نئے دور کا ٹرینڈ
قاسم میاں بڑی معصومیت سے بیٹے کی کالج پارٹی کیلئے کپڑے تیار کرتے ہوئے کہتےہیں ۔ بیٹا یہ کیسی ٹی شرٹ پہنی ہے ! دیکھ میں نے تمہارے لیے یہ والی شرٹ استری کردی ہے پہن لو ۔ ماں نہ ہونےکی وجہ سے اکثر و بیشتر بیٹے کے چھوٹے موٹے کام قاسم میاں ہی کردیا کرتے تھے ۔ وہ سوچتے تھے کہ ناصر کو دوسرے بن ماں کے بچوں کی طرح ماں کی کمی نہ محسوس ہونے پائے ۔ بیٹا بے رخی سے جواب دیتا ہے ۔ آپ تو رھنے دیں ۔ دیکھ رہے ہیں نا کہ میں نے پہلے ہی اتنی اچھی ٹی شرٹ پہنی ہوئی ہے مگر آپ کو صبر کہاں ۔
آپ تو چاہتے ہی ہو کہ میں یہ پرانی شرٹ پہنوں اور دوستوں میں میرا مذاق اڑایا جائے ۔ آپ کو تو ویسے بھی میرا کالج کے دوستوں سے ملنا جلنا پسند نہیں اور جب دیکھو پڑھائی پڑھائی پڑھائی ! دوستوں کے ساتھ انجوائے بھی نہیں کرنے دیتے ۔ قاسم میاں بیٹے کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بہت ہی عاجزی سے بیٹے کو شرٹ دکھاتے ہوئے کہتے ہیں ۔ بیٹا یہ تو ابھی نئی ہے اور دو ہی بار تو پہنی ہے تم نے ۔ ہاں پتہ ہے ابو دو ہی بار پہنا ہوں ۔ اور اب کتنی بار پہنوں ۔ میرے دوسرے دوست تو ایک بار سے زیادہ کوئی کپڑے پارٹی میں پہن کر نہیں آتے ۔ کئی بار تو ایسا ہوتا ہے کہ کپڑے پسند نہیں آتے تو بغیر استعمال کے ہی غریبوں کو دے دیتےہیں ۔ ناصر ایک ہی سانس میں اپنے ابو کو ساری باتیں سنا جاتا ہے ۔
قاسم میاں بیٹے کے اس جواب پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگے ۔
بیٹا یہ سب تو ٹھیک ہے تم نے جو ٹی شرٹ پہن رکھی ہے اس میں تو سوراخ ہے ۔ میری مت مانو لیکن اس چھید والی ٹی شرٹ سے تمہآرے دوست تمہارا مذاق نہ اڑانے لگیں گے ؟
ناصر جھنجھلا کر کہتا ہے اوہ ابو !
آپ کو نئے دور کے ٹرینڈ اور فیشن کے بارے میں بھی نہیں پتہ ۔
میں نے راہل کے ساتھ جاکر کل ہی تو آر مال سے یہ ٹی شرٹ خریدی ہے اور خاص طور سے اسی کالج پارٹی کیلئے ۔
یہ آجکل کا ٹرینڈ ہے !
اچھا اب جارہا ہوں ۔ سی یو میٹ یو ٹو مارو بائے ۔
ناصر بیگ اٹھاتا ہے اور چلا جاتا ہے ۔
قاسم میاں ناصر کو روکتے رہ گئے کہ بیٹا کھانا کھا کر جاؤ آج تمہاری ماں کی طرح تمہاری پسند کا کھانا بنایا ہے اور آج ہفتے کے آخری دن تو کھانا ساتھ مل کر کھاتے ہیں ۔ ناصر نے کہا ویسے پارٹی میں تو اسنیک وغیرہ ملے گا ہی واپس آکر کھا لیتا ہوں ۔
ناصر کے جانے کے بعد قاسم میاں نے ایک کپ چائے بنائی اور کرسی پر تنہا بیٹھ کر سوچنے لگے کہ یا خدا ہم کس زمانے میں جی رہےہیں ۔ ایک طرف جدید ٹکنالوجی نے بچوں کو لیپ ٹاپ اور موبائل میں مشغول کردیا ہے اور پھر یہ روز کی برتھڈے کالج پارٹی اور گلیمرس زندگی نے بچوں کو تمام رشتوں سے بیگانہ کر دیا ہے ۔ دل میں اکثر خیال آتا ہے کہ بیٹا کبھی فرصت کے اوقات میں باپ کی تنہائی اور درد میں شریک ہو ۔ کبھی میں اس کی ماں حاجرہ کے ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کو یاد کروں اور کبھی تو بیٹا بھی اپنی ماں کے بارے میں سوال کرے تاکہ ماضی کی ان خوبصورت یادوں کے سہارے ہی کچھ تو دل کے درد کو راحت پہنچے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اب زندگی میں جینے کیلئے یادوں کے سوا بچا ہی کیا ہے ۔ شاید مسابقت اور مادہ پرستی کے جنون میں نئی نسل اپنی اس قدیم اور قیمتی روایت سے بھی محروم ہو چکی ہے ۔ انہیں اپنے اور اپنوں کے بارے میں سوچنے کی بھی فرصت نہیں ہے ۔ ایک والدین ہی تو ہیں جن کے پیار میں خلوص ہوتا ہے ۔
وہ اپنے اس پیار اور محبت کے بدلے میں بچوں سے کیا چاہتے ہیں ۔
بس اولاد کی قربت لیکن شاید اب والدین کے تئیں بچوں کی قربت اور یاد بھی رسم و رواج کے سوا کچھ نہیں رہ گئی ۔ اب تو نئی نسل ٹرینڈ کی دیوانی ہے ۔لیکن انہیں کون سمجھائے کہ یہ ٹرینڈ اور فیشن کی ایجاد کون کرتا ہے یہ سب فیشن انڈسٹریز کے ایجنٹوں کا کھیل ہے تاکہ ان کی سجاوٹ کے سامان ہوٹل کی تجارت کاسمیٹکس اور بیوٹی پارلر انڈسٹری اور تفریح کی سب سے بڑی تجارت فلم جگت کی منافع بخش تجارت کو فروغ حاصل ہو ۔ کچھ دن پہلے مدر ڈے پر لوگوں نے خوب ڈرامہ کیا ۔ فیس بک وہاٹس اپ اور ٹوئٹر پر ماں کی اہمیت کے بارے میں خوبصورت اشعار اور ڈائیلاگ سے خراج تحسین کا مظاہرہ کیا گیا کچھ دن بعد فادرس ڈے ہوگا اور بچے بوڑھے باپ سے کہیں گے ابو جان مسکرائیے نا اور پھر دنیا کی نالائق اولادیں بھی مسکراتے ہوئے باپ کی سیلفی لیکر اپنی ڈی پی کو سجانا شروع کردیں گے ۔ یہ بھی والدین کو بیوقوف بنانے کا ہی ایک ٹرینڈ ہے اف یہ نئے دور کا ٹرینڈ !
والدین سے محبت جو کبھی عبادت کا درجہ رکھتی تھی بچوں کیلئے محض ایک رسم اور ایک دن کے جشن کا بہانہ بن چکی ہے ۔ یہ بھی تو آج کے دور کا ایک ٹرینڈ ہی ہے کہ ماں باپ جن بچوں کو بہت ہی لاڈ پیار اور محنت و مشقت سے پرورش کرکے جوان کرتے ہیں کہ وہ بوڑھاپے میں والدین کا سہارا بنیں بڑھاپے میں بچے انہیں بوڑھوں کے آشرم میں چھوڑ آتے ہیں اور پھر بچوں کے پاس مدر ڈے اور فادرس ڈےکے علاوہ کوئی وقت ہی نہیں ہوتا جو وہ اپنے والدین کو دے سکیں ۔ آشرموں میں قید بوڑھے والدین کو ان جھوٹی رسومات سے تکلیف پہچتی ہے لیکن اس بات کا احساس جب خود بچوں کو ہوگا اس وقت وہ خود بوڑھے ہوچکے ہونگے اور شاید اس وقت ان کے اپنے بچے انہیں آشرم میں چھوڑنے کی تیاری کر چکے ہونگے اور پھر وہ بھی سال میں ایک دو بار مدر ڈے اور فادر ڈے کے موقع پر اپنے بچوں کے ساتھ منھ چڑھا کر چلے جائیں گے ۔ والدین کے ساتھ ظلم بے رحمی اور ناانصافی کا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا ۔ یہ بات اب کون کسے سمجھائے کہ ائے بنی آدم یہ ظلم تم خود اپنی ذات کے ساتھ کر رہے ہو کیوں کہ یہ تم ہی تو ہو جو بیٹے کی شکل میں والدین کا پیار پاتے ہو ، والدین کی شکل میں بچوں سے پیار کرتے ہو۔جوانی میں یہ بھول جاتے ہو کہ والدین نے تمہیں بے پناہ پیار دیا تھا اور پھر بڑھاپے میں اسی محسن کو آشرموں میں گھٹ گھٹ کر مرنے کے لیئے چھوڑ جاتے ہو ! تم اپنے بوڑھے والدین کو نہیں خود کو چھوڑنے کی عادت ڈالتے ہو کیوں کہ یہ سلسلہ تو چلتے رہنا ہے اور تمہیں بھی تو یہیں آنا ہے ۔ قاسم میاں جو کسی گہری سوچ میں کرسی پر ہی سو چکے تھے اچانک دروازے پر بیل کی آواز سے بیدار ہوجاتے ہیں ۔ گھڑی میں دو بج رہےہیں ۔ قاسم میاں نے دروازہ کھولا ۔ چہرے کی مسکراہٹ سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ بیٹے کے آنے کی خوشی میں اطمینان محسوس کر رہے تھے ۔ انہوں نے بہت ہی قرینے سے ڈائنگ ٹیبل پر کھانا لگایا اور بیٹے کو کھانے کیلئے آواز دی ۔ ناصر بیٹے کھانا پروس دیا ہے ۔ ناصر نے کہا ابو کتنی بار کہا کہ زیادہ دیر ہوجائے تو کھانا کھا لیا کریں یہ کوئی کھانے کا وقت ہے ۔ میں نے دوستوں کے ساتھ آج میکڈونلڈ میں کھانا کھا لیا ہے ۔ قاسم میاں میں اتنی جرات نہیں رہی کہ وہ بیٹے سے پوچھ سکیں کہ یہ میکڈونلڈ کا ٹرینڈ کیا ہے کیوں کہ آج کی نئی نسل میں والدین سے بغاوت اور بدتمیزی کا بھی تو ٹرینڈ شروع ہوچکاہے !
سمیہ عمر فراہی