ڈائیلاگ کے ذریعہ تہذیب کے چراغ کو روشن کرنے کی ضرورت
تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں قسم کے لوگوں سے ملنے جلنے سے اندازہ ہوتا ہے مسلمانوں کے سامنے اپنے مستقبل کے لئے واضح منصوبہ بندی نہیں پائی جاتی ہے انہیں بس یہ شعور ہے کہ حالات کا رخ ان کے خلاف ہے اور ان کی زبان تہذیب اور عقیدہ بلکہ جان ومال سب کچھ معرض خطر میں ہے مسلمانوں کو یاد نہیں کہ تاریخ میں اس سے زیادہ سخت اور جاں گسل واقعات پیش آچکے ہیں موجودہ حالات اپنی سنگینی کے باوجود ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے ہیں ۔ بلاشبہ آج مسلم نوجوانوں کا دہشت گردی کے الزام میں انکاؤنٹر کیا جاتا ہے گورکشا کے نام پر بے قصور مسلمانوں کا قتل کیا جاتا ہے مسلم کش فسادات وفتا فوقتا ہوتے رہتے ہیں اور مسلمانوں کو فرقہ پرستی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، مسلمانوں کے خلاف بعض ہندو لیڈر زہریلے بیانات دیتے رہتے ہیں اسلام کے خلاف پروپگنڈا کیا جاتا ہے ان کی تہذیب اور زبان کو مٹانے کے سارے جتن کئے جاتے ہیں ۔ظلم اور مسلم دشمنی کی سیاہ رات درازتر ہوتی جارہی ہے ، ابھی اسی اپریل کے مہینہ میں پانچ تاریخ کوایسٹ دہلی کے منڈاولی پٹپڑگنج ہندو تو کے نوجوان تلواریں لہراتے ہوئے ایک مسجد کے پاس آئے اور جے شری رام کے نعرے لگائے اور بآواز بلند یہ کہتے رہے کہ ’ملا کو جب کاٹا جائے گا تو وہ رام رام چلائے گا ‘ اس کے بعد ۲۰ اپریل کوگڑگاوں میں ایسا ہی واقعہ پیش آیاجہاں ایک کھلے میدان میں کچھ مسلمان مسجد میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے وہاں بھی شدت پسند ہندوتو کے جوان جے شری رام کے نعرے لکانے لگے اور وہی جملے دہرائے گئے ’ ملا کو جب کاٹاجائے گا رام رام چلائے گا‘۔مسلمانوں کا مجمع جواب دینے کے بجائے منتشر ہوگیا ۔ یہ سب کچھ ہندوستان کی راج دھانی دہلی کی سرزمیں پر ہوا ۔ سوشل میڈیا پر تصویریں موجود ہیں،اشتعال انگیز نعرے لگانے والوں کو آسانی سے پکڑا جاسکتا تھا ، انکا جرم بھی ان کے نعروں سے ثابت ہوچکا تھا لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ابھی اوکھلا میں روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے کیمپ میں آگ لگائی گئی۔ یہ مسلسل ظلم سہی لیکن ہماری تاریخ میں مسلمانوں کے خلاف اس سے زیادہ ظلم ہوچکا ہے ۔ یورش تاتار کے افسانے آج بھی ایک ڈراؤنے خواب کی طرح باقی ہیں ، ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی لاشیں پورے ملک میں درختوں سے لٹکی نظر آتی تھیں ، مغربی استعمار نے الجزائر اور مراکش میں جس درندگی کا مظاہرہ کیا تھا وہ بھی کچھ کم نہیں تھا اور خود مسلمانوں نے مسلمانوں کے خلاف تاریخ میں جو ظلم کیا ان سے ہر تاریخ کا پڑھنے والا واقف ہے اور خود عصر حاضر میں شام اور مصر میں مسلمانوں نے مسلمانوں پر جوظلم کیا ہے اور وہاں عقوبت خانوں میں آج بھی لوگوں کو جرم اسلامیت کی جو سزا دی جارہی ہے اس کے سامنے وہ ظلم بہت ہلکا ہے جو اپنے ملک میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔
حالات ناموافق ضرور ہیں لیکن اس کی وجہ سے اگر ہماری سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت مسلوب ہوجائے اور ہم دہشت زدہ ہوکر رہ جائیں اور جذباتیت کا یا انتقامی نفسیات کا شکار ہوجائیں تو ہم اپنا نقصان کریں گے یہ سمجھنا چاہئے کہ مسلمان اگر فرقہ پرستی کا شکار ہوں گے تو ان کی فرقہ پرستی دس گنی بڑی فرقہ پرستی پیدا کرے گی ۔بجا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ظلم ہورہا ہے ،ظلم مشرق میں بھی ہورہا ہے ظلم مغرب میں بھی ہورہا ہے اور اس زمانہ میں اس ظلم کی وجہ اسلاموفوبیا ہے یعنی اسلام سے خوف ۔ لوگوں کو اس بات کا خوف ہے کہ اسلام ذہنوں کو مسخر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اگر اسلام کو بڑھنے سے نہ روکا گیا تو اسلام معاشرہ میں تیزی سے پھیل جائے گا اس لئے اسلام کی شبیہ خراب کرنے کی پوری کوشش ہر جگہ ہورہی ہے ۔ہندوستان میں اشتعال انگیزی کی جاتی ہے اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں جان بوجھ کر پھیلائی جاتی ہیں ۔ اس لئے مسلمانوں کا پہلا ایجنڈا یہ ہونا چاہئے کہ ان غلط فہمیوں کے تار پود بکھیر دیئے جائیں اور اسکے لئے عقلی دلائل کا سہارا لینا پڑے گا اور ہمیں ہر سطح پر ڈائیلاگ کے لئے اترنا پڑے گا ۔ ہر انسان کو اللہ نے عقل دی ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے اسے ضمیر عطا کیا گیا ہے اسے بنیادی طور پر انصاف پسند بنایا گیا ہے اسے احسن تقویم پر پیدا کیا گیا ہے اگر مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پیدا کی جاتی ہیں تو خود مسلمانوں کو آگے آنا چاہئے اور انسانوں کے ضمیر سے خطاب کرنا چاہئے ایسا نہیں ہے کہ تمام برادران وطن نے یہ طے کرلیا ہے کہ وہ ہر حال میں صرف فرقہ پرستوں کی آواز سنیں گے اوراپنے ضمیر کی آواز پر کان نہیں دھریں گے ۔ہمیں حکومت کے ذمہ داروں سے بھی بات کرنی ہے ہندوؤں کی تنظیموں کے سربراہوں سے بھی ڈسکس کرنا ہے اور عام ہندوؤں سے بھی اپنے تعلقات استوار کرنے ہیں اور خدمت خلق کے میدان میں اتر کر ان کے دلوں کو جیتنا ہے اس سلسلہ میں مولانا علی میاں کی پیام انسانیت کی تحریک کا ایک بہتر نمونہ ہمارے سامنے آیا تھا ہمیں اس تحریک کو بڑے پیمانہ پر اور ملک کی مختلف زبانوں میں انجام دینا ہے ۔مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیاں موجود ہیں اگرقول وعمل سے ان غلط فہمیوں کو دور کردیا گیا تو فرقہ پرستی کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی ۔لیکن یہ ضروری کام ابھی تک نہیں ہوا ہے۔
مسلمان رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ حکومت سے ملیں اور حکومت کے ذمہ داروں سے پوچھیں کہ مسلمانوں سے انہیں کیا شکایت ہے ہمیں حکومت کے نمائندوں کی بات بھی سننی چاہئے اور اپنی بات بھی مدلل طریقہ سے کہنی چاہئے۔ڈائیلاگ کی ایک مثال حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ ہے ۔ان کو فرعون کے پاس بھیجا گیا تھا اذہب الی فرعون انہ طغییعنی(جاؤ فرعون کے پاس اس نے سر کشی کی ہے ) حضرت موسی نے فرعون سے دعوت دین کے علاوہ اس فرقہ وارانہ ایشوپر بھی بات کی جو فرعون نے اختیار کررکھاتھا اور پھر انہوں نے بنی اسرائیل کو حوالے کرنے مطالبہ کیا تھا وارسل معنا بنی اسرائیل ۔قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ جو ملک کاسیاسی لیڈر ہے اس سے بات تو کرنی ہی چاہئے۔ اسی طرح ہندوؤں کے مذہبی لیڈروں سے بھی مکالمہ کرنا ہوگا ان کی بات سننی ہوگی اور اپنی شکایتیں رکھنی ہوں گی ۔ اور ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے دل دماغ میں مسلمانوں کے بارے میں بہت سی غیر حقیقت پسندانہ باتیں جاگزین ہوچکی ہیں ہمیں پورے تحمل سے ان کی باتوں کو اور شکایتوں کو سننا چاہئے اور ان کا منصفانہ اور دانشمندانہ جواب دینا چاہئے اور اگر خود مسلمانوں سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو اسے تسلیم بھی کرنا چاہئے ۔ اسی طریقہ سے دلوں کے مقفل دروازے کھل سکیں گے ۔ان جاں گسل حالات کا حل مذکرات اور ڈائیلاگ میں پوشیدہ ہے ۔مولانا سلمان حسینی کے بابری مسجد پرایک ہندو لیڈر شری شری روی شنکر سے مکالمہ کاآغاز کرنے پر تنقیدوں کے تیر برسادیئے گئے ،چائے کی پیالیوں میں طوفان اٹھا اور ان کو الزام اور دشنام کا ہدف بنالیا گیا ۔ ان تنقیدوں میں یہ وزن تو تھا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے جب ایک اسٹینڈ اختیار کیا تھا کہ بابری مسجد کے ایشو پر بات نہیں کرے گا اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کرے گا تو بورڈ کی مجلس عاملہ کا رکن ہوتے ہوے اس اسٹینڈ کی عملی خلاف ورزی کرنے کا ایک رکن کو کیاحق حاصل ہے ۔ تنقیدیں بجا اور درست تھیں اور میرے نزدیک یہ ڈسپلن کی خلاف ورزی تھی لیکن کسی نے نقاب رخ کے پیچھے مکالمہ کی اس اسپرٹ اوراس خوبصورت جذبہ کو سمجھنے اور جھانکنے کی کوشش نہیں کی جو اپنی جگہ بالکل درست ہے اور قابل تعریف ہے اور وحی الہی سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ تمام تنقیدیں توازن سے محروم تھیں اور توازن سے اس لئے محروم تھیں کہ مسلمان دوسرے تمام غیر مسلموں کوآدم کا کنبہ سمجھنے کے بجائے ان کو اپنا خیالی دشمن سمجھنے لگے ہیں مذاکرات کے ذریعہ ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے ان کے چشم تصور میں ہر وقت ایک میدان جنگ کا نقشہ ہے اور سامنے غنیم کا لشکر ہے اور مسلمانوں کی فوج ہے جو مقابلہ کے لئے ہاتھ میں تیر کمان لئے ہوئے ہے ۔ جب کسی قوم کا یہ مریضانہ مزاج بن جائے گا تو بات چیت اور مکالمہ اور مذاکرہ کی اہمیت کا احساس کیسے ہوگا اور ایسے قائد کی اس کے نزدیک کیا اہمیت ہوگی جو قرآن اور پیغمبرانہ کردار کی روشنی میں بات چیت کے ذریعہ تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔تقریروں کی شررباری اور گرم گفتاری مسائل کا حل نہیں ہے ۔اور نہ ان منفی صفات کے حامل قائدین مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔یہ شکست خوردہ قوم کی نفسیات ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کو اپنے مسائل حل کرنے ہیں تو بر سراقتدار طبقہ سے اس کو رابطہ بھی رکھنا ہوگا اور حکومت کوقرآن کی آیت (وجادلہم بالتی ہی احسن ) پر عمل کرتے ہوئے غلط اقدامات کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ ملک میں اعتدال پسند اور انصاف پسند طبقہ کو بھی تلاش کرنا ہوگااس کو ہم نوا بنانا ہوگا اور اس طبقہ کو اپنا تعاون دینا ہوگا اور اس کا تعاون لینا ہوگا برادران وطن سے کمیونیکیشن کرناہوگااورڈائیلاگ کی فضا بنانی ہوگی اپنے حلقہ میں ایسے دانشور بھی تلاش کرنے ہوں گے جو قرآنی آیت’ قولا لہ قولا لینا‘( تم دونوں ( فرعون ) سے بات چیت میں نرمی اختیار کرنا ) پرعمل کر سکیں اور استدلالی اسلوب اختیار کرسکیں۔ آئی اوایس ( انسٹیٹیوٹ آف آبجکٹو اسٹڈیز)نے کئی کانفرنسیں کی ہیں جس میں متنازعہ مسائل پر مختلف الخیال لوگوں کو اپنی بات پیش کرنے کا موقعہ دیا ہے اس اہم کام کو مسلم ایشوز پر واضح مذاکرات کی شکل دینے کی ضرورت ہے ۔ظلم اور نا انصافی سے بچنے کے لئے قانون کا علم اور شعور مسلمانوں میں پھیلانے کی ضرورت ہے ۔ لا علمی اور جہالت سے بھی انسان کو نقصان پہنچتا ہے ۔ سول لاء اور کرمنل لا ء کی کتابوں کے اردو میں ترجمے کرنے اور انہیں مسلمانوں میں پھیلانے کی ضرورت ہے جسٹس احمدی آئی او ایس سے قریب ہیں ان کی نگرانی میں یہ اہم کام انجام دیا جاسکتا ہے ۔ ظلم کے خلاف قانونی کارروائیاں بھی ضروری ہیں اس سلسلہ میں بے قصور قیدیوں کوچھڑانے کی جمعیۃ علماء کی کوششوں کا اعتراف کرنا چاہئے ۔
پروفیسر محسن عثمانی ندوی