یو – پی کی یو گی پولیس نے مسلمانوں کی پوری بستی کے خلاف یکطرفہ کی کارروائی ، پولیس کی دہشت سے عورتیں اور بچے بستی چھوڑنے پر مجبور ، کیرانہ جیسا ماحول بنانے کی سازش ،اتر پردیش مائینارٹی کمیشن نے مدد کا دیا یقین
شاہد انصاری
کوشامبی : یو- پی کی یو گی پولیس کی طرف سے مسلمانوں کی پوری بستی کے خلاف یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے71 لوگوں کے خلاف فساد برپا کرنے،مار پیٹ ،جان سے مارنے کی کوشش اور کئ سنگین دفعہ کے تحت سرسینا گاؤں والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے – ایف آئی آر درج کرنے کے بعد پولیس نے 14 لوگوں کو گرفتار کیا ہے – پولیس کی دہشت کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں نے اپنے اپنے گھر چھوڈ کر دوسرے علاقوں میں پناہ لینے کے لئے مجبور ہو گئے ہیں. وہیں ماملے کو لیکر جب اتر پردیش مائینارٹی کمیشن کے چیئرمین تنویر حیدر عثمانی سے جب بات کی تو انہونے کہا کی انھیں اس بارے میں اب تک کچھ پتا نہیں ہے اب جانکاری ملی ہے تو وہ لوگوں کی مدد کرینگے اور انھیں تحفّظ فراہم کرینگے ساتھ میں پولیس کی طرف سے ہوئی یکطرفہ کاروائی کی جانچ کرینگے-
معاملہ کیا تھا
پچھلے مہینے 24 جون کو بالو کے کاروباری نصار احمد کی تین ٹریکٹر بالو ضبط کئے گئے تھے اس دوران راجیندر دویدی نام کے ایک وکیل نے اس کارروئی کی ویڈیو ریکارڈنگ کرنی شروع کر دی جسکے بعد معاملہ بڑھ گیا اور دونوں فریقوں میں لفظی جھڈپ کے بعد مار پیٹ شروع ہو گی جائے واردات پر پولیس نے حالت کو قابو میں کرتے ہوئے معاملہ رفع دفع کر دیا لیکن راجیندر دویدی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرا ئے عاقل تھانہ پہنچ کر تھانہ کا گھیراؤ کیا جسکے بعد دباؤ میں آکر پولیس نے 11 لوگوں کے خلاف نامزد اور 60 نامعلوم افراد کے خلاف معاملہ درج کیا ہے – پولیس نے ابتک 14 لوگوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے –جب کہ باقی لوگ اپنا گھر چھوڈ کر دوسری جگہوں پر جا چکے ہیں- جن لوگوں کا پولیس نے گرفتار کیا ہے ان کے نام نصار احمد ، محمّد انس ،سرفراز احمد ،مننا ،فیاض ، کے علاوہ اور بھی کی لوگ ہیں-
معاملے کے پیچھے کون ہے
موجودہ سرسینا گاؤں کی پردھان بینا شکلا کا کہنا ہے کی انکے پہلے کے پردھان منوج دویدی کے بھائی کی ہی شکایت پر پولیس نے دباؤ میں آکر معاملہ درج کیا ہے اور جب سے معاملہ درج کیا گیا ہے تب سے پولیس گاؤں میں آکر عورتیں اور بچوں کو پریشان کر رہی ہے اسی لئے لوگ گاؤں چھوڈ کر دوسری جگہ پر منتقل ہو رہے ہیں –
کیا کہتی ہے یوگی پولیس
سرا ئے عاقل تھانہ کے انچارج یو گی پولیس ہیمنت مشرا نے واردات کے دن ہم سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو فریقوں میں جھگڑا ہوا ہے اسلئے ہم نے کچھ لوگوں کو حراست میں لیا ہے حا لات بہتر ہونے کے بعد انھیں چھوڈ دیا جا ئے گا لیکن بعد میں پولیس نے اپنا یو گی رنگ دکھایا اور یکطرفہ کاروائی کرتے ہو ئے 71 لوگوں کے خلاف نا صرف سنگین دفعات کے تحت معاملہ درج کیا بلکہ مسلمانوں کی پوری بستی میں پولیس نے دہشت کا ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ لوگ بستی چھوڈ کر محفوظ مقامات پر جانے کے لئے مجبور ہو گئے ہیں – جبکہ کاروائی کے دن نصار احمد نے شکایات کی تحریر دی تھی لیکن اسی پولیس تھانہ کی یوگی پولیس نے کاروائی کرنے کے بجا ئے شکایت کو پھاڈ کر پھینک دیا اور شکایت کرنے والے کو ہی گرفتار کرلیا –سنجیدہ اور شہناز کا کہنا ہے کی ہم لوگ پولیس کی طرف سے بہت پریشان ہیں ہمارے پاس مدد کے لئے کوئی نہیں آیا جو لوگ آ بھی رہےہیں وہ ہمیں مدد کا یقین دلا رہے ہیں لیکن پولیس کا ظلم کم نہیں ہو رہا ہے –
جھگڑے کی اصل وجہ
موجودہ سرسینا گاؤں کی پردھان بینا شکلا کا انتخاب گاؤں کے لوگوں نے کیا ہے جبکہ ماضی پردھان منوج دویدی کو شکشت کا سامنا کرنا پڑا –جن 71 لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا گیا ہے وہ سب موجودہ پردھان بینا شکلا کے حمایتی ہیں اپنی شکشت کا بدلہ ماضی پردھان منوج دویدی نے اپنے وکیل بھائی کے جھگڑے کی آڈ لیکر ان سب لوگوں پر ظلم ڈھا رہا ہے اور یو گی پولیس اس میں برابر کی حصّہ دار ہے –
سماج وادی پارٹی کے ماضی ایم پی شلیندر کمار کا کہنا ہے کی واردات ہوتی رہتی ہے چھوٹے موٹے جھگڑے بھی ہوتے رہتے ہیں معملات بیٹھ کر حل بھی کر لئے جاتے ہیں لیکن اس واردات میں جس طرح سے ماضی کے پردھان کا رویہ بہت ہی گھٹیا ہے انہوں نے اس معاملے میں جو رول ادا کیا ہے اس سے مسلمانوں میں خوف کا ماحول ہے جبکہ زیادہ چوٹ مسلمانوں کو لگی ہے لیکن پولیس نے اس معاملے میں صرف یطترفہ کارروائی کی ہے اور جان بوجھ کر 307 کی دفعہ لگا دی ہے تا کہ انکی ضمانت نا ہو سکے اور جب ضمانت کے لئے کورٹ جاتے ہیں تو کورٹ میں تماشہ کر کے کورٹ کے کارروائی میں دخل دیتے ہیں اس وجہ سے اب تک ضمانت بھی نہیں ہو سکی -پولیس کے خوف سے اب تک 12 گھر کے لوگوں نے گھر چھوڈ کر محفوظ مقامات پر پناہ لے رکھی ہے سماجوادی پارٹی نے علاقے کے لوگوں سے ملاقات کی ہے ان میں پولیس کی دہشت ہے- رات کے وقت پولیس زبردستی گھر میں گھس کر عورتوں اور بچوں کو پریشان کرتی ہےکئی نابالغ اور اسکول میں پڑھنے والے بچوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے – ہم نے پولیس کے بڑے افسروں سے ملاقات بھی کی لیکن اب تک کسی طرح کی کارروائی نہیں ہوئی-