صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

ایک تنازع جس نے نریندر مودی کو سرینڈر مودی بنادیا

239,382

ڈاکٹر سلیم خان

15جون ،2020  کی شب وادیٔ گلوان میں جو کچھ ہوا وہ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا۔ اگلے دن  16 جون کی صبح پہلے تو یہ اندوہناک خبر آئی کہ ہندوستان اور چینی سرحد پر دونوں طرف کے  فوجی آپس میں بھڑ گئے اور اس میں ہندوستانی فوج کے تین جوانوں نے اپنی جان گنوائی ان میں ایک افسر بھی شامل تھا۔ اس طرح کا واقعہ چونکہ 45سال بعد وقوع پذیر ہوا تھا اس لیے اس پر سخت ردعمل کی توقع تھی لیکن سرکار دربار میں ایسا زبردست سناٹا چھایا رہا کہ شعلے کے مرحوم اے کے ہنگل کا مکالمہ ’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی‘ بے ساختہ یاد آگیا ۔ شعلے کا رحیم چاچا یہ مکالمہ اس وقت ادا کرتے ہیں جب رام گڑھ کے باشندوں کو ڈرانے کی خاطر ڈاکو گبر سنگھ ان کے بے قصور بیٹے کا بہیمانہ قتل کردیتا ہے۔ چین نے گلوان وادی میں اپنا دبدبہ قائم رکھنے اور ہندوستانی حکمرانوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے وہی حرکت کردی جو فلم شعلے میں گبرّ سنگھ نے کی تھی۔ شعلے کے رحیم چاچا کے لازوال کردار کی خوبی یہ ہے کہ وہ  اپنے بیٹے احمد کی موت سے بھی نہیں ڈرے لیکن افسوس کہ مودی جی ہیبت زدہ ہوگئے ۔ ورنہ سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی پر3گھنٹے کے اندر تعزیت کرنے والے حساس وزیر اعظم پر 36گھنٹے کی  طویل خاموشی نہیں چھائی رہتی ۔

شعلے فلم کا ٹرننگ پوائنٹ دراصل وہی رحیم چاچا والا منظر ہے۔ رام گڑھ کے خوفزدہ لوگوں کو اگر رحیم چاچا یہ کہہ کر ’’میں تو اتنا جانتا ہوں عزت کی موت ذلت کی زندگی سے کہیں اچھی ہے‘‘،ویرو اور جئے کو گائوں میں ہی رہنے دینے کی تلقین نہ کرتے تو کہانی وہیں ختم ہوجاتی ۔ سچ تو یہ ہے اپنے عزم و حوصلہ سے رحیم چاچا نے جس طرح شعلے کی کہانی کو آگے بڑھا کر اس میں جان ڈالنے کا کام کیاویسا کچھ کرنے میں وزیر اعظم ناکام رہے ۔ فلمی پردے پر مودی جی کی ناکامی کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ انہوں نے پچھلا انتخاب جیتنے کے لیے اپنی سوانح حیات پر مبنی فلم بنوائی ۔ اس کاجو پوسٹرجنوری میں نکلااس پر لکھاتھا ’’آرہے ہیں دوبارہ پی ایم نریندرمودی ، اب انہیں کوئی روک نہیں سکتا ‘۔ بدقسمتی سےوہ فلم انتخاب سے قبل ریلیز ہی نہیں ہوسکی لیکن اس کے باوجود ائیر اسٹرائیک کا شور مچا کر مودی جی نے پھر سے الیکشن جیت لیا۔ ان کے دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد فلم آئی اور کل 23کروڈ کما کر فلاپ ہوگئی ۔ وہاں سے ناکامیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تو حقیقی زندگی میں آگیا اور اب کی بارمودی سرکارچین کی سرحد پر بری طرح  پٹ گئی جس سے سناٹا چھا گیاہے۔

فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پہلے تو یہ خبر آئی کہ چینی اپنے ساتھ کچھ مزدوروں کو لے گئے ہیں اور پھر بتایا گیا کہ ہمارے 15تا  20 فوجی لاپتہ ہیں ۔ ان میں سے کچھ ندی میں گر گئے ہیں اور کچھ چین کے قبضے میں ہیں۔ اس کے بعد مزید لاشوں کے ملنےکا سلسلہ شروع ہوگیا اور اگلے 24 گھنٹوں میں یہ تعداد بڑھتے بڑھتے 20 تک پہنچ گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ تین فوجیوں کو گولی بھی لگی تھی۔ جن 45 لوگوں کو یرغمال بنایا گیا تھا ان میں سے 25 کی رہائی ہوگئی ۔ اس مڈبھیڑ میں 135 جوانوں کے زخمی ہونے کی خبر بھی موصول ہوئی۔ اس دوران غیر مصدقہ خبروں پر اعتبار کیا جاتا رہا کیونکہ سرکار دربار میں خاموشی کا دور دورہ تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے انٹر نیٹ کے اس دور میں پیر کی رات ہونے والے حادثے کی تفصیل کئی گھنٹوں تک ذرائع ابلاغ سے پوشیدہ رہی ۔ اس دوران حکومت کا رویہ اس طرح تھا کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں ہے ۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا ۔ اس بات کا اندازہ منگل کے دن سرکاری گلیارے کی مندرجہ ذیل  سرگرمیوں سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔

منگل کی دوپہر کو 12بج کر45منٹ پر تین فوجیوں کے فوت ہونے کی خبر آجانے کے بعد ایک بجے فوجی ذرائع نے اس کی تصدیق کردی ۔ اس کے دوگھنٹے بعد یعنی تین بجے وزیر اعظم 20 ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ نشست میں کورونا سے متعلق بات چیت کی ۔ اس پانچ گھنٹوں کی گفت شنید کا خاتمہ رات ۸ بجے ہوا لیکن فوجیوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا۔ ہاں ماسک لگانے نکلنے کی تلقین ضرور کی گئی اس لیے یہ سوال پیدا ہوگیا کہ کہیں ماسک چڑھانے کا مطلب زبان پر قفل لگانا تو نہیں ہوتا۔ رات ۹ بجے وزیر اعظم کے گھر پر وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور قومی تحفظ کے مشیر کی نشست ہوئی۔ اس نشست کے خاتمہ سے قبل جان گنوانے والے فوجیوں کی تعداد بڑھ کر 20 ہوگئی مگر اس کے باوجود کوئی بیان جاری کرنا ضروری نہیں سمجھاگیا۔ اس کے بعد دوسرے یعنی بدھ کے معمولات پر ایک غائر نظر ڈال لینا چاہیے ۔ پہلی خبر یہ آئی کہ وزیرداخلہ نے لداخ کے پرتشدد واقعات کی معلومات وزیر اعظم کو فراہم کیں۔ اصولاً وزیر دفاع کو یہ معلومات دینا چاہیے تھا لیکن نہ جانے کیوں دیگر وزراء کی مانند راجناتھ سنگھ بھی کنارے کر دیئے گئے ہیں ۔  اس کے بعد انٹلی جینس اور قومی تحفظ کی دو نشستیں ہوئیں لیکن عوام کو اس بابت اندھیرے میں رکھا گیا۔ اس دوران بیجنگ میں ہندوستانی سفیر وکرم مستری نے چینی نائب وزیر خارجہ سے ملاقات کی لیکن اس کا مقصد اور حاصل بھی صیغۂ راز میں رکھا گیا۔

آرمی چیف جنرل ایم اے نرونے اپنا پٹھانکوٹ فوجی اسٹیشن کا دورہ ٹال کر چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت کے ساتھ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ سے ملاقات کرنے کے لیے گئے ۔ اس نشست میں بری ، بحری اور ہوائی فوج کے سربراہوں کے علاوہ  وزیر خارجہ بھی شریک ہوگئے ۔ ایک طویل گفتگو کے بعد راجناتھ سنگھ وزیر اعظم کو اس بحث کا خلاصہ بتانے کے لیے چلے گئے ۔ اس عرصہ میں اقوام متحدہ کے ترجمان تک کا بیان آگیا۔ انہوں نے ہندوستان اور چین کے درمیان پرتشدد جھڑپ کو تشویشناک بتایا اور دونوں ممالک کو امن بحال رکھنے کی اپیل کی ۔ حکومت کی خاموشی کے درمیان کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے ہندوستان کے فوجی جوانوں کی دلیری اور شہادت پر اظہار عقیدت کردیا ۔ انہوں نے قومی تحفظ اور علاقائی سالمیت کی حفاظت کرنے کے لیے سب ایک ساتھ کھڑے ہونے کی یقین دہانی کی ۔  اس دوران پہلے 5اور پھر 43 چینی فوجیوں کے مارے جانے کی خوش کن خبر بھی آئی لیکن حکومت نے اس کی بھی توثیق نہیں کی ۔

36 گھنٹوں کے طویل انتظار کے بعد بھی اپنے بیان میں وزیر اعظم نہایت محتاط نظر آئے۔ لوگ تو یہ امید کررہے تھے کہ مودی جی حسبِ عادت ٹیلی ویژن کے پردے پر نمودار ہوں گے اور اپنے من کی بات بتائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ کورونا وائرس پر جو نشست پہلے دن سے جاری تھی اس کے اگلے مرحلے میں جب سب لوگ جمع ہوگئے تو ابتداء میں وزیر اعظم مودی نے چین سرحد پر شہید ہوئے جوانوں کو رسمی خراج عقیدت پیش کردیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا : وہ ملک کو یقین دلاتے ہیں کہ جوانوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ خلاف توقع ایک دبنگ سپہ سالار کے بجائے سنیاسی کے لب و لہجے میں وزیر اعظم مودی نے کہا، ’’ہم نے ہمیشہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ ہمیشہ ان کی ترقی اور فلاح و بہبود کی تمنا کی ہے۔ اگر کہیں اختلاف رائے بھی رہا، ہم نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اختلاف رائے کبھی تنازعہ میں تبدیل نہ ہو۔ ہم کبھی کسی کو اشتعال نہیں دلاتے‘‘۔ یہ الفاظ پڑھتے ہوئے بار بار پاکستان اور نیپال وغیرہ پر دیئے جانے والے بیانات یاد آرہے تھے اور یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اگر ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کرتے ہیں تو وہ ہم سے نالاں کیوں ہیں ؟

وزیر اعظم کے بیان کا سب سے اہم عزم یہ تھا کہ ’’لیکن ہم اپنے ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔جب بھی وقت آیا ہے ہم نے ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے لئے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا ہے ‘ان دلیرانہ الفاظ کے بعد پھر ایک بار ان کے اندر کا فلسفی نمودار ہوگیا اور انہوں نے کہنا شروع کیا ، ’’تیاگ (قربانی) اور تپسیا (ریاضت) ہمارے کردار کا حصہ ہیں۔ طاقت اور بہادری بھی ہمارے کردار کا حصہ ہیں۔ ملک کی خود مختاری اور سالمیت کا دفاع کرنے سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ اس میں کسی کو بھی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہندوستان امن چاہتا ہے لیکن اشتعال دلانے پر ہر حال میں معقول جواب دینے کے اہل ہے۔ ہمارے آنجہانی شہید بہادر جوانوں کے حوالہ سے ملک کو اس بات پر فخر ہوگا کہ وہ مارتے مارتے مرے ہیں‘‘۔ یہ ساری باتیں درست ہیں لیکن اس کا موقع نہیں تھا۔ انہیں تو چین کا نام لے کر اسے للکارنا چاہیے تھا کہ دھمکی دینی چاہیے تھی کہ ہمارا علاقہ فوراً خالی کرے ورنہ اس مہم جوئی کی اسے بڑی قیمت چکانی ہوگی لیکن اس کے برعکس 56انچ کے سینے والے نریندر مودی جن کا نیا لقب سرینڈر مودی ہے نے کل جماعتی اجلاس میں جس سردمہری کا مظاہرہ کیا ہے اسےسن کر شرکائے مجلس کے ساتھ پوری قوم کو وزیر علی صبا لکھنوی کا یہ شعر یاد آگیا ہوگا؎کلیجہ کانپتا ہے دیکھ کر اس سرد مہری کو /تمہارے گھر میں کیا آئے کہ ہم کشمیر میں آئے

وزیر اعظم نریندر مودی 2014کی انتخابی مہم سے اپنی شبیہ بدلنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو ایک سنجیدہ اور سلجھا ہوا رہنما بنا کر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس دوران جارحیت پسندی کا کام انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو سونپ رکھا ہے اس لیے ان سے یہ امید تھی کہ وزیر اعظم کے بجائے کم از کم وہ چین کو لال لال آنکھیں دکھا کر منہ توڑ جواب دیں گے لیکن افسوس کہ اس بار انہوں نے بھی مایوس کیا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے چینی سرحد کے تنازع پر کہا : ’’لداخ کے گلوان میں مادر وطن کی حفاظت کے دوران اپنے بہادر فوجیوں کو کھونے کے درد کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ مادر وطن کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دینے والے اپنے بہادر جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ان کی ناقابل فراموش بہادری اپنی سرزمین کے تئیں عزم کا اظہار ہے۔میں ان خاندانوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے ایسے عظیم بہادروں سے ہندوستان فوج کو قابل فخر بنایا ہے۔ ہندوستان ہمیشہ ان کی قربانیوں کا قرض دار رہے گا۔ دکھ کی اس گھڑی میں پورا ملک اورمودی حکومت پورے عزم کے ساتھ ان کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑی ہے۔ زخمی فوجیوں کی فوری طور سے صحت یاب ہونے کی دعا کرتا ہوں۔‘‘

اس بیان کو پڑھنے کے بعد پہلے تو یقین ہی نہیں آیا کہ یہ کون سے امیت شاہ ہیں اور وہ کون سے امیت شاہ تھے جو ایوان پارلیمان میں اچھل اچھل کر تقریر کیا کرتے تھے؟ ان کے بیان میں بھی چین کا ذکر غائب تھا ۔ وزیر داخلہ کے بعد وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا بیان بھی منظر عام پر آیا۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ’وادی گلوان میں ہمارے سپاہیوں کے جانی نقصان سے بہت صدمہ اور تکلیف پہنچی ہے۔ ہمارے سپاہیوں نے فرض کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اورہندوستانی  فوج کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بہادری اور شجاعت کی تاریخ رقم کی ہے۔ اس پہلے ٹویٹ پر انہیں اطمینان نہیں ہوا تو ایک اور پیغام بھیج دیا قوم ان کی دلیری اور قربانی کو کبھی فراموش نہیں کرے گی، میں ان سپاہیوں کے اہل خانہ کے دکھ میں برابر کا شریک ہوں۔ قوم اس مشکل گھڑی میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ ہمیں ہندوستان کے سپوتوں کی بہادری اور شجاعت پر فخر ہے۔ راج ناتھ سنگھ راجپوت ہیں اور ان کے پاس وزارت دفاع کا قلمدان ہے اس لیے کم از کم ان کو شایانِ شان انداز میں چین کو آڑے ہاتھوں لینا چاہیے تھا لیکن وہ بھی ہمدردی جتانے اور فخر کرنے سے آگے نہیں جاسکے ۔ وزیر خارجہ ایس شیوشنکر نے تو ٹویٹ کرنے کی زحمت کے بجائے راجناتھ سنگھ کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنے پر اکتفاء کیا گویا جوانوں کی یہ قربانی ان کے نزدیک چند الفاظ کی بھی مستحق نہیں ٹھہری ۔

اس طرح کی صورتحال میں عام طور ساری جماعتیں سیاست کو بالائے طاق رکھ دیتی ہیں ۔ حزب اختلاف کی رہنما سونیا گاندھی کا ابتدائی بیان اسی نوعیت کا تھا جس میں حکومت پر کوئی تنقید نہیں کی گئی تھی بلکہ اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا یقین دلایا گیا تھا لیکن یکے بعد دیگرے چار بڑے وزراء کے مایوس کن بیانات کے بعد کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کو نزلہ اتارنے کا موقع مل گیا اور انہوں نے ان بیانات پر پانچ بنیادی نوعیت کےسوالات داغ دیئے ۔راہل گاندھی نے اپنی ٹویٹ میں راجناتھ سنگھ سے پوچھا کہ اگر یہ آپ کے لیے  اتنا ہی تکلیف دہ تھا تو:’آپ اپنی ٹویٹ میں چین کا نام نہ لے کر انڈیا کی فوج کی بے حرمتی کیوں کر رہے ہیں؟‘’آپ کو اظہار افسوس کرنے میں دو دن کا وقت کیوں لگا؟‘’جب فوجی ہلاک ہو رہے تھے تو آپ ریلیوں سے خطاب کیوں کر رہے تھے؟‘(یاد رہےاس وقت وزیردفاع نے جموں میں ایک ورچول ریلی سے خطاب کیا تھا)۔’خود چھپ گئے اور اپنے حمایتی میڈیا کے ذریعے فوج پر الزام عائد کیوں کروایا گیا؟‘’زرخرید میڈیا کے ذریعے انڈین حکومت کے بجائے فوج پر الزام کیوں لگوا رہے ہیں؟‘

ان سولات میں میڈیا کا ذکر اس لیے آیا کیونکہ آج تک کی اینکر شویتا سنگھ نے ببانگ دہل سرحدی تصادم کے لیے حکومت کے بجائے افوج کو ہی الٹا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ راہل گاندھی کے جارحانہ انداز نے بی جے پی کے ترجمان کو ان پر تنقید کا موقع عطا کردیا لیکن بی جے پی والے یہ بھول گئے کہ 1967 میں جب ہند چینی سرحد پر تنازع ہوا تھا تو چینی فوجیوں نے ہندوستانی فوج پر ان کی کچھ بھیڑوں کو زبردستی اپنے قبضے میں کرلینے کا الزام لگایا تھا۔ اس کی مخالفت میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے چینی سفارتخانے کے آگے بھیڑوں کا ایک جھنڈ اتار دیا تھا۔ اتفاق کی بات یہ ہے اٹل جی بھی اس وقت راہل کی مانند ایوان پارلیمان کے رکن تھے اور ان کی عمر راہل گاندھی سے ۸ سال کم تھی۔ ممبئی میں جب دہشت گردانہ حملہ ہوا تو وزیر اعظم نریندر مودی نے شہر میں آکر پریس کانفرنس کی تھی ۔ سنگھ پریوار کے سودیشی جاگرن منچ نے ابھی حال میں چینی سفارتخانے پر مظاہرہ کیا اور اب تو بی جے پی کے چھٹ بھیا رہنما عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ملک بھر میں چینی پرچم جلا رہے ہیں ۔ اس طرح راہل پر سیاست کرنے کا الزام ازخود ختم ہوگیا ۔

اس نئی صورتحال میں راہل گاندھی نےایک ویڈیو جاری کرکے پوچھ لیا کہ ’’  چین نے ہندوستان کے غیر مسلح فوجوں کو ہلاک کرکے بہت بڑا جرم کیا ہے۔ میں جانناچاہتا ہوں ان بہادروں کو بغیر ہتھیار خطرے کی جانب کس نے بھیجا؟ اور کیوں بھیجا؟اور چین کی اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ ہمارے جوانوں کو قتل کرسکے ؟‘‘۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ایس شیوشنکر کو میدان میں لایا گیا اس لیے پانچ بڑے رہنماوں میں وہی سب سے زیادہ پڑھے لکھے آدمی ہیں لیکن افسوس کہ ایک طویل عرصہ چین کے اندر سفیر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری ادا کرنے والے وزیر خارجہ نے بھی ایک جاہلانہ جواب دے دیا کہ ’شہید ہونے والے جوان نہتے نہیں تھے ۔ ان کے پاس ہتھیار تھے ۔ وزیر خارجہ نے 1996اور 2005کے معاہدے کا حوالہ دے کر کہا کہ ٹکرائو کے دوران ہمارے جوان ان ہتھیاروں کا استعمال نہیں کرسکتے تھے ۔

وزیر خارجہ کے اس احمقانہ بیان نے خود حکومت کے لیے کئی مسائل پیدا کردیئے۔ اس کا نہایت مدلل جواب سبکدوش جنرل ایچ ایس پنگ نے دیا ۔ انہوں نے اس معاہدے کی شق۶ کا حوالہ دے کر بتایا کہ اس میں ضرورت پڑنے پر اسلحہ استعمال کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔ اس کو غالباً ایس جئے شنکر نے دیکھا نہیں یا چھپا دیا۔ اس کے علاوہ یہ عام سی بات ہے کہ کسی بھی معاہدے کی پابندی دونوں فریق پر یکساں طور سے لازم ہوتی  ہے اس لیے اگر فریق مخالف کی جانب سے خلاف ورزی سرزد ہوجائے تو معاہدہ ازخود ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنی جان پر بن آئے تو دفاع کا حق ہر فوجی اور شہری کو حاصل ہے ۔ یہ خبر آچکی ہے کہ چار فوجیوں کو گولیاں لگی ہیں یعنی چینیوں نے گولی چلائی ۔ اس تناظر میں حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پہلے تو حکومت کی خاموشی اس پر تنقید کی وجہ بنی اور جب اس نے بولنا شروع کیا تو وہ پھنستی چلی گئی۔ بہرحال اب تو چین نے وادیٔ گلوان پر اپنا دعویٰ اسی طرح پیش کردیا جیسے اکسائی چین پر کرتا رہا ہے۔ یہ وادی گلوان ندی کے نام سے منسوب ہے جسے لیہہ کے رہنے والے غلام رسول گلوان نے1899میں دریافت کیا تھا اور یہ ہندوستانی علاقوں کوسیراب کرتی رہی ہے لیکن افسوس کہ نریندر مودی سرکار اس کی حفاظت میں ناکام ہوگئی اور اب یہ چین کے شکنجے میں چلی گئی ہے۔ باشندگان وطن اس وادی کو دوبارہ حاصل کرنے کے منتظر ہیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ خواب کب شرمندۂ تعبیر ہوتا ہے؟ ویسے دشمن کا نام لینے سے بھی کترانے والی سرکار کی مدت کار میں اس کا امکان کم ہی ہے اس پرتو علامہ اقبال کا شعر( مع ترمیم) صادق آتاہے؎  یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے دیوارِ سرحد پر/یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا

Leave A Reply

Your email address will not be published.