صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

ممبئی کی مساجد میں بہت جلد ریفریجریشن سسٹم سے لیس تابوت نظر آئے گا

اس کی وجہ سے مردوں کو چند گھنٹے محفوظ رکھنے کیلئے اسپتالوں کے مردہ خانوں کے چکر نہیں لگانے ہوں گے

1,612

ممبئی : دور حاضر نئی نئی ایجادات اور اختراعات کا دور ہے ۔ جو سہولتیں آج ہمیں میسر ہیں وہ زیادہ نہیں آج سے نصف صدی قبل کے افراد کو میسر نہیں تھیں ۔ مثال کے طور پر موبائل فون اور انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولیات ہے ۔ آج ہماری مساجد قیمتی قالینوں اور ایئر کنڈیشن کی سہولیات سے مزین ہیں ۔ ان سہولیات کے دور میں کچھ نوجوانوں کو یہ خیال بھی آیا کہ مساجد میں جو تابوت موجود ہوتا ہے اس میں ایک عدد ایسے تابوت کا اضافہ کردیا جائے جس میں ریفریجیریشن کی سہولیت دستیاب ہو ۔ اب آج کے مسلم نوجوان سے یہ بعید ہی نہیں کہ وہ اس میں پیچھے رہیں ۔ انہوں نے اس کیلئے کوششیں تیز کردی ہیں کہ ہر مسجد میں اس طرح کے جدید تابوت ہوں ۔

الطاف پٹیل جو ایک مسجد کے ٹرسٹی ہیں انہوں نے بتایا کہ ان کے دل میں یہ خیال اس لئے آیا کہ بسا اوقات رشتہ داروں کی آمد کے انتظار میں مردہ کو کافی دیر اور کئی بار ایک دن یا اس سے زیادہ بھی رکھنا پڑتا ہے ۔ ایسی صورت میں اسپتالوں کے مردہ خانوں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ وہاں لاش لے جانے اور لانے میں کافی پریشانی ہوتی ہے ۔ اس لئے اگر مساجد میں یہ موجود ہو تو جنہیں اس کی ضرورت ہو گی وہ اسے لے جائیں ۔ مسجد کمیٹی چاہے تو اس پر کرایہ وصول کرے اور چاہے تو بلا معاوضہ دے ۔

الطاف پٹیل کے مطابق میرے توجہ دلانے کے بعد کئی نوجوان آگے آئے ہیں جو مسجدوں میں اس طرح کے تابوت خرید کر وقف کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ اس کی قیمت انڈیا مارٹ پر چالیس سے پچاس ہزار روپئے ہے ۔ ویسے ریفریجریشن بنانے والے بھی اسے اس سے سستے میں بنا سکتے ہیں ۔

معاملہ چونکہ مسجد اور مردہ کا ہے اس لئے علما سے اس تعلق سے پوچھنا ضروری ہے ۔ ورلڈ اردو نیوز نے مولانا محمود دریا بادی کہا کہ شرعیت یہ کہتی ہے کہ مردہ کو دفنانے میں جلدی کیا جائے ۔ ویسے کچھ دیر کیلئے اس طرح کی سہولیات سے فائدہ اٹھانے میں بظاہر کوئی شرعی عذر نہیں ہے ۔ اسی طرح کے خیال کا اظہار حافظ سید اطہر علی نے بھی کیا جو کہ مدرسہ محمدیہ کے ناظم اعلیٰ ہیں ۔ انہوں نے بھی کہا کہ شرعیت صرف مردوں کو جلد دفنانے کیلئے تلقین کرتی ہے ۔ لیکن کسی سبب سے مردہ کو کچھ دیر کیلئے روکنا ہو اور اس کیلئے جدید ریفیرجریشن سے لیس تابوت کے استعمال میں کوئی شرعی عذر نہیں ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.