صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

مسلمانوں کے حکمراں

1,595

ممتاز میر

وہی ہوا جس کا ڈر تھا،نئی اطلاعات بتاتی ہیں کہ ترکی کی سعودی قونصلیٹ میں داخل ہونے کے بعد جمال خشوگی کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا ، یہ بات امریکہ اور برطانیہ کو ہی نہیں ترکی کو بھی معلوم تھی ۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک مضمون ایسا بھی نظر سے گزرا جس میں بتایا گیا تھا کہ جس طرح امریکہ نے صدام حسین کے غبارے میں ہوا بھر بھر کراسے کویت پر حملہ کرنے کے لئے مجبور کیا تھا بالکل اسی طرح امریکہ اور برطانیہ نے سعودی احمق شہزادے کو چابی بھر کر دماغ میں بٹھایا کہ اپنا ہی راج ہے ۔ جمال خشوگی کے ٹکڑے ٹکڑے کردواور جس طرح اسامہ بن لادن کی بات احمق شہزادے کے بزرگوں کی سمجھ میں نہ آئی تھی بالکل اسی طرح امریکہ اور برطانیہ کا بچھایا ہوا جال عقل سے عاری عاقبت نا اندیش شہزادے کی بھی سمجھ میں نہ آیا ۔ غرور عقل کو کھا جاتا ہے ۔ بیوقوف یہ سمجھتا رہا کہ جنھوں نے اسے تخت پر بٹھایا ہے وہ اس کا تختہ کیسے کر سکتے ہیں ۔ جب انسان خدا کا باغی بنتا ہے تو وہ معمولی معمولی اشیاء کے حصول کی خاطر بے شرمی اور ذلالت کے ریکارڈ توڑتا ہے ۔ ممکن ہے شاہی خاندان میں امریکہ اور برطانیہ کو اس سے بھی بڑا کوئی لالچی میسر آگیا ہو جو اس سے بھی زیادہ ایمان فروشی کا مظاہرہ کرنے کو تیار ہو ۔ اس کے علاوہ 2؍اکتوبر سے پہلے والی ٹرمپ اور محمد بن سلمان کی جملے بازی بھی قارئین کو یاد رکھنی چاہئے ۔ اب معلوم نہیں خادم الحرمین شریفین کو ’ہفتے‘ کے ساتھ ساتھ ٹرمپ کی اور کیا کیا خدمت کرنی پڑتی ہے ۔
خیر، امریکہ اور برطانیہ سے ہمیں کوئی شکایت نہیں ۔ فی الوقت ہمارا مسئلہ رجب طیب اردگان ہیں جو اگر یہ کہا جائے کہ ’امیرالمومنین‘ بنے ہوئے ہیں ، تو غلط نہ ہوگا ۔ ان کے ساتھ ایسا کیا ہوگیا کہ انھوں نے امریکی پاسٹر(یا دہشت گرد) اینڈریو برونسن کو بلا شرط رہا کر دیا چلئے یہ کوئی اسٹریٹجک معاملہ ہو سکتا ہے ۔ برا تو لگتا ہے مگر اس پر کوئی تنقید نہیں کی جا سکتی ۔ مگر ، ایک زندہ انسان کے ٹکڑے ٹکڑے کروانے میں امیر المومنین کی حمایت ؟ اگر سچ مچ ایسا ہوا ہے تو یہ ایسا داغ ہے جو تا عمر جناب اردگان کو اور خود ترک قوم کو رسوا کرتا رہے گا ۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان جیسے فقیر ہی اس دنیا میں اسلامی اخلاق و کردار کا مظاہرہ کر سکتے ہیں ۔ مال والے تو دین و ایمان کو ٹھوکر مار کر مال بچانے کی خاطرہر قسم کا کمپرومائزہر کسی سے کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔ نئی اطلاعات یہ بھی بتاتی ہیں کہ چند دنوں پہلے سعودی سے چند ماہرین ترکی تشریف لائے تھے تاکہ سفارت خانے میں پھیلے قتل کے ثبوتوں کو مٹایا جا سکے ۔ ظاہر ہے یہ بھی ترکی کی اجازت کے بغیرتو ممکن نہیں ۔ ترکی نے یقیناً اس کور اپ cover up کی بھی ویڈیو بنائی ہوگی تاکہ بوقت ضرورت کام آئے ۔ آخرترکی اور سعودی عرب کا مسئلہ کیا ہے ؟
ادھر کل سے یعنی ۵نومبر سے اقوام متحدہ میں ایک کانفرنس شروع ہوئی ہے جسے Universal Periodic Review کہا جاتاہے۔یہ کانفرنس ہر 4 سال بعد ہوتی ہے جس میں تمام کے تمام 193 ممبر ممالک کو ہیومن رائٹس کے تعلق سےscanning سے گزرناپڑتاہے ۔ اس بار سعودی عرب کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنا پر اکثر ممالک سے تنقید کا سامنا ہے ۔ یہ وہ وقت ہے جب حکومت لبرلزم کے چیمپئن کے ہاتھوں میں ہے۔کئی ملکوں نے لمبے لمبے سوال نامے اقوام متحدہ میں جمع کرائے ہیں جن کے جوابات سعودی حکمرانوں کو دینے ہیں ۔ دوسری طرف کل ہی مرحوم صحافی کے لڑکوں صلاح اور عبداللہ خشوگی نے سعودی حکومت سے صحافی کی لاش کا مطالبہ کیا ہے ، تاکہ وہ سعودی عرب آکراپنے مرحوم والد کی تدفین کر سکیں ۔ ان بچوں نے کہا ہے کہ وہ تدفین کئے بغیر والد کے تعلق سے ہونے والے صدمے سے باہر بھی نہیں آسکتے ۔
دوسری طرف سعودی باپ بیٹے دنیا کو یہ لالی پاپ دینے میں بری طرح ناکام ہیں کہ قاتلوں کو کیفر کردار تک پہونچایا جائے گا۔اقوام متحدہ میں سعودی وفد کے سربراہ تمام ممالک کوشاہ کا یہ پیغام دے رہے ہیں کہ انھوں نے استغاثہ سے کہا ہے کہ جلد سے جلد تمام مجرمین انصاف کی دہلیز تک پہونچائے جائیں ۔ کیا دنیا اس پر یقین کرے گی ؟ آج یہ ممکن نہیں ۔ کل مارچ 1975 میں شاہ فیصل شہید کو خود ان کے بھتیجے نے جو ان کا ہم نام بھی تھا ، شہید کر دیا تھا ۔ ابتداًقاتل کو ذہنی معذور ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی مگر بعد میں تین ماہ کے اندر اندر ایک بھیڑ کے سامنے قاتل کا سر قلم کردیا گیا ۔ موجودہ شاہ سلمان انہی کے بھائی ہیں مگر ، جس امریکہ سے ٹکرانے کے نتیجے میں شاہ فیصل کی شہادت واقع ہوئی یہ اسی کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں ۔ اگر امریکہ چاہے گا تو MBS کا سر بھی قلم ہوگا ورنہ وہ اسی طرح شاہ سلمان کے سر پر ناچتا رہے گا ، بلکہ عوام اور حریفوں کے سر پربھی ۔ ابھی تک تو شاہ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ اسے کاروبار مملکت سے علیحدہ کر دیتے جو کہ غیر جانبدارانہ تحقیق و تفتیش کے لئے از حد ضروری ہے ۔
ترکی اور سعودی عرب کے جھگڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک مغربی اخبار کا کہنا ہے کہ یہ عالم اسلام کی قیادت کا جھگڑا ہے ۔ہمیں نہیں لگتا کہ رجب طیب اردگان جو کہ ایک منجھے ہوئے سیاستداں اور سعودی شاہوں سے کہیں زیادہ دیندار ہیں کل کے چھوکرے سے جسے اپنے ملک کااقتدار سنبھالے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے ڈر گئے ہوں ۔ اور اس اوچھی حرکت کا باعث یہ خوف ہو۔ہم پھر یہی کہیں گے کہ یہ سب کسی گریٹ گیم کا حصہ ہے۔اور اردگان شاید فاقہ زدہ ’لیرا‘ کو ڈالر کے سامنے پہلوان بنا کر کھڑا کرنے کے لئے اس میں شامل ہوئے ہوں اس محل پر ہمیں حضور ﷺ اور شعب ابی طالب یاد آتے ہیں جس میں آپ ﷺ کے ساتھ خاندان کے بالغ ہی نہیں بچے بھی بھوک پیاس سے تڑپا کرتے تھے ۔ ترک تو وہ قوم ہیں جس نے ٹینک اور توپوں کے رخ پھیر دیئے تھے ۔ جو بھی ہو مسلمانوں کا تو اللہ ہی حامی وہ ناصر ہے ۔
برسوں سے ہمارا خیال ہے کہ صد فی صد غیر مقلد ہونا ممکن نہیں ۔ آپ یا تو مقلد ہو سکتے ہیں یا مجتہد۔کیا غیر مقلدوں کا ہر شخص مجتہد ہے ؟ عام طور پر اہل حدیث اپنے آپ کو غیر مقلد کہتے ہیں ۔ اور وہ مختلف ائمہ کرام کے مسالک پر عمل کرنے والوں کو مقلد کہتے ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اہل حدیث کا ہر شخص مجتہد ہو ۔ یعنی ان کے عام لوگ بہر حال اپنے علمائے کرام کے فتاویٰ پر عمل کرتے ہوں گے ۔ بات یہاں تک ہوتی تو غنیمت تھا۔گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہم پر یہ تکلیف دہ انکشاف ہوا کہ یہ حضرات اپنے ائمہ کی نہیں شاہوں کی تقلید کرتے ہیں اور شاید اسی لئے اپنے آپ کو غیر مقلد کہتے ہیں۔قریب دو ہفتے پہلے خشوگی پر ہمارا پہلا مضمون سب سے پہلے دہلی کے کسی اخبار میں شائع ہوا ۔ اس دن ، دن بھر کوئی صاحب ہمیں فون کرکر کے گالیاں دیتے رہے ۔ اسلئے کہ ہم نے سعودی شاہوں کے خلاف لکھا تھا۔سوال یہ ہے کہ جس قوم کا یہ حال ہو اللہ اس پر رحم کیسے کریگا ۔ اسی لئے ہم کہتے کہ بر صغیر کیا ایشیا میں کہیں امت مسلمہ کا وجود نہیں ۔ اب اسلام کی نشاۃالثانیہ مغرب سے ہوگی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.