24 گھنٹوں کے دوران رفح پر مزید اسرائیلی حملے، 35 فلسطینی شہید
اسرائیل اپنے یرغمالیوں کی رہائی کا آخری موقع ضائع نہ کرے: حماس
حماس کی طرف سے جنگ بندی کی قبول کرنے کے اعلان کے باوجود اسرائیلی فوج کے رفح پر حملوں کا تسلسل ہے اور کم از کم مزید 35 فلسطینی ان اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔ان 35 نئی ہلاکتوں کی تصدیق مقامی اسپتال نے کی ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران جنوبی غزہ کی پٹی کے شہر رفح پر اسرائیلی شدید فضائی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 35 فلسطینی ہلاک اور 129 دیگر زخمی ہو گئے۔جیسا کہ اسرائیل نے رفح پر حملوں کے لیے اپنے ارادے کا بار بار زور دے کر اعادہ کیا ہے۔چہارشنبہ کے روز شہر میں کام کرنے والے کویتی اسپتال کا کہنا کہ اسپتال میں ہلاک شدہ فلسطینیوں اور زخمیوں کی آمد وقفے وقفے سے جاری رہی۔ جبکہ علاقے میں اسرائیلی جنگی حملوں میں تسلسل سے صورحال تشویشناک ہو رہی ہے۔
اسرائیلی فوج کے رات کے وقت ہونے والے حملوں کی تصدیق رفح کے سیکیورٹی ذرائع نے بھی کی ہے اور عینی شاہدین بھی ان حملوں اور ہلاکتوں یا زخمی ہونے والوں کی تصدیق کر رہے ہیں۔بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے حملے رات 01 بجے سے ذرا پہلے شروع ہوئے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ غزہ کے جنوب اور رفح کے مشرقی حصے سے فلسطینیوں کے انخلا کا حکم بھی دہرایا گیا۔یاد رہے حماس نے پیر کے روز ہی جنگ بندی کی ایک تجویز قبول کر لی تھی۔
تاکہ سات ماہ سے جاری یہ جنگ ختم ہو سکے؛ لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کی جس تجویز کو حماس نے قبول کیا ہے وہ اسرائیلی مطالبات سے بہت دور ہے۔اس کے باوجود اسرائیلی اپنا نمائندہ وفد مذاکرات میں شرکت کے لیے قاہرہ بھیجا جائے گا۔اسرائیلی فوج کے ترجمان رئیر ایڈمرل ڈینیل ہگاری کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے پیر کے روز رفح میں50 سے زائد مقامات پر بمباری کی ہے۔دوسری جانب حماس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس سربراہ اسماعیل ھنیہ نے ثالث ملکوں مصر اور قطر کو اطلاع کر کے آگاہ کر دیا ہے کہ جنگ بندی کی تجاویز قبول کرتی ہیں۔ تاہم اب بھی مکمل جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہے۔
اس موقع پر حماس کے ایک سینئررہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اب یہ اسرائیل پر انحصار ہے کہ وہ جنگ بندی قبول کرتا ہے یا معاہدے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔اسرائیل نے رفح میں فلسطینیوں سے کہا ہے کہ فوری طور پرمشرقی حصہ خالی کر دیں۔ یہ اس کے باوجود کہا ہے کہ دنیا کے ملک چاہتے ہیں کہ رفح پر حملہ نہ ہو بصورت دیگر اس حملے کے بہت مضمرات ہوں گے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوتریس کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے کہا ہے کہ رفح سے شہریوں کے انخلا کی مذمت کی ہے اور کہا ‘ یہ محفوظ انداز سے کرنا ناممکن ہے۔انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ وولکر ترک نے کہا ہے کہ یہ غیر انسانی ‘ فعل ہے۔ کہ اس طرح لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جائے۔
غزہ جنگ کا آٹھواں ماہ شروع، رفح پر ٹینکوں کی چڑھائی کا پہلا دن
غزہ میں اسرائیلی جنگ کے سات ماہ مکمل ہونے کے بعد آٹھویں مہینے کے پہلے روز رفح پر اسرائیلی ٹینکوں کی چڑھائی کا آغاز ہو گیا ہے۔ جس سے جنگی شدت میں نئے اضافے کی شروعات نظر آرہی ہے۔ امریکہ نے ان نئی جنگی شروعات کے ساتھ ہی ایک بار پھر ہائیزن ہاور نامی اپنے بحری بیڑے کو واپس اسرائیل سے متصل سمندر میں بھیج دیا ہے۔ایک امریکی ذمہ دار نے’العربیہ‘ کو بتایا کہ یہ طیارہ بردار بحری بیڑہ ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کی طرف سے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔واضح رہے امریکی بحری بیڑہ 26 اپریل کو مصری نہر سویز سے گزرنے کے بعد اب مشرقی بحیرہ احمر میں پہنچ چکا ہے۔اس سے پہلے امریکہ نے غزہ میں اسرائیلی جنگ شروع ہونے کے ساتھ ہی یکے بعد دیگرے اپنے دو بحری بیڑے اسرائیل کے تحفظ کے لیے بھیج دیے تھے۔ تاہم کچھ ہفتے پہلے ہائزن ہاور نامی طیارہ بردار بحری بیڑے کو اس محاذ سے واپس بھیج دیا گیا ہے۔اب جیسے ہی رفح پر اسرائیلی حنلے سے خطے میں کشیدگی کا احتمال ہوا تو امریکی بحری بیڑہ اسرائیل کے لیے پہلے سے آمجود ہوا ہے۔
تاہم امریکی حکام علاقائی سمندر میں اس کی آمد کی وجہ رفح پر اسرائیلی حملہ نہیں بلکہ بحریہ احمر میں حوثیوں کے حملے بتا رہے ہیں۔پچھلے دنوں جب قاہرہ میں غزہ کی جنگ بندی کے لیے مذاکراتی عمل کی خبریں تیزی سے سامنے آرہی تھیں اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن یک بار پھر مشرق وسطیٰ کے دورے پر آئے تھے۔ عین انہی دنوں امریکی طیارہ بردادر جہاز ہائزن ہاور مشرق وسطیٰ میں نئے ٹاسک کے لیے رواں دواں تھا اور عین اسی روز اس کے بحریہ احمر میں پہنچنے کی خبر سامنے آئی ہے جس روز رفح پر اسرائیلی زمینی حملہ شروع ہوا ہے۔
امریکی زمہ دار نے ‘العربیہ’ کو بتایا ہے ’19 نومبر سے لے کر اب تک حوثیوں نے تقریباً 140 حملے کیے ہیں۔’ دوسری طرف ‘العربیہ’ کو معلوم ہوا ہے کہ اس طیارہ بردار بحری جہاز کے عملے کو نہیں پتا کہ اسے خطے میں کب تک رہنا ہوگا اور اس کے عملے کے ارکان کب واپس امریکہ جا سکیں گے۔تاہم جوبائیڈن انتظامیہ کے حکام کا اندازہ ہے کہ خطے میں گرمیوں کے ابتدائی موسم میں ہی اس طیارہ بردار بحری بیڑہ کو واپس امریکہ بھیج دیا جائے گا۔ ہائیزن ہاور کی امریکہ واپسی کے بعد بھی خطے میں امریکی فوجی موجودگی برقرار رکھی جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ ایک نیا طیارہ بردار جہاز اس کی جگہ لینے کے لیے بحیرہ احمر پہنچ جائے۔
اسرائیلی فوج 2005ء کے بعد پہلی بارفلاڈیلفیا میں داخل،کیا یہ امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے؟
فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں مصرکی سرحد کے ساتھ سرحدی پٹی جسے ’’فلاڈیلفیا‘‘ یا صلاح الدین محور کہا جاتا ہے پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کرلیا ہے۔ سنہ 2005ء میں اسرائیلی فوج یہاں سے نکل گئی تھی تاہم یہاں سے اسرائیلی فوج کے انخلاء کے حوالے سے دونوں ممالک کے دورمیان 1979ء میں امن معاہدے میں طے کیا گیا تھا۔
محور فلسطینی علاقوں سے مصر جانے کے لیے شرائط اور معیارات سے مشروط ہے جب کہ معاہدے میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ مصر اسرائیل کے ساتھ دستخط کیے گئے پروٹوکول کے مطابق اس علاقے کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی متعدد افواج کو اس علاقے میں تعینات کرے گا۔سنہ 2005ء میں جب اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی چھوڑی تو انہیں بھی وہاں سے اور رفح کراسنگ سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا اور ان کی نگرانی کا کام یورپی یونین کے مبصرین کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کر دیا گیا۔مصری اور اسرائیلی افواج وہاں سے نکل گئیں مگرسوال یہ ہے کہ کیا یہ پیش رفت مصرکے ساتھ طے پائے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔مصرکے سابق معاون وزیر دفاع میجرجنرل علی حفیظی نے کہا کہ فلاڈیلفیا محور مصر اور غزہ کی پٹی کے درمیان ایک فلسطینی بفر زون ہے اورمصرکی مسلح افواج اس کی محافظ ہیں۔
یہ جگہ مصری سرحد پر واقع ہے اور وہاں پر اسرائیلی فوج کی موجودگی مسائل کھڑے کرسکتی ہے۔ یہ ایک سرخ لکیر ہے جسے عبور کرنے کا اسرائیل کو حق نہیں۔میجر جنرل حفظی نے وضاحت کی کہ فلاڈیلفیا ایکسس 14 کلومیٹر طویل ہے اور امن معاہدے کے مطابق یہ دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی کے ساتھ اس محور میں محدود اور مخصوص فورسز کی تعیناتی کی اجازت دیتا ہے، جس کا مقصد اسمگلنگ اور جرائم پیشہ عناصر کی دراندازی روکنے کے لیے گشت کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلاڈیلفیا محور کا ایک حصہ ڈی سیکٹر سے متصل ہے،جو اسرائیل کی سرحد کے ساتھ ہے اور اس کی چوڑائی اڑھائی کلو میٹر ہے جب کہ دوسرا حصہ غزہ کی پٹی کے اندر واقع ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈی سیکٹر کے حوالے سے مصراور اسرائیل کے درمیان معاہدے کی الگ سے شق موجود ہے۔ اس پرایک طرف اسرائیلی فوج اور اقوام متحدہ کی امن فوج کے دستوں کی تعیناتی کی اجازت دی گئی ہے ،مگر اسرائیلی فوج کو وہاں پر ٹینک، میزائل اور توپ خانے کی تعیناتی کی اجازت نہیں۔اس طرح امن معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ سرحد پر ایک دوسرے کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے کسی بھی اقدام سے گریز کریں گے۔
اسرائیل اپنے یرغمالیوں کی رہائی کا آخری موقع ضائع نہ کرے: حماس
فلسطینی تحریک حماس کے سینئر عہدیدار نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کا اپنے یرغمالی رہا کروانے کا ’آخری موقع‘ہے۔ یہ وارننگ قاہرہ میں غزہ اسرائیل جنگ بندی معاہدے سے متعلق مذاکرات کے لئے موجود حماس کے وفد کی مصر سے واپسی کے موقع پر سامنے آئی ہے۔فائر بندی مذاکرات میں شریک حماس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبردار کیا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو اور صہیونی یرغمالیوں کے اہل خانہ کے لیے اپنے پیاروں کو رہائی دلوانے کا آخری موقع ہو گا۔ اس کے بعد شاید وہ اپنے بچوں اور اہل خانہ سے نہ مل سکیں۔