صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

وجود کی جنگ لڑتے اردو اسکولوں کی روداد (3)

اگر اساتذہ ،محکمہ تعلیم اور عوامی نمائندے چاہیں تو تعلیمی اداروں کی حالت میں کافی بہتر آ سکتی ہے ،اس کی زندہ مثال امام باڑہ میونسپل سیکنڈری اسکول ہے

2,500

ممبئی : جنوبی ممبئی کاتعلیمی ادارہ امام باڑہ میو نسپل سیکنڈری اسکول،  ۱۹۶۳ میں قائم ہوا ہے اور ممبئی میونسپل کارپوریشن کے زیرانتظام ہے ۔ جنوبی ممبئی جہاں اردو اسکولوں کی حالت خستہ ہو رہی ہے تقریبا نصف درجن سے زائد نجی ٹرسٹوں اور میونسپل انتظامیہ کے زیر انتظام اردو پرائمری اسکول بند ہو چکے ہیں اور کئی اردو ہائی اسکول کی حالت کافی خراب ہے جو کسی بھی وقت بند ہو سکتے ہیں ۔قبل کے سلسلہ میں ہم نے ایسے ہی ایک اسکول کی حالت آپ کے سامنے رکھی تھی جس میں کل ۲۴ ؍بچے رہ گئے ہیں ۔ آج ہم آپ کو میونسپل انتظامیہ کے تحت چلنے والے اس ہائی اسکول کی بہتری کے احوال لے کر حاضر ہوئے ہیں ۔ اس اسکول کی حالت دیکھنے کے بعد ہی ہم نے یہ لکھا ہے کہ اگر اساتذہ اور انتظامیہ چاہیں تو اسکولوں کی حالت بہتر ہو سکتی ہے ۔ محض حالات کا رونا رونے سے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ جنوبی ممبئی میں واقع امام باڑہ میونسپل سیکنڈری اسکول جہاں پر جماعت پنجم سے جماعت دہم تک اردو میڈیم تعلیمی سلسلہ جاری ہے ۔ اسکول کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کے احاطے میں امام باڑہ پرائمری اسکول ، آرسی امام باڑہ ڈیڈ کالج برائے گرلس اور عائشہ بائی ٹرسٹ کا دفتر بھی واقع ہے ۔

اسکول کے صدر مدرس(پرنسپل) احمد شاہ ہیں ۔ اساتذہ کی محنت اور تعاون سے اسکول ترقی کی طرف گامزن ہے ۔ فی الحال امام باڑہ میونسپل سیکنڈری اسکول میں ۳۰۰ ( تین سو) سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں ۔ اور ۹، اساتذہ درس وتدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ اسکول کی عمارت اور ان میں موجود کمروں کی وسعت کے سبب اس سے کہیں زیادہ تعداد میں بچوں کی گنجائش ہے ۔ لیکن کم از کم اتنی تعداد کے سبب اسکول بند ہونے سے محفوظ رہا ہے ۔ اطراف کے مسلمان بچے اگر میونسپل اسکولوں کا رخ کرنے لگیں تو شاید وہاں گنجائش نہیں بچے لیکن قوم میں انگریزی میڈیم سے پڑھانے کی اندھی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔

اکثر مسلم والدین بچوں کو انگریزی میڈیم سے تعلیم دلانے کے سلسلے میں سارا سرمایہ ہائی اسکول تک کی تعلیم پر ہی لٹا بیٹھتے ہیں جبکہ اصل اخراجات کالج اور یونیورسٹی اور دوسری پیشہ وارانہ تعلیم میں زیادہ سرمایہ کی ضرورت ہوتی ۔ اگر وہ والدین میونسپل اردو اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دلا کر آئندہ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم پر توجہ مرکوز کریں تو تعلیمی حالت میں زیادہ بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ۔ اس طریقہ کار اکثر والدین کو دوسروںکے آگے ہاتھ پھیلانے یا ٹرسٹوں کے چکر لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔

اس سے قبل کے دو اسکولوں کے حالات میں بھی یہی بات سامنے آئی تھی کہ اطراف کے بچے ان اسکولوں میں نہیں آتے ۔ امام باڑہ اسکول میں بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے طلبہ و طالبات دھاراوی ، سائن ، گوونڈی سے آتے ہیں۔ طلبہ کی سہولت کیلئےفی الحال دو بسیں دھاراوی کے طلبہ و طالبات کے لیے بالکل مفت دستیاب ہیں ۔ طلبہ و طالبات سے اس کے لئے کوئی فیس نہیں لی جاتی ۔بچوں کی دلچسپی کیلئے گذشتہ تین سالوں سے سالانہ پروگرام بڑے ہی اہتمام سے منایا جارہا ہے گذشتہ دو سالوں سے تعلیمی نمائش کا انعقاد بھی کیا جارہا ہے ۔

اسکول کے طالبعلم غلام ربانی اپنے بنائے ہوئے ماڈل کے ساتھ ۔ بچوں میں غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعہ ان کی صلاحیتوں کو نکھارا جارہا ہے

 اسکول کی طالبات نہایت ہی محنت اور لگن سے تاریخ و شہریت ، جغرافیہ ، حساب کے ماڈل اور چارٹس بناتی ہیں ۔ اس کے لئے نادرہ مس ، اورمحمد اسلم سر اور دیگر اساتذہ طالبات کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ بچوں کی قابلیت میں اضافہ اور ان کی شخصیت کی ارتقا کیلئےاور ان کی فکری ، ذہنی ، اسلامی معلومات میں اضافے کے لئے وال میگزین کا اجراء اسکول کے صدر مدرس احمد شاہ سر کے ہاتھوںسے ہوا ۔ اس وال میگزین کا نام  پیام ارقم  ہے ۔ محمد اسلم سر اس کے مدیر کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں ۔ محمد اسلم سر نے بتایا کہ اسکول کو سوشل میڈیا جیسے واٹس ایپ اور فیس بک سے بھی جوڑا جاچکا ہے ۔

آخر یہ کیوں کر ممکن ہوا کہ ایسے دور میں جبکہ اردو اسکول بند ہورہے ہیں لیکن امام باڑہ اسکول نے نہ صرف یہ کہ اپنا وجود باقی رکھا بلکہ پہلے سے اپنی حالت میں سدھار بھی کیا ۔ اس کیلئے اساتذہ نے محنت کی اور انہوں نے عوامی نمائندوں سے بھی تعاون لیا ۔ عوامی نمائندوں نے بھی دست تعاون دراز کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی ۔

آج اساتذہ کی محنت اور لگن سے اسکول میں دو سائنس لیب ہیں۔ بڑی اور منی سائنس لیب ۔ جس میں تمام لوازمات موجود ہیں اور طلبہ و طالبات کے پریکٹیکلس لیے جاتے ہیں۔پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل کود پر بھی توجہ دی جاتی ہے ۔ اسکول کے دو میدان میں طلبہ و طالبات کے لئے علیحدہ مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں ۔ گذشتہ دو سالوں سے طلبہ تانگھتا  میں جیت حاصل کر رہے ہیں دونوں سال ۸ میڈل حاصل کیے ہیں ۔ ہشتم ، نہم اور دہم جماعت کی اضافی کلاسیںلی جاتی ہیں جبکہ عام طور پر حکومتی انتظام میں چلنے والے تعلیمی اداروں کا حال یہ ہے کہ وہاں اساتذہ اپنے فرائض سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔ امام باڑہ میونسپل اسکول میں طلبہ کی تعلیمی تشنگی کو مٹانے کیلئے کتابوں سے مزین لائبریری بھیموجود ہے ۔

 

نہم جما عت میں جاری سرگرمیوں میں اسکول کے معلم اور آل انڈیا ایڈیل ٹیچر اسوسی ایشن (آییٹا) کے رکن محمد اسلم سر کا اہم رول ہے ۔

جماعت نہم ۔ ب کے طلبہ و طالبات میں مطالعہ کا ذوق پروان چڑھانے کے لیے میگزین لائبریری کا آغاز کیا گیا ہے۔ مختلف اخبار و رسالے شروع کیے گیے۔۱۔ زندگی نو۲۔ رفیق منزل۳۔ گل بوٹے۴۔ پیش رفت۵۔ اچھا ساتھی۶۔ سائنس۷۔ حجاب اسلامی۸۔ بچوں کی دنیا۹۔ دعوت۱۰۔کانتی ۔ ہفت روزہ۔ ہندی۱۱۔کانتی ۔ ماہانہ۔ ہندی۱۲۔ افکار ملی۱۳۔پھول۱۴۔ ایوان اردو۱۵۔ جنت کے پھول وغیرہ

میونسپل اسکولوں میں بچوں اور والدین کی دلچسپی میں اضافہ اور موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کیلئے اسکول میں ہر ماہ  Best Student of the Month  ایوارڈ برائے طلبہ و طالبات ۔ تقریری صلاحیت کو بڑھانے کے لیےہر سنیچر کو  ۵ منٹ کی تقریری مشق۔ مطالعہ کا ذوق پیدا کرنے کے لیےسنیچر لائبریری کے لئے مخصوص ۔ ہر سہ ماہ میں بچوں کو مختلف مقابلوں میں حصہ لینے کی تیاری کے طور پر کلاس میں مختلف مقابلوں کا انعقاد اور انعامات کی تقسیم ۔تقریر، ڈرائنگ ، بیسٹ آئوٹ آف ویسٹ ، نغمے ، کہانی اور لطیفے وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔

امام باڑہ میونسپل اسکول کے پرنسپل محمد شاہ جن کی محنتوں اور دلچسپی کے سبب ادارہ میں بچوں کی خاطر خواہ تعداد نظر آتی ہے

امام باڑہ اسکول میں اساتذہ ، انتظامیہ اور عوامی نمائندوں کے باہم اشتراک و تعاون کے سبب آج یہ کہا جاسکتا ہے کہ انگلش میڈیم کی مرعوبیت اور خالص تاجرانہ ذہنیت کے سبب حشرات الارض کی طرح اُگ آنے والے انگریزی میڈیم اسکولوں کے مقابلہ ایک پوائنٹ آگے ہی ہوگا ۔ اگر اطراف کے مسلم والدین اپنے بچوں کو امام باڑہ اسکول میں داخلہ کرائیں اور اساتذہ کے ساتھ تعاون بھی کریں تو اس کے دو فائدے ہوں گے اول تو ایک اردو اسکول شاندار کارکردگی کے سبب سربلند ہوگا اور دوئم والدین کا سرمایہ جو انگلش میڈیم کے سبب سرمایہ داروں کی تجوریوں میں منتقل ہو رہا ہے وہ بچ جائے گا جس سے آپ اپنے نونہالوں کے مستقبل کو سنوار سکتے ہیں ۔ آپ یا تو انگلش میڈیم میں اپنے بچوں کوداخلہ دے کر سرمایہ برباد کریں اور بچوں کو دین سے دور کرنے کا سبب بنیں یا پھرمیونسپل اردو اسکولوں میں بچوں کو داخل کرکے اردو اسکولوں کو بند ہونے سے بچالیں ۔ فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.