صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

ماہِ رمضان کے چند کو لیکر نا اتفاقی کیوں ؟

1,487

 

 

ماہِ رمضان کے ہلال کی رویت کے مسئلہ پر اس سال پھر بڑی افرتفری ہوئی۔ ملک کے اکثر حصوں میں چاند نظر نہیں آیا۔ لیکن تمل ناڈو ، آندھرا پردیش اور کرناٹک کے بعض علاقوں میں رویت کی مصدقہ اطلاعات موصول ہوئیں۔ ان اطلاعات کی بنیاد پر جنوبی ہند کی ریاستوں میں تو ماہِ رمضان کی شروعات میں کوئی الجھن پیدا نہیں ہوئی لیکن مہاراشٹر اور اس کے اوپر شمال کے علاقوں میں یہ مسئلہ سخت نزاعی بن گیا۔بعض لوگوں نے جنوبی ہند کی رویت کو قبول کرتے ہوئے ماہ رمضان کے آغازکا اعلان کردیا اور بعض لوگوں نے   اسے تسلیم نہیں کیا۔ چنانچہ جمعرات ۱۷/مئی کو بعض جگہ یکم رمضان رہی تو بعض جگہ تیس شعبان۔ بعض شہروں میں تو ایک ہی شہر کی الگ الگ مسجدوں میں بھی اختلاف رہا۔ کئی جگہوں پر آدھی رات کے بعد اعلان ہوا اور تراویح کی نماز ادا کی گئی۔

تیز رفتار مواصلات کے اس دور میں, اس اختلاف اور کنفیوژن سے کئی لوگوں نے سخت الجھن محسوس کی۔ چنانچہ سوشل میڈیا پر طنز و تشنیع اور تند و تیزتبصروں کا طوفان بپا ہوگیا۔ لوگوں نے علماء کو فلکیات پڑھنے کا درس دیا تو معترضین کو جواب میں شریعت پڑھنے کا مشورہ ملا۔ فلکیاتی حساب کی بنیاد پر اسلامی کیلنڈر کی تعیین کے مسئلہ نے پھر زور پکڑا۔ بہت سے نوجوانوں کے لئے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جو علماء، نمازوں اور سحر و افطار کے اوقات کی تعیین کے لئے  فلکیاتی حساب کی مدد لیتے ہیں  اور سال بھر کے بلکہ مستقل ہر زمانہ کے اوقات کا تعین کردیتے ہیں، انہیں ہلال کی تاریخ کی تعیین میںعلم فلکیات کی مدد لینے میں کیا دشواری ہے؟ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ادھوری معلومات کی بنیاد پر رویت ہلال کی سائنسی پیشنگوئی کو بھی ویسے ہی قطعی باور کراتے ہیں جیسے طلوع آفتاب کے وقت کی۔

ہمار ا خیال یہ ہے کہ بہت سے تعلیم یافتہ دوستوں کی یہ الجھن مسئلہ کو پوری طرح نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔

سورج کے طلوع او ر غروب اور اس دوران، اس کے دیگر مختلف مرحلوں سے گذرنے کا عمل ایک فلکیاتی عمل ہے۔ سورج ، اپنے بڑے سائز اور نہایت روشن وجود کے ساتھ، دن کے تمام اوقات میں مکمل طور پر ہماری نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اسے دیکھنے میں کسی کو بھی کوئی دشواری  پیش نہیں آتی۔ نہایت معمولی بینائی رکھنے والا بھی اسے دیکھ سکتا ہے اور یہ بھی تعین کرسکتا ہے کہ وہ اس وقت، زمین کی گردش کی نسبت سے، کس مرحلہ میں ہے۔ چنانچہ اردو زبان میں بالکل ناقابل تردید حقائق  کے لئے  روز روشن یا سورج کی طرح واضح ہونے کا محاورہ استعمال کیا جاتاہے۔ سورج کی اس حرکت اور اس کے اوقات کو فلکیاتی حساب کے ذریعہ متعین کیا جاسکتا ہے۔ مغرب کی نماز کا وقت اگر نصوص میں غروب آفتاب کے بعد بتایا گیا ہے تو آسانی سے حساب لگایا جاسکتا ہے کہ کسی مقام پر غروب آفتاب کا وقت کیا ہے؟ فلکیات کے مسلمہ اصول ان اوقات کی قطعی اور ناقابل تردید  تعیین کردیتے ہیں۔اس لئے علما ءمیں بھی اس مسئلہ پر کوئی اختلاف نہیں ہے اور دنیا بھر کے علماء جدید علوم سے فائدہ اٹھا کر بنائے گئےاوقات کے چارٹ منظور کرتے ہیں اور خود بھی انہی پر منحصر رہتے ہیں۔

چاند کا مسئلہ ایسا نہیں ہے۔طلوع و غروب کا تعلق  سورج کی حرکت سے ہے جس کا وقت متعین کیا جاسکتا ہے لیکن قمری مہینوں کی شروعات کا تعلق چاند کی حرکت سے نہیں بلکہ اس کی رویت سے ہے۔چاند ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اور جن فلکیاتی اعمال کو ’ نئے چاند کی پیدائش‘ یا   ’ چاند کا طلوع ‘ وغیرہ کہا جاتا ہے وہ بے شک متعین فلکیاتی اعمال ہیں  لیکن ان کا کوئی تعلق نصوص میں ، اسلامی مہینہ کی شروعات سے نہیں ہے۔ نصوص کے مطابق، ماہ کی شروعات رویت ہلال یعنی چاند دیکھنے سے ہونی چاہیے۔(لا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْا الْهِلالَ وَلا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ)رویت  ہلال کا تعلق صرف فلکیات سے نہیں بلکہ بصریات سے بھی ہے۔ اس لئے کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے رویت ہلال کی سائنس کو تھوڑا گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

چاند ہماری زمین کے اطراف ایک بیضوی مدار میں گردش کرتا ہے اور اس دوران زمین بھی سورج کے اطراف اپنے مدار میں گردش کرتی ہے۔ چاند کو اپنا دور مکمل کرنے کے لئے ۲۹ دن بارہ گھنٹے ۴۴ منٹ اور ۲ سیکنڈ ( یعنی ساڑھے انتیس دن سے کچھ زیادہ)درکار ہوتے ہیں۔ یہ حساب سورج کے حساب ہی کی طرح واضح اور متعین ہے اس لئے بعض دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور قوموں نے جو قمری کیلنڈر بنائے ہیں اس میں وہ ۲۹ اور ۳۰دن کے مہینے یکے بعد دیگرے رکھتے ہیں اور تین سال میں مزید ایک دن کا اضافہ کرکے چاند کی گردش کے حسب حال اپنا قمری کیلنڈر مکمل کرتے ہیں۔ اہل اسلام کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے لئے  صرف یہ کافی نہیں ہے کہ ان کا سال چاند کی گردش کے مطابق ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر ماہ چاند کی رویت کی بنیاد پر ہو۔

زمین کے اطراف چاند کی گردش کی رفتار یکساں نہیں ہوتی۔ چونکہ مدار بیضوی ہے اس لئے بعض اوقات وہ زمین سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور کشش ثقل کی وجہ سے اس کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور جب وہ زمین سے دور ہوجاتا ہے تو رفتار کم ہوجاتی ہے۔

ان سب وجوہ سے،جب بات چاند دیکھنے یا رویت کی ہوتی ہے تو مسئلہ بہت پیچیدہ ہوجاتا ہے اور اتنا سادہ نہیں رہ جاتا جتنا سورج کی گردش کا مسئلہ ہے۔ چاند زمین کے اطراف جب اپنا ساڑھے اننتیس دن کا سفر مکمل کررہا ہوتا ہے تو اس دوران مختلف مرحلوں میں ،  زمین پر سے اس کا نظارہ مختلف عوامل پر منحصر ہوتا ہے۔

چاند پر سورج کی روشنی پڑکر منعکس ہوتی ہے اور ہماری آنکھوں سے آملتی ہے تو ہمیں چاند روشن نظر آتا ہے۔ اس طرح چاند کا نظارہ سورج، چاند اور دیکھنے والے کے درمیان بننے والے زاویہ پر منحصر ہوتا ہے او ر اسی بنیاد پر چاند چھوٹا ، بڑا اور کبھی ناقابل دید بھی ہوجاتا ہے۔

مہینہ کے بالکل آخر میں چاند، زمین اور سورج کے درمیان اس طرح آجاتا ہے کہ یہ تینوں بالکل ایک خط مستقیم میں ہوجاتے ہیں۔ اس وقت چاند پر پڑے والی سورج کی شعاعیں منعکس ہوکرزمین پر نہیں آپاتیں، اس لئے چاند بالکل نہیں دکھائی دیتا۔ اسے فلکیات کی اصطلاح میں نیا چاند new Moon کہتے ہیں۔اس عمل کو چاند کی پیدائش Moon Birthیا اقتران Conjunctionبھی کہا جاتا ہے۔فلکیاتی حساب کے ذریعہ اس کی تاریخ اور وقت آسانی سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔

اگر مہینہ کے آغاز کے لئے طلوع و غروب آفتاب کی طرح کوئی فلکیاتی عمل مثلاً نیا چاند بنیاد بنایا جائے تو آسانی سے کیلکولیٹ کرکے کیلنڈر بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن شارع نے فلکیاتی عمل کو نہیں بلکہ رویت کو بنیاد قرار دیا ہے۔ چاند کی گردش کے مرحلے کیلکولیٹ کرنا تو نہایت آسان ہے لیکن یہ اپنی گردش کے کس مرحلہ میں کس مقام سے قابل رویت ہوگا، خصوصاً پہلی تاریخ کے ہلال کے سلسلہ میں ،اس کا تعین بہت پیچیدہ ہے۔

نئے چاند کے مرحلہ کے بعد دھیرے دھیرے چاند نظر آنا شروع ہوتا ہے۔ پہلی بار بہت باریک حصہ نظر آتا ہے جسے ہلال کہتے ہیں ۔ اگلی تاریخوں میں یہ دھیرے دھیرے بڑھنے لگتا ہے۔پہلی بار، یعنی پہلی تاریخ کا ہلال کسی مقام سے کب نطر آئے گا، اس کا انحصار بہت سی باتوں پر ہوتا ہے۔

۱۔ چاند دکھائی دینے کے لئے ضروری ہے کہ وہ سورج غروب ہونے کے  بعد غروب ہو۔ اس لئے کہ چاند ، سورج کی موجودگی میں دکھائی نہیں دے سکتا۔بعض ماہرین کے نزدیک یہ بھی ضروری ہے غروب آفتاب کے بعد کچھ وقت کے بعد وہ غروب ہو۔

۲۔ چا ند دکھائی دینے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جس مقام سے چاند دیکھا جارہا ہے وہاں سے سورج کے ساتھ اس کا زاویہ کم سے کم بارہ ڈگری کا ہو۔اسے فلکیات کی اصطلاح میں زاویہ  استطالہ Angle of Elongationكہا جاتا ہےبارہ ڈگری سے کم زاویہ استطالہ  پر ہماری آنکھیں اسے دیکھ نہیں پاتیں۔

۳۔ یہ بھی ضروری ہے کہ چاندغروب آفتاب کے بعد  افق پر کم سے کم بارہ ڈگری کی بلندی (ارتفاع یا Altitude)پر ہو۔اس سے کم بلندی پر وہ ہماری نظر کے دائرہ میں نہیں آپاتا۔

ان میں سے بعض  کے سلسلہ میں ماہرین فلکیات میں اختلاف بھی ہے۔

ان سب باتوں کا لحاظ کرکے کسی مقام سے چاند کی رویت کا وقت محسوب کرنا بہت مشکل کام ہے۔ آج کل کمپیوٹرز کی مدد سے یہ پیچیدہ حسابات بھی ممکن ہوگئے ہیں۔ زمین کے نقشے  پر وہ  تمام علاقے جہاں سے کسی مخصوص تاریخ کو پہلی بار ہلال دکھ سکتا ہے،ایک مخصوص شکل بناتے ہیں جسے جیومیٹری میں پیرابولا  (قطع مخروط)کہا جاتا ہے۔ اس سے مطالع کی قدیم بحث بھی غیر متعلق ہوجاتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ حید رآباد اور نظام آباد کسی وقت الگ الگ پیرا بولا میں ہو ں اوراس وقت حیدرآباد اور افریقہ کا کوئی  دوردراز علاقہ ایک ہی پیرا بولا میں ہو۔یہ پیرا بولہ ہر ماہ بدلتے رہتے ہیں۔لیکن بہر حال ان کا اندازہ  کمپیوٹرز کی مدد سے ہزاروں حسابات کرکے لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی عوامل ہیں جن پر رویت منحصر ہوتی ہے۔ ان میں خاص طور پردرج ذیل عوامل قابل ذکر ہیں۔

۱۔ جس مقام سے چاند دیکھا جارہا ہے، زمین پر اس کی جغرافیائی نوعیت۔ زمین کی اونچ نیچ بھی چاند ، سورج اور دیکھنے والے کے درمیان زاویہ کو متاثر کرسکتی ہے۔

۲۔ زمین پر ماحولیاتی صورت حال۔ فضا میں موجود آلودگی، آبی بخارات، کیمیائی اجزا ، گرد و غباروغیرہ  نہایت باریک ہلال کی رویت میں رکاوٹ بھی بن سکتے ہیں اور شعاعوں کے انعکاس وغیرہ کو متاثر کرکے بھی رویت پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور یہ عین ممکن ہے کہ مطلع ابر آلود نہ ہو تب بھی چاند دکھائی نہ دے۔

۳۔ دیکھنے والے کی بصارت اور اس کا تجربہ۔ تجربہ کارلوگ نہایت باریک ہلال آسانی سے دیکھ لیتے ہیں اور دیگر لوگ نہیں دیکھ پاتے۔

اس لئے کہا جاتا ہے کہ سائنسی طریقوں سے حقیقی رویت کی درست پیشن گوئی ناممکن ہے۔سائنسی طریقوں سے چاند کی حرکات کادرست اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے ، لیکن ان حرکات کے دوران کس مرحلہ میں وہ قابل رویت ہوگا ، اس کا حساب خصوصاً پہلی تاریخ کے نہایت باریک چاند کے سلسلہ میں لگاناممکن نہیں ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے لوگوں نے طرح طرح کی کوششیں کی ہیں ۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شریعت کا اصل مقصود چاند کی حرکت کی بنیاد پر ماہ و سال کا حساب ہے۔ چونہل آں حضرت ﷺ کے دور میں یہ چیز چاند دیکھ کر ہی ممکن تھی اس لئے رویت کا حکم دیا گیا ۔ اصل مقصود رویت نہیں ہے۔ چنانچہ اس خیال کی بنیاد پر بعض لوگوں نے عالمی قمری کیلنڈر کے لئے اور بعض لوگوں نے پہلے سے تاریخوں کے تعین کے لئے مختلف فارمولے تجویز کئے ہیں۔کسی نے کہا کہ نئے چاند کی پیدا ئش  یعنی اقتران کے بعد والا دن خود بخود نئے مہینہ کی پہلی تاریخ مان لی جائے ۔کسی نے مکہ مکرمہ کو بنیاد بنایا کہ نئے چاند کے بعد مکہ میں جب بھی غروب آفتاب ہوگا، وہ چاند رات ہوگی، یعنی اس کے بعد نکلنے والا دن مہینہ کی پہلی تاریخ ہوگا۔بعض لوگوں نے گرین ویچ کی عالمی ٹائم لائن کو بنیاد بنایا ہے کہ نئے چاند کے بعد گرین وچ پر جب بھی رات کے بارہ بجیں اس کے بعد ، دنیا کے کسی بھی خطہ میں جو رات آئے گی وہ وہاں چاند رات ہوگی۔ وغیرہ۔ ان سب  تجاویز میں یہ بات شامل ہے کہ رویت ہلال کی بجائے چاند کی گردش اور اس کے محل وقوع سے متعلق کوئی بات طئے کرلی جائے اور اسے نئے ماہ کی شروعات کی بنیاد قرار دیا جائے۔

ظاہر ہے کہ یہ سب تجاویز رویت کے اصل پیمانہ سے مختلف ہیں۔اور اسی وقت قابل قبول ہوسکتی ہیں جب یہ مانا جائے کہ اسلامی شریعت میں ماہ و سال کا صرف قمری ، یعنی چاند کی حرکت کو بنیاد بناکر ہونا کافی ہے ، ہر ماہ کا آغاز رویت کی بنیاد پر ہونا ضروری نہیں ہے۔ جو علماء، احادیث کے الفاظ کی بنیاد پر رویت کو ضروری سمجھتے ہیں وہ ان تجاویز کو قبول نہیں کرسکتے ۔ اور جو علماء ضروری نہیں سمجھتے اور  یہ سمجھتے ہیں کہ حدیث کی اصل اسپرٹ چاند دیکھنے کی نہیں بلکہ چاند کی حرکت کو بنیاد بنانے کی ہے اورحالات کے لحاظ سےاجتہاد کی گنجائش پاتے ہیں وہ ان کی تائیدکرتے ہیں۔

اس طرح یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رویت ہلال کا مسئلہ سورج کی گردش کے مسئلہ سے مختلف ہے۔ فلکیاتی بنیادوں پر اسے طئے کرنے کا مسئلہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور نصوص کی موجودگی میں اس طرح کا اجتہاد آسان نہیں ہے۔ اس میں اختلا ف بالکل فطری ہے۔ بعض علما ء کاحقیقی رویت پر اصرار فلکیات سے ناواقفیت کی وجہ سے نہیں بلکہ واقفیت کے بعد ، اسے ناکافی سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ اس موضوع پر متعدد عالمی کانفرنسیں ہوچکی ہیں جن میں وقت کے نامور ترین ماہرین فلکیات اور عالمی سطح کے معتبر ترین علماء جمع ہوکر گھنٹوں مباحث کرچکے ہیں۔ لیکن کوئی ایسی سبیل نہیں نکل سکی جس پر سب متفق ہوسکیں۔ یہ کوشش یقینا جاری رہنا چاہیے اور کوئی سبیل نکلتی ہے تو یقیناً اس سے بڑا فائدہ اور سہولت ہوگی۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ اسلامی کیلنڈر کو رواج دینا آسان ہوگا۔ ایک غیر یقینی کیلنڈر جس میں تاریخیں ، ایک رات پہلے تک غیر یقینی رہتی ہوں ، وہ  آج کے تمدنی حالات و مسائل کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس لئے جب تک یہ صورت حال رہے گی عملاً مسلمان بھی  اپنی دیگر ضرورتوں کے لئےمغربی کیلنڈر استعمال کرنے پر مجبور رہیں گے۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ درست، لیکن اس راستہ میں جو رکاوٹیں درپیش ہیں ، ان کا بھی اندازہ ہونا چاہیے۔ کسی کے پاس ان کا کوئی حل ہو تو اسے ضرور اس بحث میں حصہ لینا چاہیے لیکن اسے غیر ضروری لعن طعن اور علماء بمقابلہ سائنسدان کا مسئلہ بنانے کی کوشش مذموم ہی کہی جاسکتی ہے۔ اس سے زیادہ حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو اسے اتحاد و اتفاق کا مسئلہ بنادیتے ہیں۔ (محی الدین غازی صاحب نے اس موضوع پر بہت خوب لکھا ہے۔ ان کی تحریر بھی میں شیر کررہا ہوں) ملک کے سب لوگ ایک ساتھ روزہ رکھیں یا عید منائیں ، یا ایک ساتھ نماز پڑھیں یا ملک کی تمام مسجدوں سے ایک ہی وقت میں اذانیں بلند ہوں، یہ سب اتحاد کے لئے ضروری نہیں ہے۔ البتہ کنفیوژن اور افراتفری کی صورت حال یقینا پسندیدہ نہیں ہے۔تیزرفتار اطلاعات کے اس دور میں جب کہ آناً فانا ًدنیا  جہاں کی اطلاعات مل جاتی ہیں، ایک عام آدمی کو فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ کہاں چاند نظر آگیا اور کہاں نہیں۔ایسے میں محض رویت ہلال کمیٹیوں کے تذبذب کی وجہ سے ملک کے کروڑوں لوگوں کا کنفیوژن کی حالت میں رہنا نہایت افسوسناک بات ہے۔ اگر رویت کے ذریعہ ہی تاریخ طئے کرنا ہے تو وہ اتنا ہی آسان ہونا چاہیے جتنا اللہ کے رسول کے زمانہ میں تھا۔ ہر مسلمان کو معلوم ہو کہ اس کے شہر میں کہاں کی رویت معتبر ہے اور کہاں کی نہیں۔اس سلسلہ میں واضح گائیڈ لائن طئے ہوجائیں۔ وہاٹس اپ کے اس دور میں مغرب کی نماز کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ آج چاند رات ہے یا نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فقہ اکیڈمی جیسے ادارے اس سلسلہ میں واضح گائیڈلائن تیار کریں۔ اور یہ طئے کریں کہ کہاں کی رویت کہاں کے لئے قابل اعتبار ہے اور تمام مسلمان ان گائیڈ لائنز کی پابندی کریں۔ اس سے قبل بین الاقوامی  فقہ اکیڈمی اور مجلس تحقیقات اسلامیہ ندوۃ العلما ءوغیرہ اداروں نے ہندوپاک کو ایک مطلع قراردیا تھا۔ مطلع کی سائنسی بحثوں سے قطع نطر اگر یہی رائے شریعت کے مزاج سے قریب تر ہے تو اس کو سختی سے نافذکرنا چاہیے اور ملک میں کسی بھی جگہ رویت ثابت ہوجائے تو پورے ملک میں اسے قبول کرلینا چاہیے۔ ورنہ ریاستوں کی بنیاد پر یا شمال جنوب کی بنیاد پر یا کسی بھی بنیاد پر ملک میں ایک سے زیادہ زون بھی بنائے جاسکتے ہیں اور ایک زون کی رویت کو اس زون کے لئے قابل عمل قرارد یا جاسکتا ہے۔بہر حال جو بھی گائیڈ لائن واضح طور پر متعین ہو اور اس کی پابندی ہو تو ایسے کنفیوژن سے بچا جاسکتا ہے۔

(سید سعادت اللہ حسینی)

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.