یوپی ایس سی امتحان میں مسلم طلبہ کی نمایاں کامیابی کا پیغام :ستاروں سےآگے جہاں اور بھی ہیں
سول سروسیز کے امتحان میں برسوں بعد مسلم طلبہ کو اچھی کامیابی ملی ہے، اس سے قبل ۲۰۱۶ء کے ۱۰۹۹؍ کامیاب امیدواروںمیں مسلم طلبہ کی تعداد ۵۲؍ تھی۔
مسلم طلبہ میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے، بس ضرورت ہے ان میں اعتماد پیدا کرنے اور اسے پروان چڑھانے کی۔
گزشتہ دنوں یوپی ایس سی امتحان کے نتائج ظاہر ہوئے تو حبس زدہ ماحول میں ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے کااحساس ہوا۔ ایسا لگا کہ اب ہمارے نوجوانوں نے بھی یہ عزم کرلیا ہے کہ ستاروں سے آگےجہاں اور بھی ہیں ۔ ایک طویل عرصے بعد سول سروسیز کے مشکل امتحان میں ۵۰؍ سے زائد مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اور ان کی کامیابی کی شرح ۵؍ فیصد کے اوپر پہنچی ہے۔ یوپی ایس سی کی جانب سے جو نتائج ظاہر کئے جاتےہیں ، ان میں مذہبی شناخت ظاہر نہیں کی جاتی، اسلئے صاف صاف پتہ نہیں چلتا کہ مسلم امیدواروں کی تعداد کتنی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سےالگ الگ فہرستیں وجود میں آئی ہیں جن میں ۵۰؍ تا ۵۳؍ نام شامل ہیں۔ کئی طلبہ کے نام ایسے ہیں جن سے ان کے مسلم ہونے، نہ ہونے کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ اس کے باوجود اگر ہم ان کی تعداد ۵۰؍ ہی مان کر چلیں تو مسلم طلبہ کی کامیابی کا تناسب کم و بیش ۵؍ فیصد تک پہنچتا ہے۔ اس سے قبل ۲۰۱۶ء میں ۱۰۹۹ء امیدواروں کاانتخاب ہوا تھا جن میں مسلم طلبہ کی تعداد۴ء۷۳؍ فیصد کے ساتھ ۵۲؍ تھی۔ اسی طرح ۲۰۱۹ءکے بیچ میں ۸۲۹؍امیدوار منتخب ہوئے تھے جن میں مسلم امیدواروں کی تعداد ۵ء۳؍ فیصد کے ساتھ۴۴؍ تھی۔ اس کے بعد یا اس سے پہلے اس باوقارامتحان میں مسلمانوں کی کامیابی کی شرح ۳؍ سے۴؍ فیصد ہی کے درمیان رہی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ مسلمانوں کو یاسیت کے غارمیں دھکیلنے کی پوری کوشش کی جارہی ہو، اس کیلئے طرح طرح کی سازشیں کی جارہی ہوں ، ’یوپی ایس سی جہاد‘ کی اصطلاح گھڑ کر ان کے حوصلے توڑے جارہے ہوں ، ایسے میں ۱۰۱۶؍ امیدواروں میں ۵۰؍ سے زائد مسلمانوں کی کامیابی، یقیناً ایک بڑی کامیابی ہے۔ حالانکہ کامیابی کی یہ شرح ملک میں ہماری مجموعی آبادی کی شرح سے بہت کم ہے، اس کے باوجود یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس امتحان میں ہمارے طلبہ کی کم تعداد کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے طلبہ اس امتحان میں شرکت ہی کم کرتے ہیں ۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد اس کمیٹی کے ایک اہم رکن سید حامد سے اس موضوع پر راقم کی گفتگو ہوئی تھی۔ کمیٹی کی اہمیت و افادیت پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’’اس کی رپورٹ سے مسلمانوں کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن اتنا فائدہ تو ضرور ہوگا کہ ہمیں اپنی کمزوریوں کا علم ہوجائے گا۔ اس صورت میں ہم اپنی ان کمزوریوں کو دورکرسکیں گے۔ ‘‘ دوران گفتگو انہوں نے یہ بات بھی کہی تھی کہ یوپی ایس سی کے امتحان میں گرچہ ہماری کامیابی کی شرح ۳؍ فیصد کے آس پاس ہی ہےلیکن اس کی وجہ ہمارے طلبہ میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ اس امتحان میں ہماری شرکت کی شرح۳؍ فیصد سے بھی کم ہے اور امید ظاہر کی تھی کہ اب جبکہ اس بات کااندازہ ہوگیا ہے، ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم اپنے طلبہ کو اس امتحان میں شرکت کیلئے آمادہ کریں اور اس کی تیاری کیلئے ان کی رہنمائی کریں ۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب اس سلسلے میں اچھی پیش رفت ہورہی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ۱۳؍ لاکھ سے زائد طلبہ نے یوپی ایس سی کے امتحان میں شرکت کی تھی جن میں سے ۱۴؍ ہزار ۶۲۴؍ طلبہ ’مینس‘ کیلئے منتخب ہوئے تھے۔ بعد ازاں انٹرویو کے بعد ۱۰۱۶؍امیدوار کامیاب قرار دیئے گئے۔ کامیاب مسلم امیدواروں میں ۱۶؍ لڑکیاں ہیں ۔ اہم بات ہے کہ ٹاپ۱۰۰؍ میں ۴؍ مسلم امیدواروں نے جگہ حاصل کی ہے اور یہ چاروں ہی قوم کی ہونہار بیٹیاں ہیں۔ ہمارے طلبہ کی اس کامیابی نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہماری قوم میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے، بس ضرورت انہیں پروان چڑھانے کی ہے۔ اس مشکل ترین امتحان میں کامیاب ہونے والے بیشتر امیدواروں نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئےیہی بات کہی ہے کہ مایوسی کو انہوں نے کبھی اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیا۔ اس سے قبل نیٹ کے امتحان میں بھی ہمارے طلبہ نے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ میڈیکل میں داخلہ پانے کے خواہش مندوں کیلئے ہونے والا انٹرنس امتحان (نیٹ) بھی ایک مشکل امتحان ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۱۰؍ فیصد سے زائد مسلم طلبہ میڈیکل کالج میں داخلے کے اہل قرار پائے تھے۔ ضرورت اس بات کی ہے ہم اپنے طلبہ کو اس جانب راغب کریں ، انہیں وسائل فراہم کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔ ہم اپنے طلبہ کو بتائیں کہ ایک یادو بار میں کامیاب نہیں ہوئے تو ہمت نہ ہار جائیں بلکہ جدوجہد جاری رکھیں کہ یہ امتحان جہد مسلسل ہی کا نام ہے۔ ہم اپنے طلبہ کو بتائیں کہ ہمارا تعلق ایک اقلیتی طبقے سے ہے اور کوئی بھی اقلیت اُس وقت تک سرخرو نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اکثریتی فرقے سے سوا کام نہ کرے۔