ممبئی کے دورافتادہ مسلم اکثریتی مضافاتی شہر ممبرااور میرا روڈ میں بھی رمضان کی رونقیں دوبالا
ممبئی: عروس البلاد ممبئی کے دورافتادہ مسلم اکثریتی مضافات ممبرااور میرا روڈ میں بھی رونقیں دوبالاہوجاتی ہیں اور گزشتہ بیس سال سے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے کیونکہ ان علاقوں میں جنوبی اور جنوب وسطی ممبئی کے مشترکہ خاندانوں نے یہاں کا رُخ کیا ۔ ان مضافاتی بستیوں میں مضافاتی شہر تھانے کا حصہ ممبرااورتھانے ضلع کا میرا روڈ شامل ہے جوکہ میرا بھائیندر میونسپل کارپوریشن میں شامل ہے۔ماہ مقدس میں یہاں ممبئی کے بھنڈی بازار، محمدعلی روڈ اورمدنپورہ جیسا ماحول رہتا ہے ۔
گزشتہ دودہائیوں میں ان علاقوں میں تیزی سے آبادی میں اضافہ کی وجہ سے ان چھوٹے شہروں کی ترقی پر بھی توجہ دی گئی ہے،کئی فرقہ پرست ہمیشہ اپنے بیانات میں مدنپورہ،ممبرا اور میرا روڈ کو مسلم اکثریتی علاقے ہونے پر نشانہ بناتے رہتے ہیں، حال میں میرا روڈ میں اکثریتی انتہا پسند تنظیم کی ریلی میں میراروڈ کے نیا نگر کو نشانہ بنایا گیا تھااور انہیں سماج دشمن عناصر اور دہشت گردوں کے اڈے تک قراردیا گیا۔
مذکورہ دونوں شہروں ممبرا _کوسہ کو تھانے میونسپل کارپوریشن کی حدود میں شامل کرلیا جبکہ میرا روڈ اور متصل بھائیندرکوایک میونسپل کارپوریشن بنادیا گیاجس سے یہاں کی آبادی بڑھ گئی اور میرا روڈ ایک کاسموپولیٹن شہر بن چکا ہے ،ان علاقوں میں ایسے لوگ بسے ہیں جوکہ شہر میں مشترکہ خاندان کا حصہ تھے ،پھرممبرا اور میراروڈ کے سستے اور پُرفضا مقام پر چلے آئے ۔
ممبئی کے ان دورافتادہ مضافاتی علاقوں میں ایک زمانے میں موالیوں اور بدمعاشوں کو تڑی پاریاشہر بدر کیا جاتا تھا،لیکن دونوں آبادیاں کافی گنجان ہوچکی ہیں اور تعلیم یافتہ اور متوسط طبقہ کی بڑی تعدادیہاں پائی جاتی ہے جبکہ امراء کی کواپرئٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی بھی تعمیر ہوچکی ہیں،کیونکہ مسلم اکثریتی علاقے بن چکے ہیں ،اس لیے ظاہری بات ہے دونوں علاقوں میں ماہ رمضان میں رونق دوبالا ہوجاتی ہے۔
میرا روڈ کا جہاں تک سوال ہے ،1970کی دہائی میں یہ ویسٹرن ریلوے کا ایک چھوٹا سا اسٹیشن تھا اور اس کے مغرب میں دورتک نمک کے کھیت تھے اور ان سے متصل کھاڑی اور بحرعرب نظرآتا تھا،میراروڈکے مشرقی علاقہ میں کھیت کھلیان واقع تھے اور اس کو بسانے اورسب سے پہلے نیانگر کی سنگ بنیاد سیّدنذرحسین نے رکھا تھا اور پھر یہ علاقے تیزی سے ترقی کی جانب بڑھ گیا ،اس کا سنگ بنیاد مرحوم غلام محمود بنات والا اور شیوسینا کے سربراہ آنجہانی بال ٹھاکرے نے ایک تقریب میں رکھا تھا ،انہوں نے اسے ایک ماڈل شہر بنانے کی کوشش کی اور مسجد الشمس اور دارالعلوم عزیزیہ کی بنیاد بھی رکھی گئی ،ان کی وجہ سے میراروڈ میں چار چاند لگ گئے ۔
یہ حقیقت ہے کہ نذرحسین کے قابل اور باصلاحیت صاحبزادہ مظفرحسین نے اسمیتا کنسٹریکشن کمپنی کی باگ ڈوراپنے ہاتھوں میں لی اور سیاسی سرگرمی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایم ایل سی بنائے گئے جبکہ وہ یوتھ کانگریس کے صدر بھی رہے ہیں۔شہر کے میئر کے عہدہ پر بھی فائز رہے ہیں۔ان کی والدہ بھی میئر کے عہدہ پر فائز رہ چکی ہیں۔
میرا بھائندر علاقہ سے متصل کاشی میرا اور یہاں رمضان میں جشن کا سماں رہتا ہے ،کیونکہ نئی آبادی کی وجہ سے جھوپڑا بستیوں کو دوردورتک نام ونشان نہیں ہے۔اسٹیشن سے باہر نکلنے کے ساتھ دورتک فلک بوس عمارتیں نظرآتی ہیں اور یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اقلیتی فرقہ بھی اتنے خوبصورت اور صاف ستھرے علاقے میں آباد رہ سکتا ہے ،تیزی بڑھتی مسلم آبادی میں نذرحسین فیملی کی کئی اسکول اور جونیئر کالج بھی واقع ہیں جبکہ ایک اسپتال بھی واقع ہے جوکہ جدید ترین آلات اور سہولیات سے لیس ہے ،فی الحال اوکاڈرگروپ کی نگرانی میں چلایا جارہا ہے۔
مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود سبھی فرقے مل جل کررہتے ہیں ۔جماعت اسلامی کی جانب سے اسلام کی تعلیمات کو ہم وطنوں تک پہنچانے کے لیے خصوصی مہم چلائی جاتی ہے اور ان میں اسلامی لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے ،جس کا کافی اثر پایا جاتا ہے ۔قومی ہم آہنگی کے لیے مظفرحسین نے قبرستان اور شمشمان کو ایک ہی احاطہ میں بنایا ہے اور متصل ایک گارڈن بھی ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
البتہ مشرقی خطہ کا تھانے ضلع میں واقع ممبرااور کوسہ کی آبادی نے 1970کے بعد سراٹھا یا اور آج یہ علاقہ ایک گنجان آبادی بن چکا ہے ،میراروڈ کے مقابلہ میں یہاں جامع اور منظم طورپربستیاں نہیں بسائی گئی ہیں ،لیکن دس پندرہ کلومیٹر کے علاقہ میں بسے اس شہر کو تھانے میونسپل کارپوریشن میں شامل ہونے کے بعد سہولیات بھی مہیاکرائی گئی ہیں ،جب سے جتیندر آہواڑ نے یہاں سے اسمبلی کے لیے کامیابی حاصل کی ہے ،اس علاقے کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ان کی کوشش رات دن جاری رہتی ہے ۔لیکن اس اسمبلی حلقہ ممبرا کلوا سے مسلم امیدوار کو محروم رکھا جاتا ہے ،جوکہ کسی پارٹی کے ٹکٹ پر آسانی سے جیت سکتا ہے۔
ممبرا اسٹیشن سے کوسہ اور شیل پھاٹا تک پہاڑوں کے دامن میں آباد یہ آبادی آہستہ آہستہ مسلمانوں کا اہم تعلیمی مرکز بنتا جارہاہے ،جہاں کئی ایسے مراکز کھولے گئے ہیں جوکہ مسلم نوجوانوں کو آئی اے ایس اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات کی تربیت دیتے ہیں۔رمضان میں ممبرااسٹشین پر افطار کے خصوصی انتظام کیا جاتا ہے تاکہ لوکل ٹرین سے ممبئی کی سمت سے آنے والے لوگ تاخیر ہونے پر یہیں روزہ افطارکرلیتے ہیں، جبکہ آٹورکشا یونین بھی اپنے اسٹنڈ پر انتظام کرتے ہیں۔ اور ڈرائیوروں کے ساتھ ساتھ مسافر بھی حصہ لیتے ہیں ،ممبر ا میں اردوکے متعددادیب ،شعراءکرام اور صحافی حضرات مقیم ہیں جن میں ممبئی اردونیوز سے وابستہ سابق سب ایڈیٹر ندیم صدیقی،زینبیہ چینل کے مدیر عالم رضوی ،عظمت اللہ صدیقی ،اعجاز ہندی،شاہد ندیم ،عبید اعطم اعظمی وغیرہ شامل ہیں ،اسی طرح میرا روڈ میں بھی سلام بن رزاق ،وقارقادری ،سمیت معتدد ادبی شخصیات آباد ہیں اور ممبئی سے ادبی اورشعری نشستیں ان علاقوںمیں ہونے لگی ہیں بلکہ 1980کے عشرے میں فضیل جعفری مرحوم بھی میرا روڈ میں رہائش پذیرتھے۔
ممبئی سے تقریباً 40-50کلومیٹر کی دوری پر واقع ان پُرفضاءمقامات پر تیزی سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے ،لیکن پہاڑوں کے دامن میں واقع ان علاقوں کی کشش ختم نہیں ہوئی ہے اور مسلم آبادی بڑھنے سے ماہ رمضان کی رونقیں بڑھ گئی ہیں۔