صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

ریحان تو چلا گیا لیکن اپنے پیچھے ایسی یادیں چھوڑ گیا جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔ اسلم کر تپوری

ریحان اپنے لوگوں ، اپنی قوم ، اپنے شہر اور سیاسی رہنمائوں سے بیزار ، خفا اور ناراض تھے لیکن ان کی ناراضگی میں بھی محبت اور قوم کا درد تھا

1,561

بھیونڈی : (عارِف اگاسکر) ریحان تو چلاگیا لیکن اپنے پیچھے ایسی یادیں چھوڑ گیا جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔ ریحان نے جو روشنی چھوڑی ہے اسے یقیناً ہم آگے بڑھائیں گے ۔ میں ان کے مِشن کو آگے بڑھائوں گا ۔ ریحان نے جو خواب دیکھا تھا اسے میں پورا کروں گا یہ میرا وعدہ ہے ۔ جمعرات ۱۷؍ جنوری کو رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کے ’اردو بسیرا ہال‘ میں مرحوم ڈاکٹر ریحان انصاری کی یاد میں ’ہفت روزہ صبح و شام‘ کی جانب سے  معروف عالم دین مولا نا ابو ظفر حسان ندوی ازہری کی صدارت میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ اس مو قع پرممبئی سے آئے ہوئے ماہر خطاط اور ڈاکٹر ریحان انصاری کے اُستاد اسلم کر تپوری نےانھیں خراج عقیدت پیش کر تے ہوئے حاضرین کے روبرو اپنے جامع خیالات کا کچھ اس طرح اظہار کیا کہ ہال میں بیٹھے ہوئے تمام افراد کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔ انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھا تے ہوئے مزید کہا کہ ایک اُستاد اپنے شاگرد کا خواب پورا کر رہا ہے جبکہ ایک شاگرد اپنے اُستاد کا مِشن پورا کر تا ہے ۔

کتابت کے بارے میں ان کی لگن اور دلچسپی کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ میں نے ان میں ایک جذبہ دیکھا کہ وہ جنون کی حد تک کتابت سیکھتے رہے ۔ انہوں نے ان کے جذبہ کو سراہتے ہو ئے کہا کہ خطاطی کے وہ رموز و نکات جس سے وہ بھی واقف نہیں تھے اس فن کو بھی ریحان سیکھ چکے تھے ۔ اپنے اس ہونہار شاگرد کے تعلق سے حاضرین کو بتا تے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگر ریحان نہ ہو تا تو فیض نستعلیق فونٹ کبھی نہیں بنتا ۔آج اس فونٹ کو ہندستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دُنیا میں سراہا جا رہا ہے ۔ یہ ریحان کا ہی کار نامہ ہے کہ انہوں نے اس کی تخلیق کی ۔ انہوں نے مسلسل چار سال تک اس پر محنت کی اور چالیس ہزار لیگیچر بنائے ۔ جب تک وہ فونٹ رہے گا ریحان کا نام چلتا رہے گا ۔ ریحان کے چلے جانے کے بعد اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنی آخری سانس تک خطاطی کے لیے کام کرتا رہوں گا تو مجھے لگے گا کہ میں دو سرے ریحان کو زندہ کر رہا ہوں ۔

اپنے صدارتی خطبہ میں معروف عالم دین مولا نا ابو ظفر حسان ند وی ازہری نے کہا کہ اسلام کا مزاج یہ نہیں ہے کہ جانے والے کو برسوں یاد رکھا جائے ۔ ہمارا مذہب نہ تو بت پر ستی کی اجازت دیتا ہے اور نہ شخصیت پر ستی کی ۔ ڈاکٹر ریحان انصاری نے ایک ایسی منزل کا سفر کیا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہے ۔ انہوں نے اپنی ۵۷؍ سالہ زند گی میں متعدد میدانوں میں کام کیا  اگر ان کی عمر وفا کر تی تو وہ پورا کام کر جاتے ۔ اللہ ان کی مغفرت فر مائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر کی تو فیق دے ۔ ماہر اطفال ڈاکٹر عبد السلام انصاری نے ریحان کی شخصیت کے تعلق سے کہا کہ وہ ایک شخص نہیں ایک انسٹی ٹیوٹ تھا جس میں صحافت ، کتابت ، میڈیکل سائنس اورطبابت کی ساری خوبیاں مو جود تھیں ۔ وہ انتہائی بے باک صحافی تھا ۔ کچھ لوگ ان کے مضامین سے اختلاف بھی کر تے تھے لیکن وہ لہروں کے ساتھ اور اس کی مخالف سمت بھی تیرنا جا نتا تھا ۔ جو سچ سمجھتا تھا اسے وہ بے باکی اور بے خوفی سے قلم کے حوالے کر تا تھا ۔ آج ہم نے اُردو ادب کے ایک طاقتور سپاہی کو کھو دیا ہے ۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ سال میں ایک بار ان کی یاد میں کسی مجلس کا انعقاد کیا جا نا چاہیئے ۔

رئیس ہائی اسکول اینڈ جو نیئر کالج کےپر نسپل ضیاء الرحمٰن انصاری نےسر سید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سر سید احمد خان چلے گئے تو اپنے بعد کچھ لوگ چھوڑ گئے جو ان کے مِشن کو لے کر آگے پہنچےہیں یہی ڈاکٹر ریحان کے ساتھ ہوا ہے وہ اپنے پیچھےایک روشن قلمی وِراثت اور کتنی ہی شمعیں ہر میدان میں چھوڑ کر  چلے گئے ہیں ۔ ڈاکٹر ریحان قوم کا درد رکھتے تھےاور ہمیشہ قوم و ملت اور اپنے شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے فکر مند رہتے تھے ۔ ہفت روزہ صبح و شام کے تعلق سے اُردو داں طبقہ اور شہریوں کی بے حسی کے بارے میں انہوں نے ہمیشہ مایوسی کا اظہار کیا ۔ وہ اپنے لو گوں سے اپنی قوم سے اپنے شہر اور اپنے سیاسی رہنمائوں سے بیزار، خفا اور ناراض تھے لیکن ان کی ناراضگی میں بیزاری نہیں بلکہ محبت اور قوم کا درد تھا ۔ شہر کے سینئر ایڈووکیٹ یٰسین مومن نے کہا کہ دُنیا میں بہت سی ایسی شخصیتیں ہو تی ہیں جو کسی ایک میدان میں مہارت حاصل کر تی ہیں لیکن ڈاکٹر ریحان نے ایسے ایسے علوم میں دسترس حاصل کی اور نام پیدا کیا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ فنِ خطاطی کو اس حد تک لے جانا کہ لندن کی دو روزہ کانفرنس میں اس پر بحث ہو یہ ڈاکٹر ریحان کا عظیم کارنامہ ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جا ئے گا ۔ یقیناً ڈاکٹر ریحان نے اس شہر کے لیے ، فنِ کتابت کے لیے اور اُردو زبان کے لیے جو کام کیا ہے وہ قابل تقلید اور قابل ستائش ہے اسے یاد کیا جا تا رہے گا ۔

ڈاکٹر ریحان کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کر تے ہوئے معروف صحافی قطب الدین شاہد اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکے اور اشکبار آنکھوں کے درمیان انہوں نے ڈاکٹر ریحان سے اپنی ملاقاتوں ان کی محبت اور اُردو زبان و ادب کے تعلق سے تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ریحان اس وقت ان کے رابطے میں آئے جب کوئی انھیں جانتا تک نہیں تھا ۔ وہ انسانیت نواز تھے ان میں قناعت پسندی بدرجہ اتم مو جود تھی ۔ انہوں نے ہمیشہ وقت کی قدر کی اور کسی لمحہ کو ضائع نہیں کیا ۔ اسی طرح ایڈووکیٹ سلیم یوسف شیخ نے پُر نم آنکھوں سےڈاکٹر ریحان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہفت روزہ صبح و شام پر ان کے احسانات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ سید محمد حذیفہ قاسمی نے ڈاکٹر ریحان انصاری کی ناگہانی موت پر انتہائی رنج و غم کا اظہارکر تے ہوئے کہا کہ وہ اُردو کے ایک مخلص خادم تھے ۔ اُردو کے تعلق سے ان کی خدمات اور جذبے کو بھلایا نہیں جا سکتا ۔ فن خطاطی کے فروغ کے لیے ان کے اندر ایک جنو نی کیفیت پائی جاتی تھی ۔

ہفت روزہ صبح و شام سے ان کی دلی وابستگی لوگوں کو ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہے گی ۔ انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ صبح و شام دو بارہ پورے عزم و حوصلے کے ساتھ اخبار کو جاری کرے ۔ ڈاکٹر ریحان کے لیے یہی اعزاز ہوگا اور انھیں پس از مرگ زندہ رکھنے کا بہانہ بھی ہو گا ۔ رئیس ہائی اسکول کے چیئر مین محمد شفیع مقری نے کہا کہ ڈاکٹر ریحان اردو سے حقیقی محبت کر تے تھے ۔ وہ اُردو کے شیدائی تھے اور وہ قوم کے درد کو محسوس کر تے تھے ان کے قول و فعل میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ اُردو کے لیے کچھ کر نے کا جذبہ ان کے اندر ہمیشہ موجزن رہتا تھا ۔ معروف ادیب محمد رفیع انصاری نے انتہائی مغموم لہجے میں ڈاکٹر ریحان انصاری کو منظوم خراج عقیدت پیش کی ۔ سابق معاون ہیڈ ماسٹر ملک احمد مو من نے کہا کہ اللہ نے ڈاکٹر ریحان کو بہت ساری خو بیوں سے نوازا تھا ۔ عالمی شہرت کا سبب بننے والا فیض نستعلیق فونٹ کی تخلیق ان کا عظیم کار نامہ تھا ۔ انہوں نے انتہائی افسوس کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ اتنے بڑے شہر میں ایک بھی کارڈیک اسپتال نہیں ہے اور نہ ہی کوئی کارڈیک ایمبولینس موجود ہے ۔ ان کے لیے کلیان شہر سے طلب کی گئی کارڈیک ایمبولینس خستہ حال راستے اور ٹریفک جام کی وجہ سے پو نے دو گھنٹے کے بعد بھیو نڈی پہنچ سکی ۔

مو لا نا امتیاز احمد فلاحی نے کہا کہ ڈاکٹر ریحان انصاری قوم و ملت کے بچوں کی تعلیم کے لیے ہمیشہ فکر مند رہا کرتے تھے اور معاشی طور پر کمزور طلباء و طالبات کی مالی اعانت کیا کرتے تھے ۔ اس نیک مقصد کے لیے انہوں نے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بنائی تھی جو اس کام میں پیش پیش رہتے تھے ۔ ڈاکٹر عبد الحفیظ انصاری نے ان سے اپنے دیرینہ تعلقات کا تذکرہ کر تے ہوئے کہا کہ اُردو زبان میں آج جو کچھ ٹوٹی پھوٹی تحریر پیش کر پاتے ہیں وہ ڈاکٹر ریحان کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے سبب ہی ممکن ہو سکا ہے ۔ اس تعزیتی جلسہ کے اختتام پرہفت روزہ صبح و شام کے مالک و مدیر عبد الجلیل انصاری نے تعزیتی قرارداد پیش کی ۔ اس مو قع پر مرحوم ڈاکٹر ریحان انصاری کے فرزند رصی انصاری اور ان کے چچا زاد بھائی سر فراز شبیر احمد راہی نیز ڈاکٹر ریحان انصاری کی بیٹیاں اور بہنیں مو جود تھیں ۔ نشست کا آغاز مولا نا قاری محمد مصدق مومن کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔جب کہ نظامت کا فریضہ حنیف رمضان مومن نے انجام دیا۔اردو بسیرا ہال میں منعقدہ اس تعزیتی نشست میں ممبئی ، کلیان ، ممبرا اور بھیونڈی کے علمی ، دینی ، ادبی ، صحافتی ، تعلیمی ، سیاسی اور سماجی حلقوں سے تعلق رکھنے والے کثیر تعداد میں خواتین بھی آخر دم تک مو جود رہیں ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.