صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

کبھی اک گلشنِ بے خار جیسے لوگ ہوتے تھے

1,841

 

 

دنیا کے قدیم ترین ملکوں میں ہمارا وطن عزیز ہندوستان بھی شامل ہے۔ یہاں زمانہ قدیم سے ہی مختلف مذاہب کے ماننے والے، مختلف بولیاں بولنے والے، اپنی اپنی تہذیبوں، روایات و اقدار کے ساتھ شیر و شکر ہوکر زندگیاں گزارتے آرہے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے اسے پھولوں اور پھلوں کا باغ بھی لوگوں نے قرار دیا ہے یعنی سبھی کے اشتراک اور سبھی کے تعاون سے یہ عظیم باغ معرض وجود میں آیا ہے۔ سبھی اس کے مالک اور اس کے رکھوالے ہیں، اس ملک کی اور اس رنگا رنگ باغ کی سب سے بڑی خصوصیت اور انفرادیت بھی یہی ہے، اس ملک کی مٹی کو بھی بہتوں نے بڑی زرخیز قرار دیا ہے۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مٹی میں جو بھی اور جہاں کا بھی پودا لگایا لگایا گیا، اس کی جڑیں گہرائیوں تک پہنچ کر پھل پھول بھی دیے اور اپنے سائے تلے بلاکسی تفریق مذہب و ملت سبھی کو راحتیں بھی پہنچائیں اور اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کے سب یعنی جو بھی آیا، جہاں سے بھی آیا وہ اس مٹی کا ہی ہوکر رہ گیا۔ بہ استثناء ایک شاطر گروہ کے، جو اس مٹی میں کھپ نہ سکا۔
افسوس کہ کچھ بدنگاہوں اور بدخواہوں کو اس عظیم باغ کی یہ خصوصیت اور انفرادیت کھٹک رہی تھی، ان لوگوں نے اس زمین کی زرخیزی اور اس کی قبولیت سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس پُرامن مٹی میں جہاں لوگوں کے اشتراک سے بڑے بڑے پھل دار درخت لہرا رہے تھے، جہاں رنگا رنگ پھول اور کلیاں کھلی ہوئی تھیں وہاں ببول اور کیکر کے پودے لگا ڈالے اور پھر خاردار جھاڑیوں نے اس خوبصورت اور دلکش چمنستان کو خارستان میں تبدیل کردیا۔ اب یہی خار ایک دوسرے کی راہ کے کانٹے بنے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے تلوے لہولہان ہو رہے ہیں اور کچھ لوگ تو ناسمجھی میں آپس میں ہی الجھنے لگے ہیں، یہ منظر دیکھ کر بدخواہوں کی بانچھیں کھلی ہوئی ہیں اور کامیابی پر ٹھٹھے لگا رہے ہیں۔ دور بہت دور بیٹھے یہ بدنگاہ اس رنگا رنگ چمن کو برباد کرنے کی سازشیں رچ رہے ہیں، کبھی کسی پودے کو کبھی کسی پھول کو، ایک دوسرے پر فوقیت دے کر یا ایک دوسرے پر اہمیت جتاکر آپس میں دست و گریباں کرنے میں پیش پیش ہیں تو کبھی خود کو منصف قرار دے کر نا انصافی کا زہریلا بیج ایسا بوتے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے نفرت کی جھاڑیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اور آج یہی بیج اپنے تمام اثرات کے ساتھ ملک بھر میں پھل پھول رہا ہے۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ لوگ سازش سے اچھی طرح واقف بھی ہیں، پھر بھی کانٹوں کو ہی اپنے گلے کا ہار قرار دے کر خود کو لہولہان کیے ہوئے ہیں اور اپنی پُرمسرت و پُرسکون زندگی کو بدامنی میں بدلنے لگے ہیں، تو ایسے میں یہی توکہا جائے گا کہ خود کردہ را علاجے نیست، یعنی اپنے کیے کا کوئی علاج نہیں ہے۔ کسی شاعر کا کہنا تو یہ ہے کہ:
زمانہ اس سے گلشن پر کبھی بدتر نہیں آیا
عنادل! کب اٹھوگے، کیا ابھی محشر نہیں آیا
وہ چمن جو کبھی مختلف پھولوں کی بھینی بھینی خوشبوئوں سے معطر تھا، بھنورے مست ہوکر گنگناتے پھرتے تھے اور چڑیوں کی چہچہاہٹ سے سارا چمن گونج اٹھتا تھا اور دلوں کو ٹھنڈا کردینے والی بادِ صبا جب چلتی تو سبھی کے چہرے کھل اٹھتے تھے۔ مگر افسوس کہ اب وہی چمن اُجاڑ اور بے رونق ہوکر رہ گیا ہے۔ بادِ سموم نے سبھی پودوں کی نمی چھین لی ہے۔ سبھی اداس اداس ہیں۔ رنگ برنگی تتلیوں نے اڑنا چھوڑ دیا ہے، ہر ایک نے اپنی جان اور اپنی عزت کی فکر میں اپنے پروں کو سمیٹ لیا ہے۔ چمن کے وہ تمام پرندے جو ایک ساتھ دانہ چگتے تھے، ایک ساتھ اڑان بھرتے تھے اب وہی سہمے سہمے سے ہیں اور ایک دوسرے کو خوف کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اور محبتوں و اخوتوں سے گندھے اپنے ماضی کو یاد کر رہے ہیں۔ جب وہ گھنے اور پھل دار درختوں پر ایک ساتھ چہچہاتے تھے، ہر طرح کے پھولوں اور کلیوں کی حد نظر پھیلی پھولوں کی کیاریاں ان کے دلوں کو سکون بخشتی تھیں اور تمام ہی چھوٹے بڑے پرندے ایک ساتھ لطف اندوز ہوتے تھے۔ نہ معلوم کس کی نظر لگ گئی اور وہ چمن جو صدیوں پر محیط تھا، خاروں میں بدل گیا ہے۔ ہر تفریق کے کانٹے، اونچ نیچ، چھوا چھوت اور بھید بھائو کے خاروں کی باڑ نے ہر ایک کے دامن کو لہو لہو کر رکھا ہے۔ ہر ایک کی نگاہ اب ایک دوسرے کے لیے خون اگلتی نظر آنے لگی ہے۔ کون ہے وہ جو ہمارے اتحاد، محبت و اخوت اور بھائی چارگی کو دشمنی میں بدل رہا ہے؟ اور وہ کون ہے جو ہمارے ہرے بھرے چمن کو خاروں اور جھاڑ جھنکاڑوں میں تبدیل کردینے کے درپے ہے؟ کل تک ہم اچھل اچھل کر تال تلیوں میں ایک ساتھ پانی پیتے تھے، اب نسل کے نام پر، مذہب کے نام پر تال تلیا اور کنوئیں بھی بانٹ دیے گئے ہیں۔ ہماری کثرت میں وحدت کی بیش قیمت شئے چھین لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارے مشترک بزرگوں نے مل جل کر آزادی کی جنگ لڑی اور آزادی جیسی عظیم نعمت سے ہمیں نوازا تھا۔ حیرت ہے کہ یہ سب کچھ وہ لوگ کر رہے ہیں جن کا جنگ آزادی سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہے۔ تبھی تو یہ لوگ گلستانِ رنگارنگ کو یک رنگ میں بدل دینے کی کوشش میں ہیں۔
کہتے ہیں کہ قدرت نے چرند و پرند کو وہ قوتِ احساس بخشا ہے جس سے وہ کسی بھی انہونی اور رونما ہونے والے آفات و مصائب کو قبل از وقت ہی محسوس کرلیتے ہیں۔ وہ بھانت بھانت کی آوازیں دینے لگتے ہیں اور اچھلنا کودنا بھی شروع کردیتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے گلستانِ رنگ و بو کے سارے پرندے ہم آواز بھی ہیں اور سراپا احتجاج بھی۔ باد تند نے پورے باغ کو جھلسا دیا ہے، محبتوں و اخوتوں کے نئے پھولوں اور نئی کلیوں کے کھلنے کی امیدیں اب مفقود ہوتی جارہی ہیں، کیونکہ اب عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں آتے جارہے ہیں۔ جھلسے ہوئے درختوں کے پتے سڑ گل کر جان لیوا بیماریاں پیدا کرنے لگے ہیں اور پورا باغ کھنڈر کا منظر پیش کرنے لگا ہے ۔ اور بقول شاعر:
بلبلوں نے کی تھی گلچیں کی شکایت ایک دن
باغباں نے جل کے پورا باغ ہی جلوادیا
دراصل چھوا چھوت اور اونچ نیچ جیسے قبیح اعمال کے پس منظر میں وہ طبقاتی نظام ہے جسے مہرشی منوجی نے ترتیب دیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ منہ سے برہمن، بازو سے چھتری، ران سے ویشیہ اور پیروں سے شودر پیدا کیے گئے ہیں۔ ان چاروں ورنوں کو کام کی بنیاد پر تقسیم کردیا گیا ہے اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ شودر کو صرف اپنی بڑی ذاتوں کی خدمت قرار دیا گیا ہے۔ اسے اور کسی کام کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ منو کہتے ہیں کہ شودر زرخرید ہو یا آزاد، اس سے خادم کا ہی کام لیا جائے کیونکہ برہما نے اسے دوسرے ورنوں کی خدمت کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ اور امر واقعہ بھی یہی ہے کہ منو کے وضع کردہ طبقاتی نظام نے ہی اچھوتوں اور شودروں کو ویدوں کے زمانہ میں ہی غلامی کی ایسی دلدل میں پھنسا دیا جس سے نکلنے کے لیے انہیں آج بھی ہاتھ پیر مارنا پڑرہا ہے جبکہ:
سب جانتے ہیں سب اسی مٹی سے بنے ہیں
تب فرق ہی کیا، رنگ میں گورے ہوں کہ کالے
خالق نے سکھائی تھی ہمیں وحدت آدم
تم کون ہو خانوں میں انہیں بانٹنے والے
آج ہمارا چمن اسی طبقاتی نظام کی زد میں ہے۔ چمن کے سارے چرند و پرند اس صورت حال سے بے حد پریشان ہیں، امن و سکون سے دو رہوتے جارہے ہیں، وہ ایسے نظامِ زندگی کے آرزو مند ہیں جہاں اونچ نیچ اور چھوا چھوت نام کو بھی نہ ہو۔ جہاں کسی کالے کو کسی گورے پر یا کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ وہ اس نظام کے متمنی ہیں جہاں عدل و انصاف اور حق و صداقت کی بالادستی ہو، اور یہ نظام تو صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسی میں پوری انسانیت کی بھلائی بھی ہے اور تعمیر و ترقی کا راز بھی مضمر ہے۔ آج کے دور میں پرندوں کے درمیان جو رنگ و نسل اور طبقہ کی بنیاد پر جو مظالم لوگ ایک دوسرے پر ڈھا رہے ہیں ان کی دین اسلام میں کوئی بنیاد نہیں، اور نہ ہی ہوسکتی ہے کیونکہ خدا تو سبھی کا مالک و خالق ہے اس کے نزدیک سبھی برابر ہیں، سبھی آدم کی اولاد ہیں۔ اگر فرق ہے تو علم و فضل اور تقویٰ کی بنیاد پر۔
اب اگر کوئی باغباں اس گلشن کو ایک ہی رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ خدا کی قدرت کو چیلنج کرتا ہے اور چمن کی دشمنی کرکے اسے تباہ و برباد کرتا ہے۔ کیا آج ہمارے چمنِ رنگارنگ کے ساتھ ایسا ہی کچھ نہیں ہو رہا ہے؟ چمن کے سارے پرندے ہر قسم کے نسلی، علاقائی، خاندانی اور قومی تعصب سے بری طرح جھوجھ رہے ہیں، انہیں اس عذاب سے کون نکالے گا؟ کون نہیں جانتا کہ چمن میں اگر ایک ہی قسم کے پھول ہوں تو وہ کتنا بے رنگ و بے رونق ہوگا، چمن کی ساری خوبصورتی ہی اسی سے ہے کہ اس میں قدم قدم پر قسم قسم کے پھول اپنے جدا جدا رنگوں کی بہار دکھلاتے رہیں۔ مگر یہ بات باغباں کو کون سمجھائے!
شورِ محشر ہے بپا زاغ و زغن سے ہر سو
ایک بلبل کی نوا دیکھئے کیا کرتی ہے

 

 

سعدیہ ذیشان
B-94/9، جوشی کالونی ، دہلی۔ 

Leave A Reply

Your email address will not be published.