صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

وزارت عظمیٰ کے وقار سے ملک کا وقار وابستہ ہے

1,259

نہال صغیر 
وزارت عظمیٰ کا عہدہ وطن عزیز کا سب سے اہم اور باوقار عہدہ ہے ۔ اس کے وقار کا خیال رکھنا ضروری ہے کیوں کہ اس سے ملک کی عظمت و شان بھی منسلک ہے ۔ ہندوستانی سیاست کے معمر ترین سیاست داں شرد پوار نے مہاراشٹر کے گوندیا میں ایک لٹریری فیسٹول میں کہا کہ آزادی کے بعد ملک کے کسی وزیر اعظم نے وزارت عظمیٰ کے وقار کو متاثر نہیں کیا لیکن یہ کام وزیر اعظم مودی نے کیا ۔ انہوں نے کہا ’آزاد ہندوستان میں اور کسی وزیر اعظم نے تو نہیں لیکن مودی نے پی ایم عہدہ کے وقار کو ذلیل کیا ہے‘ ۔ یہ باتیں اور کوئی نہیں کہہ رہا ہے یہ وہ شخص کہہ رہا ہے جس نے قومی سیاست کا پچاس سال گرم و سرد رخ دیکھا ہے ، جس نے کئی پارٹیوں کو آتے اور اقتدار سے بیدخل ہوتے دیکھا ہے ۔ اسے یونہی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا یہ کسی عام انسان کا خیال نہیں ہے ۔

ملک کی تاریخ میں یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی وزیر اعظم کی تقریر کے کسی حصہ کو پارلیمنٹ کے ریکارڈ سے حذف کیا گیا ۔ ایسا کیوں کیا گیا ؟ اس لئے کہ وہ غیر پارلیمانی زبان تھی ۔ یہ بدنصیبی ہے اس ملک کی ایک ایسا بھی وزیر اعظم اسے ملا جس نے اپنے عہدہ کے وقار کا خیال ہی نہیں رکھا ۔ عام طور پر سینئر سیاست دانوں اور ملک کی ترقی اس کے استحکام و سلامتی کیلئے فکر مند افراد کا کہنا ہے کہ سیاست میں مخالف سے بھی اختلاف کرنے کی ایک حد ہے ۔ اس سے نکلنا مناسب نہیں ہوتا ۔ اسی اصول کی بنیاد پر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر حزب اقتدار اور حزب مخالف ایک ساتھ نظر آتے ہیں جس سے کئی بار کچھ لوگوں کو اختلاف ہوتا ہے کہ یہ کیسی مخالفت ہے جو ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ لیکن یہ اعتراضات ان لوگوں کی جانب سے ہوتے ہیں جنہیں اختلاف کے حقیقی معنی نہیں معلوم ۔ اس لئے شرد پوار کی وزیر اعظم کے متعلق باتوں پر غور کرنا ضروری ہے ۔ وزیر اعظم کی کرسی پر آج جو ہے وہ کل شاید نہیں رہے لیکن یہ ملک اسی طرح رہے گا اس لئے اس کے سب سے اعلیٰ عہدہ کا خیال رکھنا اس کے وقار کو قائم رکھنا اصل حب الوطنی کی علامت سمجھی جانی چاہئے ۔این سی پی کے سربراہ شرد پوار نے گوندیا میں منعقد اسی لٹریری فیسٹیول میں کہا کہ مودی اب ان سے مشورہ نہیں لیتے ۔ شرد پوار کے مطابق پہلے وہ مشورہ لیا کرتے تھے ۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ مودی پہلے کیوں مشورہ لیا کرتے تھے ؟ ممکن ہے کہ نئے نئے وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کے بعد انہوں نے محسوس کیا ہو کہ پرانے سیاست دانوں سے ملکی اور عالمی سیاست کی باریکیاں معلوم کر لینی چاہئیں ۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے ایسے فیصلے لینے شروع کئے جن سے ملک کو نقصان کا اندیشہ تھا اوراس پر اپوزیشن کا کمزور رویہ دیکھتے ہوئے یا عوام کی جانب سے کسی رد عمل کا اظہار نہیں ہونے سے انہوں نے سمجھ لیا ہو کہ یہاں کسی سینئر سیاستداں سے مشورہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

ویسے وزیر اعظم کے رویہ سے یہ احساس جاگتا ہے کہ وہ مشورہ کی بجائے اپنا فیصلہ تھوپنے پر زیادہ یقین رکھتے ہیں ۔ کوئی کچھ بھی کہتا رہے اور خواہ کتنے ہی دلیلوں کے ذریعہ ان کے فیصلوں کی خامیوں کی جانب اشارہ کرے ، وہ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے ۔ انہوں نے سارے مشیر اور صلاح کار صرف اس روایتی ملکی سیاست کا حصہ ہونے کے سبب ہی مقرر کر رکھا ہے جو رائج ہے ۔ ورنہ وہ مشوروں کو سننے کی بجائے صرف اپنا فیصلہ یا حکم نامہ تھما دینے کے مزاجاً عادی ہیں بس اس پر ان مشیروں اور صلاح کاروں کو اپنی ہامی بھرنی ہوتی ہے ۔ اگر شرد پوار جیسے سینئر سیاست دانوں سے شروعاتی دور میں وزیر اعظم نے مشورہ کیا ہے تو اس کی ایک وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ دکھانا چاہ رہے ہوں کہ وہ سارے سینئر سیاست دانوں کی قدر کرتے ہیں لیکن یہ ان کے مزاج کا حصہ نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کے سیاسی گرو لال کرشن اڈوانی یوں گوشہ گمنامی میں پڑے نہیں ہوتے ۔

بہر حال ان کے اس مزاج کا ادراک انہیں بھی اب ہونے لگا ہے جو اسے تسلیم نہیں کرتے تھے ۔ یہ سب کچھ مودی حکومت میں ہی ہو رہا ہے کہ سپریم کورٹ ہو یا سی بی آئی سب جگہ حکومت کی مداخلت عیاں ہے ۔ اس کی کئی مثالیں سامنے آچکی ہیں ۔ سپریم کورٹ کے جج باہر آکر پریس کانفرنس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں سب کچھ اچھا نہیں ہو رہا ہے ۔ سی بی آئی کا معاملہ کہ جب وزیر اعظم کے منظور نظر ایڈشنل ڈائریکٹر کی بدعنوانیوں کو ڈائریکٹر کے ذریعہ منظر عام پر لایا جاتا ہے تو دونوں کو اچانک راتوں رات چھٹی پر بھیج دیا جاتا ہے اور ایک تیسرے کو سی بی آئی کی سربراہی سونپی جاتی ہے ۔ اس طرح کی کارروائی سے ان اداروں کی بے بسی اور لاچاری سامنے آتی ہے جن پر ملک کے عوام کو کچھ حد تک اعتماد تھا ۔ یعنی موجودہ وزیر اعظم نے عوام کے رہے سہے اعتماد کو بھی متزلزل کیا ہے ۔ جمہوری حکومت میں گرچہ وزیر اعظم سب سے بڑا عہدہ ہے لیکن اسے ملکی و بین الاقوامی معاملات کو سمجھنے اور اس کے مطابق پالیسی مرتب کرنے کیلئے قابل بااثر اور معتمد صلاح کاروں اور مشیر کاروں کی ضرورت پڑتی ہے ۔ بغیر اس کے ملک کے اقتدار کو کامیابی سے نہیں چلایا جاسکتا ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.