صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

کسی بھی طاقت کے لئے آئینی اقدار کو ختم کرنا مشکل ہوگا : امیر جماعت اسلامی ہند

1,245
جماعت اسلامی ہند کے نو منتخب امیر سید سعادت اللہ حسینی

(تنگ نظر پالیسی یا ڈکٹیٹر کے ذریعہ ملک کو متحد نہیں رکھاجاسکتا ، آئین مخالف قوتوں کو اقتدار سے دور رکھنا ضروری ، مسلم تنظیموں کے درمیان پہلے کے مقابلے باہمی تعاون میں اضافہ ہوا ہے ، قاسم سید سے خصوصی گفتگو کے دوران امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی کا اظہار خیال)

نئی دہلی : گزشتہ 6 اپریل کو جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان نے 46 سالہ انجینئر سید سعادت اللہ حسینی کو اپنا امیر منتخب کیا وہ آزادی کے بعد پیدا ہوئی نسل کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ یہ بظاہر ایک انقلابی فیصلہ ہے ۔ ’روز نامہ خبریں‘ نے اس تبدیلی کے پس منظر میں ان سے مختلف امور پر بات چیت کی ، جس کے اہم اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔

٭          ایک دینی جماعت کی سربراہی روایتی قیادت کی جگہ جدید تعلیم یافتہ شخص کو تھمادی گئی ، ہندوستان کے روایتی دین پسند طبقہ کو کیا تبدیلی کایہ رحجان قابل قبول ہوگا ۔

جماعت اسلامی میں فرد واحد کو ئی فیصلہ نہیں لیتا ، اجتماعی قیادت کا نظام ہے ، تبدیلی ایک فطری عمل ہے ۔ جماعت کی سطح پر یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ، ٹیم میں ہر طرح کے افراد رہیں گے ، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یونیورسٹی کے فارغین بھی دینی و اسلامی شعور سے مالا مال ہوتے ہیں ۔ وہیں مدارس کے فارغین بھی عصری شعور رکھتے ہیں اس لئے جدید قدیم کی تفریق ہی بے معنی ہے ۔ کم از کم ہمارے یہاں ایسی تفریق نہیں ہے ، ہمیں امید ہے کہ جب عوام میں جائیں گے تو ان کو بھی کنونس کرلیں گے ، جہاں تک عمر کا تعلق ہے ، یقیناً میں چھوٹا ہوں ۔ مولاناسید جلال الدین عمری کی طویل شاندار خدمات ہیں ، میں اْن کا شاگرد ہوں وہ ہمارے درمیان رہیں گے ، جماعت وملک کی خدمت ورہنمائی کرتے رہیں گے ۔ ان کے تجربات سے استفادہ کیا جائے گا ۔ نئی اور پرانی نسل کے درمیان ٹکراؤ کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ ویسے بھی شورائی نظام میں کوئی ایک شخص تمام اختیارات کا مالک نہیں ہوتا ۔ یقین رکھیے سب کچھ بہتر ہوگا ۔

٭          وہ کون سے دو کام ہوں گے جو آپ سب سے پہلے کرنا چاہیں گے ؟

پالیسی و پروگرام کے تحت ترجیجات طے کی جاتی ہیں جون کے وسط تک چار سالہ میقات کاایجنڈہ تیارہوجائے گا ، جہاں تک اہم ترین کاموں کا تعلق ہے ، سماجی سطح پر برادران وطن سے روابط ، دعوت دین پہنچانا ، ان کا دل جیتنا ، نفرت کا ازالہ کرنا اوربین مذاہب ، بین طبقات ڈائیلاگ کومہماتی طور پر کرنا ہوگا ، کیونکہ ایمرجنسی ہوگئی ہے اگر اس میں تاخیر کی گئی تو ہرسطح کے چیلنج اور نقصانات ہوں گے ۔ اس کام میں پوری ملت کو شریک کرنا اور اس کام کی اہمیت کا احساس دلانا ہوگا ۔

دوسرا سب سے اہم کام نوجوانوں کو جوڑنا ہے وہ کیڈر بنیں ، تحریک سے متعلقہ اداروں میں ان کی نمائندگی میں اضافہ ہو ۔

٭          کیا پہلے ان کاموں میں سستی ولاپروائی ہوئی ؟

یہ کہنا مشکل ہے ہر دور کی اپنی ترجیجات ہوتی ہیں ۔ موجودہ وقت میں نوجوانوں پر توجہ دینا ضروری ہے ۔

٭          کیا غیرمسلموں سے روابط کے دائرہ میں بی جے پی اور آر ایس ایس بھی شامل ہے ؟

ڈائیلاگ ہمیشہ کھلے ذہن سے ہوتے ہیں ، جہاں تک تنظیم سے تنظیم کے ڈائیلاگ کی بات ہے وہ حالات پر منحصر ہوںگے ۔

٭          آپ اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں ، دوسری طرف جمہوریت وسیکولرازم کے استحکام کی کوششیں بھی جاری ہیں کیا یہ تضاد نہیں لگتا ؟

ہمارے دستور میں لکھاہے بنیادی کام ذہن سازی ہے ، اسلام کا پیغام ہرایک تک پہنچانا ہے ، رائے عامہ کی تربیت کے ذریعہ ہی تبدیلی آتی ہے ، اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں یہ لانگ ٹرم اور صبر آزما ہے ، اس کی کوئی مدت متعین نہیں ہے ۔ جمہوری طریقہ ہی واحد راستہ ہے ۔ جمہوری نظام کے بہت سارے اصول اسلام سے متصادم نہیں ہیں ، آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق اسلام میں پہلے سے موجود ہیں ۔ ہندوستان کی متنوع سوسائٹی اور رنگارنگی تہذیب وثقافت کے لئے جمہوریت کو ہمارے قومی رہنماؤں نے پسند کیا تھا ۔

٭          قیام کے 70 سال بعد بھی جماعت اسلامی عوام میں قربت اور اثرونفوذ پیدا کرنے میں ناکام رہی ۔

اس کے تاریخی اسباب ہیں ۔ غلط فہمیاں پیدا کی گئیں ، کسی بھی نظریاتی تحریک کی ابتدا ایسے ہی ہوتی ہے ۔ مختلف آزمائشوں ، چیلنجوں اور مراحل سے گزرنے کے بعد ہی عوام میں نفوذ کرتی ہے ۔ مگر اب صورت حال بدل رہی ہے پہلے کے مقابلے کافی بہتر ہے ۔ ہماری بہت سی فرنٹل آرگنائزیشن کام کررہی ہیں ۔

٭          ایک احساس یہ ہے کہ جماعت کے اندر ڈسپلن شکنی کا رحجان بڑھ رہا ہے یہ تربیت کی کمی ہے یا تنظیم کی ؟

ہرتنظیم مختلف مراحل سے گزرتی ہے ۔ پہلے محنتی ، کاز کے لیے وقف افراد ، کوالٹی وقربانی کا جذبہ بدرجہ اتم ہونے کے ساتھ تحریک کا مقصد پیش نظر ہوتاہے ۔ جب اس کا دائرہ بڑھتا ہے ، اثرونفوذ میں اضافہ ہوتا ہے تو تعداد بھی بڑھتی ہے ۔ کوالٹی بھی بڑھتی ہے ، لیکن اس کا تناسب کم ہوجاتا ہے ۔ یہ فطری ہے ، ہرتحریک کے ادوار ہوتے ہیں ، اعلیٰ کردار کے حامل آج بھی ہیں بہرحال جہاں کمی ہے اس کو دور کیا جائے گا ۔

٭          آپ کو نہیں لگتا کہ مسلم تنظیموں میں آپسی تعاون میں کمی ہوئی ہے ۔ مشاورت باہمی خلفشار کاشکار ہے ۔

مجھے لگتا ہے کہ اس میں پہلے کے مقابلے اضافہ ہو رہا ہے ، نظریاتی و مسلکی اختلافات کی شدت میں کمی آئی ہے ۔ وہ آپسی تعاون کے جذبہ پر اثرانداز نہیں ہورہے ہیں ، جہاں تک مشاورت کا تعلق ہے ہم مفاہمت کی کوششوں کو آگے بڑھائیں گے ، اختلافات ختم کریں گے اور چاہیں گے کہ مشاورت دستور کے مطابق کام کرے ۔

٭          مسلمانوں کو 30 سال سے جو بی جے پی کو ہرائے اسے جتاؤ کی پالیسی پر عمل کروایا جارہا ہے کیا یہ ٹھیک ہے ، حالانکہ بی جے پی کادائرہ بڑھتا گیا ۔

جب تک فرقہ وارانہ پالیسی پر گامزن رہے گی اسے شکست دینے اور سیکولرطاقتوں کو اقتدار میں لانے کی کوششیں کی جائیں گی ۔ دراصل ووٹنگ سے زیادہ نقصان دہ ہے ووٹنگ سے پہلے ہمارا پروسیس ، کام کم شور زیادہ ، اشتعال انگیز بیانات اور شور وشرابہ سے نقصان ہوتا ہے ۔ مسلم قائدین کو ایسے طرزعمل سے گریز کرنا چاہئے ۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس بارہر ایک نے تحمل واحتیاط سے کام لیا اس کے نتائج نظر آرہے ہیں بار بار اشتعال دلانے کے باوجود اپنی کوششوں میں فرقہ پرست کامیاب نہیں ہوئے ۔

٭          کیا یہ سچ ہے کہ آئین اور جمہوریت خطرے میں ہیں ۔

یہ اللہ جانتا ہے ، یہ ملک بہت بڑاہے ، 130 کروڑ عوام مختلف مذاہب اور ثقافت کو ماننے والے ہیں ۔ تنوع ہی اس کی خصوصیت ہے ، کوئی بھی تنگ نظر پالیسی یا ڈکٹیٹر کے ذریعہ ملک کومتحد نہیں رکھ سکتا۔ کسی بھی طاقت کے لئے آئینی قدروں کو ختم کرنا مشکل ہے ۔ ایسی طاقتوں کو اقتدار سے دور رکھنا بہت ضروری ہے ۔

٭          مسلم جماعتوں نے میڈیا کے تعلق سے غیر ذمہ داری کا رویہ اپنایا ہے کیا اس سمت میں کچھ نہیں کیا جانا چاہئے ؟

یہ بہت ضروری ہے ، برادران وطن کے ساتھ تعلق کے لئے بھی میڈیا کا بڑا کردار ہے ۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مسلمان دبی کچلی اقلیت ہیں موثر میڈیا ہونا چاہئے ۔ ہم پہلے سے متوجہ ہیں بہت کام کیا ہے اس پر ، نئی ٹیکنالوجی کے حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.