صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

حکومت بہارکا اُردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ ”فروخت اردو“ کا کام کررہا ہے: نظرعالم

ضلع اقلیتی فلاح افسربھی اُردو کے تئیں سنجیدہ نہیں، بیشتر سرکاری اداروں میں اُردو کو نظر انداز کیا جارہا ہے: بیداری کارواں

14,427

دربھنگہ : اُردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، حکومت بہار کی جانب سے فروغِ اُردو سیمینار و مشاعرہ کا انعقاد ہرسال ضلع فروغِ اُردو سیل کی جانب سے کیا جاتاہے۔ اس سال بھی ہرضلع میں حکومت اپنی واہ واہی  بٹورنے کے لئے محکمہ کی جانب سے فروغِ اُردو سیمینار و مشاعرہ کا انعقاد کرارہی ہے۔ دربھنگہ میں بھی فروغِ اُردو سیمینار و مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا ہے لیکن ضلع اقلیتی فلاح افسرکی زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ وہ بھی اُردو کے تئیں سنجیدہ نظرنہیں آتے۔

بیشتر سرکاری اداروں میں آج بھی اُردو کی اندیکھی کی جاتی ہے، نہ کہیں نیم پلیٹ اُردو میں دکھے گا اور نہ ہی کہیں اُردو میں درخواست لیا جاتا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، حکومت بہار کی جانب سے چلائے جارہے فروغِ اُردو مہم سے اُردو کو بہار میں کتنا فروغ مل رہا ہے۔ جب کہ حکومت لگاتار اُردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ کی جانب سے اُردو کے فروغ  کے نام پرموٹی رقم خرچ کررہی  لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔

حکومت کے اس پیسے سے نہ تو اُردو کا بھلا ہوپارہا ہے اور نہ ہی اقلیتی طبقہ کا۔ جو حکومت دوسری سرکاری زبان کو ہی ختم کرنے کی کوشش کررہی ہو سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اس فروغِ اُردو کے نام پراقلیتی طبقہ کو کیسے گمراہ کررہی ہے۔ مذکورہ باتیں آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے صدرنظرعالم نے بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت بہار ہمیشہ سے ہی اُردو کے نام پر اقلیتی طبقہ کو گمراہ کرتی آرہی ہے۔ بڑے پیمانے پر اُردو اساتذہ کی کمی دیکھی جارہی ہے اور حکومت بحالی کرنے سے بھی بھاگتی رہتی ہے۔

متھلا یونیورسٹی کے تحت چل رہے بیشتر کالجوں میں اُردو کے لکچرار نہیں ہے، اس جانب حکومت کبھی دھیان نہیں دیتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حکومت نے ہرضلع میں اُردو ٹرانسلیٹروں کی بحالی بہت پہلے کی تھی لیکن اُردو کے ٹرانسلیٹروں سے آج تک اُردو کا کام نہیں لیا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں کچھ اُردو ٹرانسلیٹروں کو تواُردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ ضلع سے بلاکر پٹنہ دفتر میں کام لے رہا ہے۔ بہت سارے ضلع میں اُردو ٹرانسلیٹر آج بھی موجود نہیں ہے۔

اُردو کی کتابیں بھی حکومت کی جانب سے اسکولوں میں کافی دیری سے چھپواکر دی جاتی ہیں۔ ایسے میں حکومت کا دعویٰ فروغِ اُردو ایک چھلاوا ہے اور اُردو آبادی کو ٹھگنے جیسا۔ نظرعالم نے بتایا کہ متھلانچل ہمیشہ سے اُردو ادب کا گہوارہ رہا ہے لیکن کچھ سالوں سے ایسا لگتا ہے کہ یہاں اُردو کے نام پر کچھ غیراُردو داں جس نے کبھی اُردو کا قاعدہ تک نہیں پڑھا ایسے لوگ اُردو کے ٹھیکیدار اور فروغِ اُردو کی بات کرتے نظرآتے ہیں۔

کچھ لوگ اِن دنوں دربھنگہ جیسی جگہوں پر خود کو ادیب، شاعر، دانشور یا مصنف بنے پھرتے ہیں وہ بتائیں کہ جب جب اُردو کے ساتھ اقلیتی فلاح آفیسر، ضلع انتظامیہ، متھلا یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا پھر حکومت کے ذریعہ اُردو کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے یا کالجوں کے بورڈ سے اُردو نیم پلیٹ  ہٹایا جاتا ہے تو وہ کتنی بار زبان کھولتے ہیں یا تحریک چلاتے ہیں۔ پچھلے دنوں پوری دُنیاکے لوگوں نے دیکھا کہ دربھنگہ لا کالج کے بورڈ سے اُردو کو ہٹادیا گیا تھا پھر بعد میں تحریک چلائی گئی جس کے بعد دوبارہ سے اُردو لکھا گیا۔

اس کے بعد سی ایم کالج کے بورڈ پر سے  اُردو کو ہٹا دیا گیا تھا، اس کے لئے بھی تحریک چلانی پڑی۔ دربھنگہ ہوائی اڈہ پر آج بھی اُردو کہیں نظرنہیں آرہا ہے جب کہ بہار میں اُردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ آخر اُردو اخبار میں سیمینارو مشاعرہ کے نام پر یا پھر رسم اجرا کی تقریب کے نام پربڑی بڑی خبریں شائع کراکر اُردو کو فروغ دینے کا جھوٹا اور فریبی کھیل دربھنگہ سمیت بہاربھر کے نام نہاد اُردو داں طبقہ کب تک کرتے رہیں گے۔

ایسے لوگوں اور محکمہ سے جڑے ہوئے آفیسروں سے التجا ہے کہ وہ اُردو کے فروغ کی جگہ ”اُردو فروخت“ کا کام بند کریں۔ وہیں انہوں نے دربھنگہ کے ضلع  اقلیتی فلاح آفیسر پر اُردو کے تئیں سنجیدہ نہیں ہونے کا الزام  عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ افسوس ناک معاملہ ہے کہ دربھنگہ جیسی جگہوں پر سرکاری محکمے سے اُردو ندارد ہے لیکن وہ خاموش تمائیا بنے بیٹھے ہیں۔ اگر وقت رہتے اُردو کے ساتھ کھلواڑ بند نہیں کیا جاتا ہے تو اُردو فروخت کرنے والے افسر، محکمہ اور حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پرتحریک کو تیز کیا جائے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.