صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

تعلیم کے تجارت بن جانے سے پسماندہ طبقات خصوصا مسلمان مزید پچھڑ جائیں گے

65,679

 ریسرچ اکیڈمی آف سوشل سائنس کے تیسرے کانفرنس ’’امپیکٹ آف کمرشیلائزیشن آف ایجوکیشن آن مارجینلائزڈ سیکشن آف دی سوسائٹی‘‘ میں ماہرین کا اظہار خیال

ممبئی : ریسرچ اکیڈمی آف سوشل سائنس (آر اے ایس ایس) کا ’’امپیکٹ آف کمرشیلائزیشن آف ایجوکیشن آن مارجینلائزڈ سیکشن آف دی سوسائٹی‘‘عنوان سے دوو روزہ قومی کانفرنس مہاراشٹر کالج میں منعقد ہوا ۔ اس میں ماہرین تعلیم سماجی کارکنان نے تعلیم کو تجارت بن جانے پر پسماندہ طبقات پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا ۔کانفرنس کی اہم شخصیات میں سابق وائس چانسلر ممبئی یونیورسٹی بھالچندرمونگیکر، تمل ناڈو کے ایم ایل اے پروفیسر جواہراللہ ، پروفیسر حسیب احمد ، ٹا ٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس کی ڈاکٹر دشا نوانی ، پروفیسر سی آر سداسیون اور مہاراشٹر کالج کے پرنسپل پروفیسر سراج الدین چوگلے کے علاوہ کانفرنس کے آرگنائزر اور ریسرچ اکیڈمی آف سوشل سائنس کے ذمہ دار ڈاکٹر سلیم خان شامل ہیں ۔

کانفرنس میں پلاننگ کمیشن کے سابق رکن اور ممبئی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر بھال چندر مونگیکر نے تعلیم کے تجارت بن جانے کے پسماندہ طبقات پر پڑنے والے برے اثرات سے شرکا کانفرنس کو آگاہ کیا اور نئی تعلیمی پالیسی کی خامیوں کو اجاگر کیا ۔انہوں نے کہا نئی تعلیمی پالیسی میں کہیں بھی اقلیت خصوصی طور سے مسلمانوں کا تذکرہ نہیں ہے اور نہ مولانا آزاد مالیاتی کارپوریشن کو کوئی اہمیت دی گئی ہے ۔انہوں نے سچر کمیٹی رپورٹ کے حوالہ سے بھی مسلم اقلیت کے مسائل پیش کئے جس کے مطابق ۶۶ فیصد مسلم بچے سرکاری اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں مگر اس تعلق سے حکومت کا رویہ جگ ظاہر ہے کہ شعبہ تعلیم کو بھی منافع خوری کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ تعلیم کے نجکاری سے نقصان نہیں ہوتا لیکن اس کے تجارت بن جانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے کمزور اور پسماندہ طبقہ ترقی کے میدان سے دور ہوجائے گا ، خصوصی طور سے مسلمان زیادہ متاثر ہوں گے کیوں کہ دوسرے پسماندہ طبقات کو ریزرویشن سمیت کئی اور فوائد حاصل ہیں جس سے وہ اپنے نقصان کی بھرپائی کرلیں گے ، لیکن مسلمانوں کو اس طرح کی کوئی سہولیات میسر نہیں ہے لہٰذا وہ تعلیم کے مہنگے ہوجانے کے سبب مزید پسماندگی میں گھر جائیں گے ، اس لئے ہمیں اس کیخلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔

مہاراشٹر کالج کے پرنسپل سراج الدین چوگلے نے تعلیم کے تجارت بن جانے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مسلمانوں سمیت دیگر پسماندہ طبقات بھی سخت دبائو میں ہیں ۔مولانا آزاد کالج اورنگ آباد کے پروفیسر حسیب احمد نے تعلیم کے کاروبار بن جانے کی حساسیت واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں تعلیم یافتہ طبقہ کو آگے آنے اور عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔حکومتی تساہلی کے سبب سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ بتدریج زوال کا شکار ہے اور تعلیم کی نجکاری کے سبب یہ کاروبار بن گیا ہے ۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شعبہ تعلیم میں سرمایہ دارانہ ذہنیت کی غلامی سے نجات کیلئے آزادی کی ایک اور جنگ کی ضرورت میں اضافہ ہوگیا ہے۔

پروفیسر کاظم ملک نے ریسرچ اکیڈمی آف سوشل سائنس (آر اے ایس ایس) کا تعارف پیش کیا ۔ انہوں نے کہا یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو سوشل سائنس کے میدان میں صرف کام ہی نہیں کرتا بلکہ حقائق کی بنیاد پر اعداد و شمار جمع کرتا ہے ۔ڈاکٹر سلیم خان نے کہا کہیہ ادارہ سماج کے اہم مسائل کو درست سمت میں سامنے لاتا ہے ۔ ہم  یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آگے آئیں اور سماجی مسائل پر اعداد و شمار جمع کریں اور اس کے حل کی جانب پیش قدمی کریں ۔ صرف ہوا میں ہی باتیں نہیں ہونی چاہئے بلکہ مکمل ریسرچ کے ساتھ عملی اقدام کئے جائیں ۔

تمل ناڈو سے کانفرنس میں شامل ہونے والے ایم ایل اے پروفیسر جواہراللہ نے ریاست تمل ناڈو کے ذریعہ این ای ای ٹی (نیٹ) کی مخالفت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب سے نیٹ کا نفاذ ہوا ہے تب سے غریب و پسماندہ طبقات تعداد کم ہوئی ہے ۔ نیٹ کے سبب امرا، شہری علاقوں اور غیر تملوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے ۔ اس کی وجہ ہے نیٹ کیلئے الگ سے سرمایہ خرچ کرکے وہ اس قابل بن جاتے ہیں کہ ان کے علاوہ دوسرے طبقات کی نمائندگی کم ہوگئی ۔ انہوں نے کہا اسی لئے تمل ناڈو کی خواہش ہے کہ بارہویں کی بنیاد پر ہر داخلہ ملے اس سے سرکاری اسکولوں سے پڑھنے والے غریب اور پسماندہ طبقات کی صحیح نمائندگی رہے گی ۔

 ریسرچ اکیڈمی آف سوشل سائنس (آر اے ایس ایس) کے ذمہ دار ڈاکٹر سلیم خان نے بتایا کہ مذکورہ کانفرنس اس ادارہ کی تیسری پہل ہے ۔ پہلا خاندانی نظام پر تھا دوسرا کورونا کے سماج پر پڑنے والے اثرات پر تھا اور یہ تیسرا تعلیم کے تجارت بن پر ہے ۔ مذکورہ ادارہ مسلمانوں میں اپنی طرز کا منفرد ادارہ ہے کہ اس طرح کے ادارہ کے قیام کی کوشش تقریبا نہیں ہوتی جس سے ہماری ساری باتیں اعداد و شمار اور کسی ٹھوس بنیاد سے دور ہوتی ہیں اسی کمی کو پورا کرنے کیلئے ریسرچ اکیڈمی آف سوشل سائنس کا قیام عمل میں آیا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.