صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

……..اورکتنے تھپّڑ کھائو گے؟

1,020

عارِف اگاسکر

’’ اُنّنیس سو ستّر اور اسیّ کی دہائی میں ہندی فلم انڈسٹری میں آرٹ فلم کا دورچلا تھاجس میں متوسط طبقہ کی کامیاب نمائندگی کر نے والے امول پالیکر کی رجنی گندھا ، چھوٹی سی بات ، اگر ، گھروندہ ، گول مال ، باتوں باتوں میں ، نرم گرم اور چِت چور جیسی چھو ٹے بجٹ کی فلموں نے کافی دھوم مچائی اور فلمی شائقین نے اسے کافی سراہا ۔ امول پالیکر نہ ہی پر کشش شخصیت کے مالک تھے اور نہ ہی ان میں کوئی گلیمر تھا ۔ اس کے باوجود ان کی اداکارانہ صلاحیتوں نے فلمی شائقین کا دل موہ لیا اور ان کی تمام فلمیں باکس آفس پر کامیاب رہیں ۔ امول پالیکر ایک عام آدمی جیسے نظر آتے تھےاور عام آدمی کے کردار کو انہوں نے اتنی خوبی سے نبھایا کہ متوسط طبقہ کے فلمی شائقین کو ان کے کردار میں اپنی زندگی کا عکس نظر آیا ۔ یہی وجہ تھی کی ان کی فلموں نے اس دور میں زبردست کامیابی حاصل کی  جسے بر سوں یاد رکھا جائے گا ۔

چالیس سال بعدایک بار پھر اروِند کیجری وال نامی ایک عام آد می نے دہلی کی ہی نہیں بلکہ ملک کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے اور ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں رہ کر اپنے مخالفین کی نیندیں حرام کی ہیں ۔ اروِند کیجری وال بھی امول پالیکر کی طرح پر کشش شخصیت کے مالک نہیں ہیں ، نہ ہی ان کی آواز میں کو ئی کشش ہے اور نہ ہی ان کی شخصیت میں وہ رعب و دبدبہ ہے جو دوسروں کو متاثر و مرعوب کر سکے ۔ پینٹ ، شرٹ اور سلیپر پہن کر جب وہ عوام سے مخاطب ہو تے ہیں تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ دہلی کے وزیر اعلیٰ ہیں ۔ نہ ہی انہوں نے کبھی پروٹوکول کا خیال رکھا ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ کبھی کسی طرح کی سیکوریٹی ہوتی ہے ۔ بہترین عوامی قیادت ، عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کی لگن اوراپنے مقاصد کے حصول کی تکمیل کے لیے جنون کی حد تک جد و جہد نے انہیں عوام میں مقبول بنا دیا ہے ۔

دہلی میں تعلیم اور حفظان صحت کے شعبہ اور سرکاری اسکولوں کے معیار میں بہتری لانے سمیت محلہ کلینک کے ذریعہ غریبوں کو راحت دلانے کے لیے انہوں نے جو کام کیا ہے اس کی ملک و بیرونِ ملک سمیت ہر سطح پر تعریف کی جا رہی ہے ۔ جبکہ سرکاری محکموں میں شفافیت لانے اور بد عنوانی کے خاتمہ کے لیے کی جارہی ان کی کو ششوں کو بھی کافی سراہا جا رہا ہے ۔ ان تمام باتوں کے باوجود وہ بالکل عام آدمی کی طرح لوگوں سے ملتے ہیں ، راستے پر چلتے ہیں اور عوام سے خطاب کر تے ہیں ۔ نہ ہی وہ پروٹوکول کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے ساتھ کسی طرح کی سکیوریٹی رکھنے پر راضی ہیں ۔ اروِند کیجریوال جب اپنے مخالفین پر تنقید کرتے ہیں توسخت بیان بازی سے احتراز نہیں کر تے اور بے لاگ بولتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ جیسے اہم عہدے پر فائز ہو نے کے باوجودان کے ساتھ کوئی سیکیوریٹی نہ ہو نے ، ان کی شخصیت میں کوئی رعب و دبدبہ نہ ہو نے اور بالکل عام آدمی کی طرح نظر آنے سے ان پر ہمیشہ حملے ہوتے آئے ہیں ۔ جس کی وجہ سے وزیراعلیٰ جیسے باوقار عہدے کی تذلیل ہو رہی ہے ، لیکن اروِند کیجریوال کو اس کی قطعی پرواہ نہیں ہے ۔ کچھ روز قبل ایک سرپھرے نوجوان نے پھر ان پر حملہ کیا ۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران کیجریوال ایک جیپ سے لوگوں کا اظہار تحسین قبول کر رہے تھے کہ اچانک ایک نوجوان ان کی جیپ پر چڑھ گیا اور اس نے وزیراعلیٰ کے رخسار پر تھپّڑجڑ دیا ۔ کیجریوال پر ہو رہے لگاتار حملوں کے تعلق سے ۶؍ مئی ۲۰۱۹ء کے مراٹھی روزنامہ سامنا نے اروِند کیجریوال کے تعلق سے جو اداریہ تحریر کیا ہے اسے ہم قارئین کے سامنے من و عن پیش کر رہے ہیں‘‘

کیا لیڈران پر چپل ، جوتے اورسیاہی پھینک کرصحیح معنوں میں ملک کے مسائل حل ہوں گے؟ اپنی ناراضگی اور برہمی کے اظہار کے لیے ایسے واقعات کوقبول کیا جا سکتا ہے ، لیکن آخرکار قوتِ برداشت کے ختم ہونے پر اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ عام آدمی پارٹی کی جانب سےآتشی مارلینا مشرقی دہلی سے لوک سبھا کا چنائو لڑرہی ہیں ۔ انہوں نے کچھ دن قبل اپنے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ سیاست دانوں پر عوام کے غصہ میں اضافہ ہوا ہے ۔ لوگ اب تک لیڈران کو کھلے عام تھپّڑ کیوں نہیں مارتے ؟ اس پر حیرت ہو تی ہے ۔ کیجریوال کو تھپّڑ کیوں مارا گیا ؟ اس کا جواب ان کی پارٹی کے لیڈر نے ہی دے دیا ہے ، لیکن ہم اس کی حمایت نہیں کرتے ۔ کیجریوال کی سکیوریٹی میں کسی طرح کی کمی نہیں رہنا چاہیئے ۔ کوئی شخص کتنے تھپّڑ کھائے اس کی بھی کوئی حد ہو تی ہے یا نہیں ؟

اروِند کیجریوال نے پچھلے چار برسوں میں جتنی تھپّڑیں اور ’چپلیں‘ کھائی ہیں اسے ایک ریکارڈ ہی کہا جائے گا ۔ کیجریوال دہلی کے وزیراعلیٰ ہیں اور وہ جمہوری طریقہ سے منتخب ہو کر آئے ہیں ۔ انہیں کوئی پسند نہیں کرتا تو ان کو اسی طریقے سے شکست دینا چاہیئے ۔ یہ طریقہ نہیں ہے کہ ان سے مارپیٹ کی جائے ۔ کیجریوال پر سنیچر کو ایک سر پھرے نےپھر حملہ کیا ۔ انتخابی مہم کے دوران کیجریوال ایک جیپ سے لوگوں کا اظہار تحسین قبول کر رہے تھے اسی دوران اچانک ایک نوجوان ان کی جیپ پر چڑھ گیا اور اس نے وزیراعلیٰ کے رخسار پر تھپّڑرسید کیا ۔ درحقیقت کیجریوال کی صحت نرم و نازک ہے جس کے سبب اس طرح تھپّڑ رسید کرنے پر وہ گر پڑتے ہیں ۔ سیاست میں اورسماج میں عدم برداشت کا اضافہ ہو رہاہےاور لوگ مدعے سے مارپیٹ پر اتر آتے ہیں ۔ اتر پردیش کے پر تاپ گڑھ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی بس اسی مدعے پر انگشت نمائی کی ہے ۔ مودی نے کہا کہ ان کا تختہ پلٹنے کی سازش رچی جارہی ہے ۔ اس سے قبل انہوں نے ایک بار یہ بھی کہا تھا کہ انہیں قتل کرنے کی سازش رچی جا رہی ہے ۔ اگر وزیر اعظم یہ محسوس کرتے ہیں تو یہ مناسب نہیں ہے ، مودی کی عمر دراز ہو گی اور وہ ملک کے دشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں کامیاب ہوں گے ۔

اگر یہ سچ بھی ہے تو سیاسی لیڈران کی کھلے عام ہونے والی بے عزتی کے واقعات رکنی چاہیئے ۔ شرد پوار کے تعلق سےاسی طرح کی بیہودہ حرکت جب دہلی میں رونما ہوئی تھی تو شیوسینا سربراہ بالا صاحب ٹھاکرے نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی ۔ پندرہ روز قبل دہلی میں واقع بی جے پی کے صدر دفترمیں ترجمان کی پریس کانفرنس کے دوران ان پر جوتا پھینکا گیا ۔ کیالیڈران پر چپل، جوتا اور سیاہی پھینک کر ملک کے مسائل صحیح معنوں میں حل ہوں گے ؟ ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے ایسی حرکتیں قبول کی جاسکتی ہیں ، لیکن آخر قوتِ برداشت کے ختم ہوتے ہی اس طرح کے ناخوشگوار واقعات رونما ہو جا تے ہیں ۔ اروند کیجریوال پر اب تک ۱۲؍ مرتبہ ایسے حملے ہوئے ہیں ۔ کبھی انڈے پھینکے گئے ، کبھی مرچ کا سفوف ، چپلیں اورسیاہی پھینکی گئی تو کبھی انہیں تھپّڑ بھی رسید کیے گئے ۔ کیجریوال سخت بیان دیتے ہیں یہ ٹھیک ہے ، لیکن وہ بے لاگ و لپیٹ کے بولتے ہیں ۔ دہلی میں ان کی ’عام آدمی پارٹی‘ نے بی جے پی اور کانگریس کو زبردست شکست دی اور اقتدار حاصل کیا ۔ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دلا کر وہ بطوروزیراعلٰی لامحدود اختیارات چاہتے ہیں ۔ یعنی دہلی کو آزاد وزارتِ داخلہ اورپولیس محکمہء چاہیئے ۔ اسی لیے وہ مرکزی حکومت اور انتظامیہ سے جھگڑ رہے ہیں ۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے کیو نکہ دہلی ملک کی راجدھانی  کے ساتھ ساتھ انتہائی حساس شہر بھی ہے ۔ اس لیےتعلیم ، حفظانِ صحت ، شہری سہولیات وغیرہ تک ٹھیک ہے ، لیکن نظم و نسق کی ذمہ داری مرکزی حکومت کے پاس رہنا ضروری ہے ۔ کیجریوال کو یہ قبول نہیں ہے اور سر کار سے روزانہ لڑائی کرکے تھپّڑ کھا رہے ہیں ۔

کیجریوال سرکار نے تعلیم اورحفظان صحت کے شعبہ میں بہتر کام کیا ہے ۔ انہوں نےسر کاری اسکولوں کے معیار میں بہتری لائی ہے اور محلہ کلینک کے ذریعہ غریبوں کو راحت دلائی ہےجس کے لیے ان کی تعریف ہو رہی ہے ۔ لیکن انہوں نےدرمیانی عرصہ میں وزیراعظم کے عہدے کا خواب دیکھنا شروع کیا ۔ اوراسی ذہنی فتور میں مبتلاء ہو کر انہوں نے مرکزی حکومت پر بے جا الزامات عائد کرنا شروع کیے ۔ عام آدمی پارٹی کی جانب سے آتشی مار لینا مشرقی دہلی سے چنائو لڑرہی ہیں ۔ انہوں نے کچھ روز قبل اپنے ایک انٹر ویو میں برملا اس بات کا اظہار کیا تھا کہ سیاست دانوں کے خلاف لوگوں کے غصہ میں اضافہ ہوا ہے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ لوگ انہیں کھلے عام اب تک تھپّڑ کیوں رسید نہیں کر تے ؟ کیجریوال کو تھپّڑ کیوں رسید کیا گیا اس کا جواب ان ہی کے لیڈر نے دیا ہے ۔ لیکن ہم اس حرکت کی حمایت نہیں کر تے ۔ کیجری وال کی سکیو ریٹی میں کوئی بھی کمی نہیں ہونا چاہیئے ۔ کسی شخص کوکتنے تھپّڑ کھا نا چاہیے اس کی کوئی حد مقررہے کہ نہیں ؟

Leave A Reply

Your email address will not be published.