درگاہِ اجمیریؒ پر شرانگیز دعویٰ، کروڑوں عقیدتمند شدید برہم
سیاسی لیڈران اسدالدین اویسی، عمران مسعود، ضیاء الرحمان برق اور دیگر نے آواز بلند کی، درگاہ کے دیوان اور مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ان کوششوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
سنبھل کی تاریخی جامع مسجد کا معاملہ ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ اب عالمی شہرت یافتہ آستانہ خواجہ اجمیری ؒ کی درگاہ میں بھی مندر ہونے کا دعویٰ کر دیا گیا ہے۔ راجستھان کے اجمیر شہر میں واقع حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ میں شیو مندر ہونے کے دعوے کے ساتھ مقامی عدالت میں ایک عرضی داخل کی گئی جو سماعت کے لئے منظور بھی ہو گئی ہے۔ اس پر پورے ملک اور دنیا بھر میں موجود خواجہ معین الدین چشتی کے کروڑ ہا کروڑ عقیدت مندوں نے سخت ناراضگی اور شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اس پر نہ صرف سیاسی لیڈران نے آواز بلند کی ہے بلکہ درگاہ کے دیوان نے بھی مذمت کی ہے اور مسلم پرسنل لاءبورڈ نے بھی ان کوششوں کو ملک میں افراتفری پیدا کرنے کی کوششیں قرار دیا ہے۔
اس بارے میںدرگاہ کے دیوان سید نصیر الدین نے کہا کہ ملک میں درگاہوں اور مساجد میں مندرتلاش کرنے کا جو نیا رجحان شروع ہوا ہے وہ نہ ملک اور نہ معاشرے کے مفاد میں ہے اور نہ ہی آنے والی نسلوں کے لئےبہتر ہے۔ دیوان نصیر الدین نے اجمیر میں ہندو مندر کے دعوے سے متعلق کیس کو عدالت میں سماعت کے لئے قبول کرنے اور فریقین کو نوٹس جاری کرنے کی خبروں کے بعد میڈیا سے کہا کہ درگاہ کی تاریخ ۸۵۰؍ سال پرانی ہے۔ یہ عقائد کا مرکز تاریخ کا حصہ ہے۔ ہر دورکے لوگ یہاں آکر مرادیں مانگتے ہیں۔ وزیراعظم اور دیگر اہم سیاستدانوں کی چادر پیش ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت سے چلا آرہا ہے جب ۱۲۳۶ء میں خواجہ صاحب کا انتقال ہوا اور درگاہ تعمیر ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ سستی مقبولیت اور خواجہ صاحب کے کروڑوں عقیدت مندوں کی دل آزاری کیلئے یہ طریقے اپنارہے ہیں انہیں بہت جلد جواب ملے گا۔ ایسے لوگوں کو قانون کے دائرے میں لایا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے وکلاء سے قانونی رائے لیں گے اور مقدمے کو خارج کرانے کے لئےقانونی طریقہ پر عمل درآمد کریں گے۔
اس بارے میںانجمن معینیہ فخریہ چشتیہ خدام خواجہ سیدزادگان کے سیکریٹری سید سرور چشتی نے کہا کہ غریب نواز کی درگاہ تھی، ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی ہر مسجد اور درگاہ میں مندر ڈھونڈنا مسلمانوں کے عقیدے کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش ہے جبکہ اجمیر درگاہ تو ہر ایک کے عقیدے کا مرکز ہے۔ یہاں ہر مذہب کے لوگ آتے ہیں۔ یہ مقدمہ ان سبھی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش ہے۔اس بارے میں ایم آئی ایم کے صدر اور رُکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے شدید ناراضـگی ظاہر کی کہ ’’وہ درگاہ گزشتہ ۸؍سو سال سےموجود ہے۔وہاں نہرو سے لے کر مودی تک سبھی نے چادر چڑھائی ہے۔ اب اچانک یہ مسئلہ اٹھایا جارہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کی پوری تیاری ہو گئی ہے۔‘‘
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ عمران مسعود نے کہا کہ ’’مسلمانوں کی مساجد اور درگاہوں پر دعوئوں کا یہ سلسلہ کہاں جاکر تھمے گا؟ بی جے پی اور آر ایس ایس والے آخر چاہتے کیا ہیں؟ وہ مسلمانوں کو بتائیں کہ ان کا مقصد اصل میں کیا ہے۔ اس طرح کروڑوں عقیدت مندوں کے جذبات سے کھیلنا کہاں تک درست ہے۔‘‘ اس بارے میں سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمان برق نے کہا کہ’’ مسلمانوں کو ہر روز کسی نہ کسی نئے مسئلہ میں الجھانے اور انہیں اکسانے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن ملک کا مسلمان آئین اور عدالتی نظام میں مکمل یقین رکھتا ہے۔ ‘‘
درگاہ پر شر انگیز دعوے کے بارے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا۔ بورڈ نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ اجمیر کی مقامی عدالت نے اس عرضی کوسماعت کے لئے منظور بھی کرلیااور فریقین کو نوٹس بھی جاری کر دیا۔ عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی موجودگی میں اس طرح کے دعوے قانون اور دستور کا کھلا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ اگر سپریم کورٹ اس پر پہلے ہی واضح فیصلہ کردیتا تو یہ نوبت نہیں آتی۔