صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

جمعیۃ علماءکےلیگل سیل کےسکریٹری گلزاراعظمی کا انتقال،مرین لائنس قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے

88,723

زائد از ۶؍ دہائیوں تک جمعیۃ علمائے ہند سے وابستہ رہنے اور قوم کی خدمت میں مصروف رہنےوالے جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سکریٹری گلزار احمد اعظمی نےاتوار کی صبح ساڑھے ۱۰؍ بجے ۸۹؍ سال کی عمر میں بائیکلہ کے مسینا اسپتال میں مختصر علالت کے بعد آخری سانس لی۔

زائد از ۶؍ دہائیوں تک جمعیۃ علمائے ہند سے وابستہ رہنے اور قوم کی خدمت میں مصروف رہنےوالے جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سکریٹری گلزار احمد اعظمی نےاتوار کی صبح ساڑھے ۱۰؍ بجے ۸۹؍ سال کی عمر میں بائیکلہ کے مسینا اسپتال میں مختصر علالت کے بعد آخری سانس لی۔ ان کی تدفین بڑا قبرستان مرین لائنس میں اتوار کو ہی ساڑھے۱۰؍ بجے عمل میں آئی۔

گزشتہ اتوار کو مغرب کی نماز کے وقت وہ باتھ روم میں وضو کرتے وقت گرگئے تھے اس کی وجہ سے ان کے سر کے پچھلے حصے میں شدید چوٹ آئی تھی ۔اس وقت انہیں چوٹ کی شدت کا اندازہ نہیں ہوا مگر پیر کی صبح جب انہیں بیدار ہونے میں دشواری ہوئی تو انہیں مسینا اسپتال میں علاج کے لئے داخل کرایا گیا۔ وہاں ڈاکٹر جی ایم خان اور ان کی ٹیم نے علاج شروع کیا ۔ سٹی اسکین کرنے سے سر میں خون‌ جمنے کی نشاندہی ہونے پر اسی دن آپریشن کیا گیا لیکن افاقہ نہیں ہوا اور انہیں وینٹی لیٹر پرمنتقل کرنا پڑا۔

پیر سے اتوار کی صبح آخری سانس لینے تک طبیعت میں بہتری نہیں آئی اور انہوں نے اتوار کو داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ نماز جنازہ جباری ہوٹل سے منسلک پیرولین میں ادا کی گئی اور تدفین بڑا قبرستان میں عمل میں آئی ۔ تجہیز وتکفین میں جمعیۃ علماء کے عہدیداران، کارکنان، سیاسی وسماجی شخصیات اور متعلقین بڑی تعداد میں موجود رہے۔ گلزار اعظمی مرحوم کے پسماندگان میں۶؍ بیٹے اور۲؍ بیٹیاں ہیں۔ ان کی ایک بیٹی کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان‌ کے آباء واجداد کھریواں سرائے میر اعظم گڑھ سے ممبئی آئے تھے۔ گلزار اعظمی کی ولادت ممبئی میں ہوئی اور یہی ان کا وطن مالوف ٹھہرا۔ ان کے انتقال کی خبر عام ہوتے ہی چہار جانب سے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ بہت سے لوگوں نے اسےذاتی خسارہ قرار دیا ہے۔

چند برس قبل اہلیہ کا انتقال ہو جانے کے بعد سے وہ جمعیۃ علماء کے دفتر میں ہی مقیم ہوگئے تھے اور گھر کم جایا کرتے تھے۔ مرحوم ۶؍دہائیوں سے زائد عرصے سےجمعیۃ سے وابستہ تھے اور تنظیم کی جانب سے تفویض کردہ مختلف ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کیں۔

جمعیۃ میں جب باقاعدہ طور پر لیگل سیل کا قیام عمل میں آیا تو گلزار اعظمی کو اس شعبے کی ذمہ داری سونپی گئی اور انہوں نے اسے احسن طریقے سے نہ صرف نبھایا بلکہ ایک مثال قائم کردی۔ گلزار اعظمی میں ہمت، جرأت، بے باکی اور بے خوفی کے ساتھ اپنے موقف کا اظہار ان کا نمایاں وصف تھا، وہ کبھی مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ وہ جوانی سے ہی جمعیۃ علماء سے وابستہ ہوگئے تھے اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی اور مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی کے ادوار بھی دیکھے۔

مہاراشٹر جمعیۃ علماء کے صدر مولانا حافظ مسعود حسامی نے روتے ہوئے کہا کہ’’ گلزار صاحب کے انتقال پر تعزیتی کلمات کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، وہ میرے سرپرست تھے۔‘‘اسپتال داخل کئے جانے کے وقت ہی مولانا حافظ مسعود حسامی ناگپور سے ممبئی آگئے تھے اور تب سے یہیں مقیم تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’گلزار اعظمی کا انتقال جمعیۃ کے ساتھ میرا ذاتی نقصان اس لئے ہے کہ آج میں ایک سرپرست سے محروم ہوگیا۔‘‘ جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے جنرل سیکریٹری مولانا حلیم اللہ قاسمی نے کہا کہ ’’گلزار اعظمی مہاراشٹر جمعیۃ ہی نہیں جمعیۃ علماء ہند کی ریڑھ کی ہڈی تھے۔ جانشین شیخ الاسلام مولانا سید ارشد مدنی نے انہیں مظلوموں اور محروسین کی رہائی کیلئے جو ذمہ داری تفویض کی تھی، اسے انہوں نے جس جواں مردی اور ہمت کے ساتھ نبھایا وہ ایک مثال ہے۔‘‘مولانا حلیم اللہ قاسمی نے گلزار اعظمی کی ہمت اور جرأت کی مثال دیتے ہوئے ایک واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میں دفتر میں تھا، ایک بڑے مافیا ڈان کا انہیں دھمکی آمیز فون آیا۔ اس پر گلزار اعظمی نے جواب میں کہا کہ میں دفتر میں ہوں، اگر ہمت ہے تو آجا۔ ‘‘

جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر حافظ ندیم صدیقی نے کہا کہ ’’گلزار اعظمی کو اللہ پاک نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔ان کا نام آتے ہی ذہن میں ایک تصویر ابھر کر آجاتی ہے کہ وہ بے قصور مسلمانوں کی لڑائی لڑتے تھے اور ان کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار رہتے تھے۔‘‘

Leave A Reply

Your email address will not be published.