صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

لکھنے سے پہلے حالات کی جانکاری ضروری ہے

282,628

ممتاز میر

اب تک ہم قریب ۴۰ ڈاکٹروں سے یہ سوال کر چکے ہیںکہ کیا آپ نے کرونا وائرس کا کوئی مریض دیکھا ہے َیاکسی مریض پر کرونا کا شبہ ہوا ہے یا کسی میں کرونا سے ملتے جلتے sign and symptoms  کا مشاہدہ کیا ہے ؟ مگر کسی ایک ڈاکٹر نے بھی جواب اثبات میں نہ دیا۔ہم ڈاکٹرس سے یہ سوال گذشتہ ۲۰؍۲۲ دنوں سے کر رہے ہیں اور ان ڈاکٹروں میں وہ ڈاکٹر عابدالرحمن بھی شامل ہیں جن کا کرونا پر ایک مضمون ’کرونا:حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں ‘۱۲۔اپریل کے روزنامہ ممبئی اردو نیوز میں شائع ہوا ہے ۔ ہمارا سوال عموماً تمام ڈاکٹروں سے اور خصوصاً ڈاکٹر عابدالرحمٰن سے یہ ہے کہ آخر کرونا کے مریض آ کہاں سے رہے ہیں ؟ کیا وہ خلا سے آکر براہ راست سرکاری اسپتال یا سرکاری حکام یا میڈیا کے ہاتھوں میں جا رہے ہیں ؟یا گھروں سے محلوں سے براہ راست سرکاری اسپتالوں یا میڈیا کو فون کر کے اسپتالوں میں بھرتی ہورہے ہیں؟یہ کیسی بیماری ہے جو عام آدمی کو ہو تو رہی ہے مگر نظر نہیں آرہی ہے ؟

ڈاکٹر صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ حقیقتاً تمام رپورٹس میں بھی زیادہ تر مسلمان ہی متاثر پائے جا رہے ہیں ۔ معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب کے پاس کونسی اور کہاں سے رپورٹس پہونچی ہیں ۔ ہمارے پاس دونوں قسم کی رپورٹس ہیں ۔ مگر عموماً ہوتا یہ ہے کہ آدمی اپنے مطلب کی رپورٹس کو اہمیت دیتا ہے ۔ ہمارے پاس ایک ویڈیو آیا ہے جسمیں سورت کا ایک سوشل ورکر کہہ رہا ہے کہ اس کے والد کو زبردستی گھر سے لے جاکرکرونا کا مریض بنا دیا گیا ہے ۔ ممبئی میں ہمارے ایک قریبی دوست کی ۱۵ سالہ بھتیجی صرف اسلئے مرگئی کہ ڈاکٹرس اس کے کرونا کے ٹیسٹ بار بار کراتے رہے اور وہ نیگیٹیو آتے رہے جب کہ وہ ٹی بی کی پیشنٹ تھی ۔ اس کی ٹی بی کی دوائیں بند اکروادی گئیں اور وہ اس انقطاع سے اللہ کو پیاری ہو گئی ۔ اس طرح کی ہمارے پاس اور بھی بہت سی رپورٹس ہیں مگر ثبوت اور گواہ کے ساتھ بس یہی دو ہیں ۔آپ حکومت سے وفادار ی نبھانے کی خاطر یہ کہہ سکتے ہیں کہ کرونا جیسی عظیم بیماری ،سوری، وبا سے لڑنے کی خاطر یہ collateral damage تو برداشت کرنا ہی ہوگا۔ڈاکٹر صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ واٹس ایپ پر آئے میسیج پڑھ سکیں یا ویڈیوز دیکھ سکیں۔اب جب واٹس ایپ کے لئے وقت نہیں تو اخبارات اورانٹرنیٹ سے نالج کشید کرنا بھی ان کے لئے ممکن نہیں جو کتاب ہم ایک ہفتے میں پڑھتے ہیں وہ کتاب پڑھنے کے لئے ڈاکٹر صاحب کو ایک سال لگتا ہے ۔مگر اس سب کے باوجود ڈاکٹر صاحب کو لکھنے کی کھجلی ہے ۔اور اتنی کوتاہیوں کے باوصف جیسا لکھا جا سکتا ہے وہ لکھتے ہیں ۔

اگلے پیرا گراف میں ڈاکٹر صاحب تبلیغی جماعت پر برسے ہیں ۔ حالانکہ اسی زبان سے وہ یہ بھی کہہ رہے ہیںکہ یہ سب کچھ حکومت کی مرضی ومنشا سے ہو رہا ہے ۔تبلیغی جماعت اور مرکز کے معاملے میں تو ساری ذمے داری حکومت کی ہے۔دراصل ڈاکٹر صاحب ہندواکثریتی ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس ماحول کے دباؤ نے ڈاکٹر صاحب کو ایسی دوہری پالیسی اپنانے پر مجبو ر کر رکھا ہے اور یہ پورا مضمون اسی ذہنیت کے زیر اثر لکھا گیا ہے۔ڈاکٹر صاحب کو لکھتے وقت یہ بھی معلوم نہ پڑ سکا کہ میڈیا کو accountable بنانے کی پالیسی پرمسلمان عمل شروع کر چکے ہیںاور اس کے نتائج بھی آنا شروع ہو گئے ۔ڈاکٹر صاحب نے بار بار لکھا ہے کہ کرونا کے اس کھیل میں مسلمان ہی پازیٹیو آرہے ہیں۔ معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب کو یہ خبریں کون پہونچا رہا ہے ۔ہمیں تو یہ ان کے ماحول کا قصورلگتا ہے اسلئے ہماری ان سے گزارش ہے کہ وہ چند دنوں کے لئے اپنا ماحول بدل دیں۔یہ ان کے لئے ان حالات میں بھی ممکن ہے ۔ہمارے نزدیک یہی ایک طریقہ کرونا کے دباؤ سے نکلنے کا ہے۔

آخر میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ’’اگر اب بھی ہم اپنا رویہ نہیں بدلتے ۔اس وبا کو ہلکے میں لینا نہیں چھوڑتے ۔ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے ۔ اپنے کو کیا ہو سکتا ہے بھئی۔مسلمانوں کو کچھ نہیں ہوتا ۔ہم موت سے نہیں ڈرتے ۔جیسی جھوٹی باتیں نہیں چھوڑتے تو این پی آر این آر سی جیسے سلگتے مسائل کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کی بھی تیاری کر رکھنی چاہئے‘‘معلوم نہیں کس گدھے نے ڈاکٹر صاحب کے کان میں یہ پھونک دیا کے کرونا سے ڈر کے دکھلادیا تو حکومت این پی آراور این آر سی کے مسائل دوبارہ نہیں اٹھائے گی۔ممکن ہے حکومت نے انھیں یہ اطلاع دی ہو تو ہمیں نہیں معلوم۔ہم برسوں پہلے لکھ چکے ہیں کہ Fear is the key  ان کا پورا مضمون غیر مسلم ماحول میں رہنے کے دباؤ کا مظہرہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کرونا کی آج تک جتنی بھی تعریفیںآئی ہیں جتنے بھی sign & symptoms بیان ہوئے ہیں جتنی بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو کہا گیا ہے وہ ایک دوسرے سے اتنی مختلف بلکہ متضاد ہے کہ اسے سن کر پڑھ کر یہ باور نہیں ہوتا کہ یہ کسی ایک بیماری کا ذکر ہو رہا ہے ۔مثال کے طور پر کوئی کہتا ہے کہ ماسک لگانا انتہائی ضروری ہے ۔ پولس بھی بغیر ماسک لگائے لوگوں کو ہی مار رہی ہے ۔دوسرا ایکسپرٹ کہتا ہے ماسک لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کرونا کوئی واحد بیماری نہیں بلکہ بہت ساری بیماریوں کا گروہ ہے۔چلئے،ڈاکٹر صاحب ہی کرونا کی کوئی ایک تعریف ،علامات اور احتیاطی تدابیر بیان کردیں جو تضادات سے پاک ہو اور جسے حکومت تسلیم بھی کرلے ۔دوسری بات یہ کہ ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کچھ نہیں ہوتا۔وجہ ہے مسلمانوں کی غذائی عادات ،شاید ہی کوئی مسلمان ہو جوکھجور کا استعمال نہ کرتا ہو۔مسلمانوں کی اکثریت گوشت خور ہے ۔ اب چند سالوں سے اپنے نبی ﷺ کی احادیث کے تحت مسلمانوں میں شہد زیتون اور کلونجی کے استعمال کا رجحان بڑھا ہے،اور ڈاکٹر صاحب کو اتنا علم تو ہوگا ہی کے مسلمانوں کے نبی ﷺ نے کلونجی کے تعلق سے فرمایا ہے کہ موت کے سوا ہر مرض کا علاج ہے ۔اور یہ بھی کوئی جھوٹی بات نہیں کہ مسلمان اوروں کے مقابلے موت سے نہیں ڈرتے۔۱۴۰۰ سال پہلے مسلمانوں کے نبی نے جب ۳۱۳بے سروسامان اصحاب کو ہزاروں کے مسلح لشکر کے سامنے کھڑا کرنے سے پہلے ان کی رائے جاننی چاہی تو انھوں نے کہا کہ ہم ان لوگوں میں سے نہیں جنھوں نے اپنے نبی سے فتح کی گارنٹی کے باوجود کہا تھا کہ تم اور تمھارا خدا جا کر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ڈاکٹر صاحب ہمیں یقین کامل ہے کہ دوبارہ پھر ایسا ہوگا۔مگر ساتھ ہی اس کا بھی یقین ہے کہ وہ وقت آنے سے پہلے اس نام نہاد امت مسلمہ کا دو تہائی سے بھی کچھ زیادہ حصہ اپنی قبروں میں جا سوئے گا ۔آپ جیسے بزدل غیروں کے سامنے کتنا ہی سرنڈر کرلیں یہ ہو کر رہے گا ۔ ہاں !ہم موت سے نہیں ڈرتے اسلئے اپنے آپ کو ایک تجربے کے لئے پیش کرتے ہیں ۔ ہم کرونا وائرس کے کسی بھی مریض سے گلے ملنے کو تیار ہیں۔اس کے بعدایک ماہ ہمیں اپنی پسند کے کچھ ڈاکٹروں کے زیر نگرانی رکھا جائے ۔ہمیں یقین ہے ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔۱۲؍اپریل کی صبح این ڈی ٹی وی اور آج تک پر بتایا گیا ہے کہ اب تک ملک میں کرونا کی وجہ سے ۲۷۳(273) ؍اموات ہوئی ہیں۔جناب ،براہ کرام اپنی آزاد عقل کا استعمال کیجئے۔کیا ۱۳۵ کروڑ کے اس ملک میں ڈیڑھ دوماہ میں یہ اموات قابل ذکر ہیں دہلی کے فسادت میں تین دنوں میں ہوئی اموات کو جانے دیجئے ۔ یہ بتائیے کہ کیا ملیریا ،ڈینگو،ٹی بی ،نمونیہ ،کینسر ۔ ایڈز ذیا بیطس اور گردے فیلیور سے بھی اتنی ہی اموات ہوئی ہونگی ۔یہ قوم کے ادیبوں دانشوروں،صحافیوں اور نفسیاتی معالجوں کے لئے لمحہء فکریہ ہے کہ حالات کا دباؤ نوجوانوںمیں کیسی کیسی پیچیدگیا ںپیدا کر رہا ہے ۔

آئیے اب بات کچھ تبلیغی جماعت کی بھی کر لیں کہ چند دنوں پہلے ایک جناب عاطف سہیل صدیقی کا طویل مراسلہ بنام ’تبلیغی جماعت سے متعلق ایک غلطی کا ازالہ‘ممبئی اردو نیوز میں ہی شائع ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موصوف کو بھی لکھنے کی کھجلی ہے ۔وہ اہل تبلیغ کے تعلق سے کچھ بھی نہیں جانتے مگرتبلیغی جماعت کی حالیہ مظلومیت نے انھیںہمدردی سے شرابور کر دیا ۔ یہ تو صحیح ہے کہ تبلیغی جماعت کی وجہ سے لوگ نمازی بنے ہیں،دین سے قریب آئے ہیں مگر سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ لوگ قرآن حدیث سے دور ہوگئے۔تبلیغیوں کے نزدیک قرآن و حدیث کو وہ اہمیت نہیں ہے جو آج فضائل اعمال(کل تبلیغی نصاب)کی ہے۔۱۹۸۵ میں ہفت روزہ اخبار عالم میں اس پر ایک بحث چلی تھی۔اس بحث میں ایک گدھے نے یہاں تک لکھ دیا تھا کہ تبلیغی نصاب میں قرآن و حدیث سب کچھ ہے تو پھر الگ سے قرآن وحدیث کا مطالعہ کرنے کی ضرورت کیا ہے ۔ تبلیغیوں کی مزید ذہنیت جاننے کے لئے ہم یہاں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں۔نومبر دسمبر ۲۰۰۶ میں ایک شام ہم گھر میں بیٹھے لکھ رہے تھے ۔پتہ چلا کہ کچھ لوگ ملاقات کے لئے دروازے پر کھڑے ہیں ۔ ہم باہر نکلے تو معلوم پڑا کہ اہل تبلیغ کی ایک گشت پارٹی بات کرنا چاہ رہی ہے ۔ وہ قریب ۱۵؍۲۰ منٹ بولتے رہے جب رکے تو ہم نے کہا اب میں بولوں۔انھوں نے کہا ہاں بولئے ۔ ہم نے کہا ، آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟نمازمیں پنج وقتہ نمازی ہوں اور کبھی کبھی نوافل بھی ادا کرتا رہتا ہوں۔روزے،تو میں فرض پورے رکھتا ہوں اور سال بھر کچھ نہ کچھ نفل بھی رکھ لیتا ہوں ۔زکوٰۃ بھی دیتا ہوں اور حج و عمرہ بھی کر آیا اور آپ کیا چاہتے ہیں؟ کہنے لگے کہ آپ مسجد میں آئیے دین و ایمان کی باتیں کریں گے ۔ ہم نےکہا ،نہیں نہیں ۔ گھروں یا مسجدوں کے ائر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر نہ ایمان بنتا ہے نہ بڑھتا ہے ۔ پولس کا ایک جھانپڑپڑے گا اور ایمان ڈھونڈے سے نہ ملے گا۔ ایمان تو اسی طرح بنتا اور بڑھتا ہے ،جیسے نبی ﷺ اور صحابہؓ کا بنا اور بڑھا تھا کہ بوٹی بوٹی نوچی جاتی تھی اور زبان احداحد کہتی تھی ۔

تو صاحبو!اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے کہ کیا تم نے سمجھ رکھا تھا کہ آزمائے نہیں جاؤگے۔یہ سوچ چند سالوں پہلے تک تبلیغی جماعت کی تھی۔اب اللہ میاں کی گائے سمجھا جانے والا اونٹ بھی پہاڑ کے نیچے آگیا ہے ۔ یہ تو صحیح ہے کہ آزمائشوں کو دعوت نہیں دینا چاہئے مگر آجائے تو پھر ڈٹ کر مقابلہ کر نا چاہئے ۔ اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میںبھی رکھے اور استقامت بھی عطا فرمائے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.