صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

طالبان کی فتح کی معنویت

46,140

 ممتازمیر

   گزشتہ کئی دنوں سے مرحوم امت مسلمہ طالبان کی فتح پر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے۔ حالانکہ اس فتح پر خوش ہونے کا حق صرف حماس ،اخوان،بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی اور کسی حد تک حزب اللہ کو ہے ۔دنیا کے باقی مسلمانوں کے لئے خصوصا ہندوستانیوں کے لئے تو یہ رونے کا مقام ہے ۔ کیوں؟ آئیے دیکھتے ہیں ۔

   ۱۷ رمضان المبارک۲ہجری کو بعثت بنوی ﷺکے بعد پہلی جنگ ہوئی تھی جسے غزوہ بدر یا یوم الفرقان کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس نام کی بڑی معنویت ہے۔اس جنگ کے ذریعے اللہ نے حق کو باطل سے بالکل الگ کر دیا ۔یہی کام آج طالبان کی فتح نے بھی کیا ۔طالبان نے بھی تعداد اور وساائل کی کمی جیسے بہانوں کو حرف غلط کی طرح مٹادیا ۔طالبان نے اس حقیقت کو دوبارہ establish مستحکم کیا کہ خدا پر ایمان رکھ کر ہم دنیا کی کسی بھی طاقت سے نہیں پوری دنیا سے ایک ساتھ لڑ سکتے ہیں۔عموما یہ سمجھا جا تا ہے کہ غزوہء بدر میں اصحاب رسول نے بہادری و شجاعت کے وہ جوہر دکھائے کہ ہزاروں کی تعداد میں ہونے والے مشرکین کے قدم اکھیڑ دئے۔بلا شک و شبہ اصحاب ؓرسول بہادر تھے شجاع تھے بے خوف تھے ۔مگر فتح کی وجہ یہ نہ تھی۔اللہ خود قرآن میں فرماتا ہے کہ ہم نے پے در پے میدان بدر میں فرشتے اتارے اور فرشتوں کو کون شکست دیتا۔لاریب!صحابہء کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے بھی جنگ لڑی ۔شہیدبھی ہوئے ۔لیکن اگر وہ نہ لڑتے تو کیا فتح حاصل نہ ہوتی؟آئیے ۔ہم دیکھتے ہیں خود خدائے بزرگ وبرتر قرآن میں جنگ بدر کی کیا تفصیل بیان کرتا ہے ۔

سورہء انفال کی ۹ویں آیت سے ہم ترجمہ شروع کرتے ہیں۔’اور یاد کرو وہ موقعہ جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمھاری مدد کے لئے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں ۔یہ بات اللہ نے تمھیں اسلئے بتادی کہ تمھیں خوش خبری ہو اور تمھارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں۔ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔اللہ یقینا زبردست و دانا ہے‘‘  آگے اللہ تعالیٰ مزید حضور ﷺ سے فرماتا ہے کہ وہ جو تم پر میدان جنگ میں غنودگی یا نیند کی کیفیت طاری ہوئی تھی وہ بھی ہماری طرف سے تھی(ورنہ میدان جنگ میں کس کی آنکھ لگتی ہے۔م م)

مومنین کا جہاں پڑاؤ تھا وہ جگہ ریتیلی تھی ۔اللہ نے بارش برسا کر اسے جما دیا اور ظاہری نجاست کو بھی دور فرمادیا۔صحابہء کرام تعداد میں کم تھے،پوری طرح مسلح بھی نہ تھے ۔سواریاں بھی کم تھیں ۔دو تین گھوڑوں اور ۷۰ اونٹوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا ،زرہیں تو دور، ان کے پاس تن ڈھانکنے کے لئے کپڑے بھی ڈھنگ کے نہ تھے ۔ان حالات میں مکہ کے مکمل طور پر مسلح اوربا وسائل امیروں سے مقابلہ اور ان پر فتح۔کیا یہ اسلام کو بطور ایک سچا دین قائم کرنا نہیں تھا ۔اس فتح نے اسلام کو ایک حقیقت کے طور پر جزیرۃالعرب میں establish کر دیا تھا ۔اس فتح کے بعد خدا اور رسول کے دشمن انھیں مذاق نہیں سنجیدہ دشمن سمجھنے لگے تھے ۔اور خود صحابہ کرام کی جو ایمانی کیفیت تھی اسے بیان نہیں کیا جا سکتا اور ہمارے پاس وہ دل نہیں جو اسے محسوس کر سکے۔

   سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس گروہ انسانی پر اتنا مہربان کیوں تھا لڑنے کے لئے آسمان سے فرشتے بھیجے،نیند طاری کی،بارش برسائی ،کافروں کی آنکھوں میں آندھی چلوائی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مہاجرین نے اللہ کی رضا کی خاطر گھر چھوڑا ،وطن چھوڑا ،جائداد چھوڑی اور بعضوں کو تو آل اولاد بھی چھوڑنا پڑا۔دوسری طرف انصار نے بھی اللہ کی خوشنودی کی خاطرقربانیوں کی حد کردی۔ہجرت کرنے والوں میں اپنا سب کچھ برابر برابر بانٹ دیا ۔یہاں تک کہ اپنی ایک ایک بیوی کو بھی طلاق دینے کے لئے تیار ہوگئے۔اور بیویاں بھی خوشی خوشی مہاجرین کے نکاح میں جانے کو تیارہوگئیں۔مہاجرین و انصار کی یہی ادائیں کیا کم تھیں کہ اللہ کے حکم پر ابو سفیان کے قافلے جیسے soft target آسان ہدف کو چھوڑ کر یقینی موت والے ٹارگٹ کے سامنے کھڑے ہوگئے۔مہاجرین کی مصیبت تو دوہری تھی ۔ان کےسامنے اپنے ہی رشتے دار کھڑے تھے۔حد یہ تھی کہ باپ کے سامنے بیٹا تو بیٹے کے سامنے باپ تلوار سونتے کھڑا تھا ۔مگر مرضیء مولا کی خاطر نہ بیٹے نے باپ پر رحم کھایا نہ باپ کے ہاتھوں میں بیٹے کو قتل کرتے ہوئے لرزش تھی ۔اور اسی لئے تو اسے یوم الفرقان کہا جا تا ہے ۔

   کم وبیش یہی حال طالبان یا افغانوں کی تازہ فتح کا ہے۔طالبان کی فتح سے جو ایمانی کیفیت  دلوں میں پیدا ہونی چاہئے اسے بھی بیان نہیںکیا جا سکتا اورہمارے پاس وہ دل نہیں جو محسوس کر سکے۔طالبان یا افغانوں کی یہ فتح موجودہ دور کا یوم الفرقان ہی ہے ۔اس آئینے میں ہم جیسے Pseudo مومنین کو اپنے چہرے اسلام کے ساتھ اپنے رویے دیکھنے چاہئیں جو ہر کام کرنے سے پہلے اللہ کی مدد کے طالب ہوتے ہیں۔جبکہ اللہ کی مدد تو ہمیشہ کام شروع کرنے کے بعد کام کرنے والوں کی نیت اور اخلاص کو دیکھ کر آتی ہے ۔ہم ہر معاملے میں بہانے بازی کے عادی ہیں ۔آخری زمانے کی احادیث کہتی ہیں کہ ہمیں جنگل میں جا کر رہنا چاہئے مگر ہمارے نزدیک یہ کام ۴۲ ممالک کی جدید ہتھیار رکھنے والی فوج کے سامنے کھڑے ہونے سے زیادہ مشکل ہے ۔

اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب جب جو جو اس کے بھروسے پر کھڑا ہوا اسے اللہ کی مدد میسر آئی۔ہم روس اور افغان مجاہدین کی جنگ پر کچھ کتابیں پڑھ چکے ہیں،جی چاہتا ہے کہ ایک واقعہ نقل کردیں۔مجاہدین کا ایک کمانڈر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھا ہوا ہے۔ایک سانپ کمرے میں داخل ہوتا ہے اور کمرے کا چکر لگاتا ہے ۔ایک مجاہد اسے مارنا چاہتا ہے مگر کمانڈر اسے روک دیتا ہے ۔سانپ چکر لگا کر باہر نکل جاتا ہے ۔تھوڑی دیر بعد سانپ کمرے میں دوبارہ داخل ہوتا ہے اور کمانڈر کے پیروں کو لپٹ کر اسے کمرے سے باہر کھینچنے کی کوشش کرتا ہے۔پھر چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل جاتا ہے ۔اب یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی قسم کا اشارہ کر رہا ہے۔

یہ سانپ کے پیچھے پیچھے جاتے ہیں۔کچھ دور جانے کے بعد انھیں زمین پر دو جسم پڑے نظر آتے ہیں۔یہ دوڑ کر ان جسموں تک پہونچتے ہیں ۔الٹ پلٹ کر دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ انھیں سانپ نے ڈسا ہے ۔پلٹ کر سانپ کو دیکھتے ہیں تو وہ  غائب ہو چکا ہوتا ہے ۔ان مردہ جسموں کی تلاشی لینے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ غدار مجاہدین ہیں اور دشمن کو اڈے کا نقشہ اور ایک دوسرے کمانڈر کا خط بھیجنے والے تھے۔اسے آپ کیا کہیں گے۔اللہ کی مدد ایسے ہی آتی ہے۔ہم کاہل ،غافل ۔تھڑدلے ،بزدل مگر چالاک و مکار۔

ہم نے سورۃالکہف پر عمل کرنے کی بجائے ابتدائی و انتہائی دس دس آیات کی جمعہ کے روز تلاوت کو تیر بہدف نسخہء شفا بنا لیا ہے ۔اور یہ تیر بہدف نسخہ بریلویوں کا نہیں دیوبندیوں کا ہے۔ان میں بھی کون؟ تحریک کے دھرندروں کا۔کتنی دلچسپ ہے یہ حقیقت کے یہ بھی دیو بندی اور افغان مجاہدین بھی دیوبندی(چاہے امریکہ کے خلاف لڑنے والے ہوں یا روس کے)۔اسی لئے علامہ نے کہا تھا۔(۱)ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور (۲)کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور ۔

  تو صاحبو!۴۲ ممالک کی جدیدہتھیاروں سے لیس ،جدید ذرائع نقل وحمل سے لیس ،جدید ذرائع مواصلات سے لیس اور نا معلوم کن کن چیزوں سے لیس فوج پر طالبان کی اس فتح نے ہماری اس آخرت کوجو پہلے ہی سے بہت دگرگوں تھی مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔پہلے ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ نہ ہم نے نبی ﷺ کو دیکھا ہے نہ غزوہ بدر کو نہ فتح مکہ کو۔مگر اب تو اللہ تعالیٰ نے اتمام حجت ہی کردیا۔پہلے ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اس میں بغیر وسائل کے نہیں رہا جا سکتا ہے ۔ہم کس کے بھروسے جنگل میں جا کر رہیں ۔ ہم کیسے اصحاب کہف بن جائیں۔ اب تو اللہ ان اعذارلنگ کے جواب میں کہے گا۔بے وقوفو ! کیا تم نے جنگلوں کے باسی طالبان کی فتح دیکھی نہ تھی ۔کیا تم نے اس فتح پر خوشی کے شادیانے نہ بجائے تھے۔اگر تم جنگل میں چلے جاتے تونہ شہریت کا مسئلہ اٹھتا،نہ پرسنل لاء کو کوئی چھیڑتا،نہ ویکسین کی زور زبردستی ہوتی ۔ نہ تمھاری نور نظر لخت جگر گھروں سے بھاگتی۔

مضمون نگار سے رابطہ 7697376137

Leave A Reply

Your email address will not be published.