ممتاز میر
سورہ توبہ کی ۳۱ویں آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’عیسائیوں نے اپنے علماء و درویشوں کو خدا بنا لیا ہے اور عیسیٰ ابن مریم کو بھی‘ ۔پھر ایک حدیث میں حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ تم بھی وہی کروگے جو تم سے پہلے کی امتیں کر چکی ہیں ۔اگر وہ سانپ کے بل میں گھسی ہونگی تو تم بھی گھسو گے۔اس حدیث سے ہم یہ سمجھے کہ ہم نے بھی اپنے علماء کو درویشوں کو پیروں فقیروں کو اپنا خدا بنا رکھا ہے۔پھر بیقہی شعب الایمان کی ایک حدیث کہتی ہے کہ ایک دور ایسا آئے گاجب تمھارے علماء زمین کی پیٹھ پر دنیا کی بدترین مخلوق ہونگے۔سارے فتنے ان کے پاس سے جنم لیں گے اور لوٹ کر وہیں آئیں گے۔
یہ تمام باتیں ہمیں چند دن پہلے اس وقت یاد آگئیں جب طیب ظفر کاممبئی اردو نیوز میں مضمون ’جب پرنکل آتے ہیں تو پرندے اپنا ہی آشیانہ بھول جاتے ہیں ‘ پڑھا۔مضمون کے ساتھ جناب طیب ظفر کی فوٹو بھی ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ موصوف ابھی عمر کی دوسری و تیسری دہائی کے درمیان ہیں۔انھوں نے اپنے مضمون میں علماء و جمعیت العلماء کو خلط ملط کر دیا ہے۔شاید انھیں معلوم نہیں کہ جمعیۃ العلمامیں سب کے سب طبقہء علماء سے تعلق نہیں رکھتے۔انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جمعیت کے اکابرین نے اسمبلی و پارلیمنٹ میں نشستوں کے حصول کی خاطرمختلف سیاسی جماعتوں سے کمپرومائز بھی کئے ہیں۔ہمارے نزدیک ان کا سب سے بڑا جرم ہے ما قبل آزادی کانگریس کا دم چھلہ بنے رہنا۔یہاں تک کہ وہ کانگریس کی محبت میں خود اپنے آدمی مولانا بدرالدین اجمل کی بھی آسام میں حمایت نہیں کرتے۔مسلمان عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ مولانا بدرالدین اجمل ہوں یا اسدالدین اویسی یا اس قبیل کے دیگر مسلم لیڈران یہ سب کے سب مسلمانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔جب کہ جمعیت کوآج بھی مسلمانوں کا برہمنوں کی سیاسی غلامی سے آزاد ہونا گوارہ نہیں۔اویسی کے خلاف جمعیت کا ہر فرد یہاں تک کہ اس کے بوڑھے بوڑھے صحافی بھی محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ظاہر ہے جو مولانا بدرالدین اجمل کو برداشت نہیں کر سکتے وہ اویسی کے خلاف جو نہ کریں کم ہے۔مگر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ آج جمعیت وطن عزیز کے کونے کونے میں مسلمانوں کے مقدمات لڑ رہی ہے اور انھیں ہر طرح کی قانونی مدد فراہم کر رہی ہے جس کا اعتراف ہم نے اپنے متعدد مضامین میں کیا ہے ۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کا سلسلہ بھی ان کی پیاری کانگریس کے دور میں شروع ہو اتھا ۔اس کے علاوہ ریلیف کے کام میں جمعیت کامسلمانوں میں کیا ہندوؤں میں بھی جواب نہیں۔آر ایس ایس ہندوستان کی سب سے بڑی ریلیف کرنے والی این جی او ہے ۔مگر وہ ریلیف میں بھی بھید بھاؤ کرکے ،تعصب سے کام لے کر خود ہی اپنے گڑ میں مٹی ڈال دیتی ہے۔
ہم نے ابتدا میں قرآن کی ایک آیت اور دو احادیث کا حوالہ دیا ہے۔اس تعلق سے جناب طیب ظفر کا کیا خیال ہے ۔علماء کو عوام برا کہہ رہی ہے یا خود حضور ﷺ ۔ہم یہاں دو مثالیں دیتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علما کیوں برے ہو گئے ہیں؟(۱)چند سال پہلے ہم چند رفقاء کے ساتھ دہلی گئے تھے ۔جاتے جاتے راستے میں آگرہ میں ہم نے ۲۴ گھنٹوں کے لئے قیام کیا تھا ۔ہمارے ایک رفیق نے ۲۴ گھنٹوں کے اس قیام کا بندوبست آگرہ کے ایک مدرسے میں کیا تھا ۔مدرسے میں دو لگژری کاریں تھیں جس میں سے ایک مع ڈرائیور۲۴ گھنٹوں کے لئے ہمارے حوالے کردی گئیں۔اب ہر سال ان کا سفیر وصولی کے لئے ہم رفقاء کے پاس آتا ہے۔ہم گذشتہ۴۵ سالوں سے عصری تعلیمی ادارے چلانے والوں کے درمیان رہ رہے ہیں۔ان میں سے متعدد ایسے ہیں جن کے پاس ۴وہیلر تو دور ۲وہیلر بھی نہیں ہے۔کیا خیال ہے ،یہ چمتکار ان کم عقل بھوندومنتظمین کو سیکھنا چاہئے یا نہیں۔ارے بھئی علماء کے نقش قدم پر چلنے کا معاملہ ہے۔رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔(۲) ایک بار شہر کے ایک کریانے کی دوکان پر ایک مفتی صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ہم نے ان سے ایک سوال کیا ۔انھوں نے جواب دیا کے ہمارے حجرے؍اڈے ؍ٹھیے پر ،جو بھی کہہ لیں ،آکر ملئے وہیں جواب دیں گے۔محترم،ہم نے آج تک کسی بھی عالم دنیا کو یہ کہتے نہیں سنا۔عالم دنیا نے ہمیشہ On the spot ہمارے ہی نہیں ہر کسی کے سوال کا خوشی خوشی جواب دیا ہے۔آپ دیکھئے کہ اپنی شخصیت کی مٹی پلید کون کر رہا ہے ۔علم کو خزانے کی طرح کون چھپا رہا ہے ۔اللہ تو کہتا ہے کہ علم کو نہ چھپاؤ،علم کو بانٹو،اور ہمارے علماء علم کو چھپاتے ہیں۔ہاں اگر آپ کیمرہ اور مائک لے آئے تو وہ بھی بولیں گے جو نہیں بولنا چاہئے۔بلکہ اب تو کیمرے پر عورتوں کے ساتھ ہاتھا پائی بھی ہو رہی ہے۔
ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ صاحب مضمون ابھی نو عمر ہیں ان کا مطالعہ بھی کم ہی ہوگا۔اس کے باوجود یقین ہے کہ علامہ اقبالؒ اور شکوہ؍جواب شکوہ سے واقف ہی نہیں مطالعہ بھی کر رکھا ہوگا۔اس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں امید ہے ہماری بات موصوف کے سمجھ میں آجائے گی ۔ (۱)تھے تو آباء وہ تمھارے ہی مگر تم کیا ہو؍ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو۔علامہ یہاں ماضی اور حال کے (سو سال پرانے ،ابھی کا حال تو بدرجہا بدتر ہے)مسلمانوں کا تقابل کر رہے ہیں۔وہ ماضی جب علماء واقعی وارثین ابنیاء ہوتے تھے۔اور یہی علماء تھے جن کے تعلق سے علامہ نے کہا کہ ’بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے‘۔(۲) واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی؍برق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی ؍رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی؍فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی۔ان اشعار میں اقبالؒ تب اور اب کے علماء کا تقابل فرمارہے ہیں۔(۳)باپ کا علم نہ بیٹے کوگر ازبر ہو؍پھر پسرقابل میراث پدر کیونکر ہو۔ ہم تو اس شعر سے یہ سمجھے کہ اگر موجودہ علماء علم اور اخلاق میں اپنے قابل صد احترام اسلاف کی طرح نہیں ہیں تو انھیں کیونکر وارثین انبیاء قرار دیا جا سکتا ہے؟ہم غیر مقلد تو نہیں مگر ایسے اندھے مقلد بھی نہیں ہیں۔ (۴)اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی ؍نقش ہے صفحہء ہستی پہ صداقت ان کی۔کن کی؟ علماء کرام کا احترام کون نہیں کرتا ؟مگرکل تک امام حرم عبدالرحمٰن السدیس کو سر آنکھوں پہ بٹھانے والے لوگ آج ان پر تھو تھو کر رہے ہیں ،کیوں؟مسلمانوں کا نچلا ترین طبقہ آج بھی مسجدوں کے ائمہ کو وارثین انبیاء ہی سمجھتا ہے مگر صاحب فکر و نظر جانتے ہیں کہ آج ائمہء مساجد دو رکعت کے امام رہ گئے ہیں۔یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ بگاڑ اوپر سے آتا ہے۔ہمارے علامء خود وارثین انبیاء بن جائیں ۔ان کی جانب اٹھنے والی انگلیاں خود ہی ٹوٹ جائیں گی۔
ایک بات اور،قوموں کی یہ بڑی عجیب نفسیات ہے کہ ہر دور کی ’ امت مسلمہ‘اس خوش فہمی میں مبتلا رہی ہے کہ وہChosen People of God ہیں۔چاہے وہ یہودی ہوںیا عیسائی یاہم۔آج بھی جب کہ ہم بالاتفاق دنیا کی بدترین قوم سمجھے جاتے ہیں ہم اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں اور اس کا بڑا سہرا ہمارے علما ہی کے سر ہے۔اب کچھ لوگ اٹھ رہے ہیں جنھیں صحیح معنوں میں عالم کہا جا سکتاہے(مگرروایت پسندوں کی نظروں میں معتوب)جو ماضی کی غلطیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔مگر علماء کو رب بنائے ہوئے لوگوں کو یہ پسند نہیں آرہا ہے منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137