بی جے پی حکومت نے رفائیل معاملے میں سپریم کورٹ کو گمراہ کیا ہے
رفائیل معاملے کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے تفتیش ہونی ہی چاہئے: ابھیشیک منوسنگھوی
ممبئی: بی جے پی حکومت جس طرح گزشتہ چار برسوں سے عوام کو پھنسایا اور انہیں گمراہ کیا ہے ، اسی طرح رفائیل معاملے میں سپریم کورٹ کو بھی گمراہ کیا ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی، بی جے پی صدر امیت شاہ اور بی جے پی کے وزیرقانون یہ سب ایک مل کر جھوٹے دستاویزات و ثبوت سپریم کورٹ میں بند لفافے میں پیش کئے۔ اس حکومت نے تمام طرح کے حربوں کا استعمال کرکے سپریم کورٹ کو گمراہ کیا ہے۔ بند لفافے میں سی اے جی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا چاہئے ۔ سی اے جی کی رپورٹ عوام کے سامنے آنی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ رافیل طیارے کی قیمت کی معلومات سی اے جی کو دی گئی اور سی اے جی کی رپورٹ کا ایک حصہ پی اے سی کو دی گئی جو عام کردی گئی ہے۔ لیکن سی اے جی کی رپورٹ پی اے سی کو پیش ہی نہیں کی گئی۔ یہ باتیں آج یہاں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ترجمان اور ممبرپارلیمنٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے ایک پریس کانفرنس میں دیں۔ اس پریس کانفرنس میں ممبئی کانگریس کے صدر سنجئے نروپم، اے آئی سی سی کے ترجمان سنجئے جھا، مہاراشٹر پردیش کانگریس کے ترجمان سچن ساونت، سابق ایم ایل اے چرن سنگھ سپرا اور ممبئی کانگریس کے ترجمان ارون ساونت موجود تھے۔
اس موقع پر ابھیشیک منوسنگھوی نے مزید کہا کہ بی جے پی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ 2012 سے ریلائنس کو رفائیل کا آفسیٹ پارٹنر بنائے جانے کا عمل جاری تھا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ریلائنس ڈیفنیس کمپنی کا قیام 24 مارچ 2018 کو ہوا ہے۔ رفائیل سودے کا معاہدہ ہونے سے محض 10 روز قبل اس کمپنی کا رجسٹریشن ہوا ہے۔ اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سی ریلائنس سے 2012 سے بات جاری تھی؟ حکومت نے یہ غلط معلومات سپریم کورٹ میں پیش کی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فرانس کے سابق صدر اولانڈ وموجودہ صدر ماکرون نے رفائیل سودا کے معاملے میں وضاحت کی ہے۔ یہ وضاحت کہا ںہے؟ ہمیں کہیں بھی یہ وضاحت نہ دیکھنے کو ملی اور نہ ہی پڑھنے کو ملی۔ اس حکومت نے غلط معلومات سپریم کورٹ کو دیا ہے۔ سنگھوی نے کہا کہ ابتداءمیں ایچ اے ایل اور ڈیسالٹ ایوی ایشن کے درمیان رفائیل سے متعلق بات چیت ہوئی تھی۔ لیکن نریندرمودی نے ایچ اے ایج کو اس سودے سے باہر کرتے ہوئے اپنے دوست انل امبانی کی ریلائنس ڈیفینس کمپنی کو اس سودے میں آفسیٹ پارٹنر کے طور پر شامل کیا۔ یہ بہت بڑی بدعنوانی اور اور بھرشٹاچار ہے۔
ابھیشیک منوسنگھوی نے کہا کہ اب بی جے پی کہتی ہے کہ اب مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے اس کی تفتیش نہیں ہوسکتی، کیونکہ اس معاملے میں عدالت نے فیصلہ دیدیا ہے۔ لیکن کانگریس کے دورِ حکومت میں جب بھی کسی معاملے کی بی جے پی نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے تفتیش کا مطالبہ کیا، کانگریس حکومت نے اسے منظور کیا۔ پھر وہ چاہے 1989 میں بوفورس کا معاملہ ہو، 1992 میں ہرشد مہتا کا معاملہ ہو، 2011 میں ۲جی بدعنوانی کا معاملہ ہو یا پھر 2013 میں وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر خریداری کا معاملہ ہو۔ ان تمام معاملات میں بی جے پی نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی مانگ کی تھی اور اس وقت کانگریس نے اسے منظور کیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی اب رفائیل معاملے میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے تفتیش سے انکار کیوں کررہی ہے؟ رفائیل معاملے کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے تفتیش ہونی ہی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ملی اطلاع کے مطابق بی جے پی کہتی ہے کہ سی اے جی کی رپورٹ میں کچھ خامیاں ہیں، اس لئے اسے پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جارہا ہے۔ رپورٹ میں خامیاں اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی نے ہی یہ غلطی کی ہے۔ اب یہ اسے توڑ مروڑ کر پیش کریں گے۔ خود کو بچانے کے لئے حکومت نت نئی وجوہات تلاش کررہی ہے۔ اب ایک اور وجہ بی جے پی یہ پیش کررہی ہے کہ سپریم کورٹ کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ یہ حکومت سپریم کورٹ میں جو دستاویزات و ثبوت پیش کرے گی، کورٹ اسی کے مطابق فیصلہ دے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب بی جے پی حکومت خود کو بچانے کے لئے سپریم کورٹ کوموردِ الزام ٹھہرا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت تمام سرکاری اداروں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کررہی ہے۔