیائے انسانیت کے وہ خوش نصیب افراد ہیں کہ اللہ کی مستند ترین اور تمام عیوب و نقائص سے پاک کتاب قرآن مجید کے آپ امین ہیں لیکن اگر اس کتاب کی امانت کا حق ادا نہیں کیا گیا تو گویا ہم ظالم ہوں گے اور دنیا کی مظلوم ترین کتاب قرآن مجید ہوگی۔

پروفیسر فلاحی نے سامعین کو گوشِ گذار کرایا کہ جس طرح اسلام امانت کی شکل میں اللہ رب العزت کی جانب سے پوری انسانی برادری کے لئے  انتہائی قیمتی دولت ہے اسی طرح قرآن مجید اس مذہب کے منشور (Manifesto) کی شکل میں عظیم ترین نعمت ہے ۔ اس عظیم ترین نعمت کی امانت کا بار امت مسلمہ کے کاندھوں پر رکھا گیا ہے جس کا اولین تقاضہ یہ ہے کہ امتِ مسلمہ قرآن مجید کو ضابطۂ زندگی یا دستورِ زندگی کی حیثیت سے پڑھے ، سمجھے اور اس کی تعلیمات کو حرزِ جاں بناتے ہوئے عملی زندگی کو سنوارے۔یقینا دنیا کی دوسری کتابوں کے بر عکس قرآن مجید کا ہی امتیاز ہے کہ اس کو بغیر سمجھے ہوئے پڑھنے کے باوجود اس کتاب سے نفرت یا اس سے دوری نہیں پیدا ہوتی بلکہ اس صورت میں بھی ہر بار نئے حوصلے، نئے جذبے اور نئی لذت و شیرینی کے ساتھ قاری اس کی قرات میں محو و مستغرق ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہوتا ہے ۔ بار بار پڑھنے کے باوجود اس کتاب سے اکتاہٹ یا نفرت پیدا نہیں ہوتی ،چاہے اس کتاب کے مضامین یا مفاہیم سمجھ میں آرہے ہوں یا نہ۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ اتنی مقدس ترین ، تمام قسم کے قطع و برید اور حذف و اضافہ سے پاک اور دونوں جہاں کی فلاح وکامرانی کی ضامن کتاب کو ہمارا بغیر سمجھے ہوئے پڑھنا اس کتابِ عظیم پر بڑا ظلم ہے ۔

اس کتاب کو ریشم کے قیمتی جز دانوں میں رکھا جائے ، اونچے اونچے طاقوں پر سجایاجائے ، احترام و عقیدت سے چوما جائے، اسے سینے سے لگایا جائے ، کسی کی موت پر قرآن خوانی کر لی جائے ،کسی مکان یا دوکان کی تعمیر پر اس کی مقدس آیات سے اس کا افتتاح کر لیا جائے اور کسی پروگرام کے افتتاح کے لئے تبرکا اس کی آیاتِ کریمہ کو حوالۂ سامعین کرادیا جائے، یقینا یہ سب قرآن مجید کے احترام کے مظاہر ہیں لیکن ضمنی  (Subsidiory)ہیں۔ قرآنِ مقدس کی عظمت کا اصل مظہر یہ ہے کہ اس کتاب کو سمجھ کر پڑھا جائے اور زندگی کے دیگر شعبہ جات کے لئے جو درخشاں تعلیمات اس کتاب میں موجود ہیں ، انہیں عملی زندگی میں برتا جائے۔

ناظمِ دینیات پروفیسر فلاحی نے گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ چوںکہ ہم اس کتاب کے مالک نہیں بلکہ امین ہیں اور اس کی امانت کے تقاضوں میں ایک بڑا تقاضا یہ ہے کہ اس عالمگیر ہدایت نامے کو دنیائے انسانیت تک پہچایا جائے ۔ اس عظیم الشان توشۂ ہدایت سے متعلق اگر ہم یہ فریضہ اپنی استطاعت کے مطابق انجام نہیں دیں گے تو یقین مانئے کہ ہم انسانوں کے سب سے بڑے حق کو مجروح کریں گے اور پوری انسانیت کے ساتھ خیانت کے مرتکب ہوں گے نیز اللہ کی بارگاہ میں ہم اپنے آپ کو مواخذہ سے بچا نہیں سکیں گے۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن مجید کو پڑھیں ، سمجھیں اور اس پر عمل کریں ، اور دوسری طرف اس امانت کو حسبِ استطاعت انسانوں تک منتقل کریں ۔ اگر ہم نے قرآن مجید کی عظمت کے شایانِ شان سلوک وبرتاؤ کیا تو یقین جانئے کہ ہم دنیا کی اس چند روزہ زندگی میں بھی کامیاب رہیں گے اور آخرت کی ابدی کامیابی بھی ہمارے حصہ میں آئے گی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.