صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

اب ہٹلر کا بھوت بھی مرگیا ہے !

77,313

عارِف اگاسکر

حالیہ دنوں میں ملک میں مندی کا ماحول پایا جارہا ہے ۔ صنعت اور کارو بار ختم ہو رہے ہیں ، کارخانوں کے بند ہونے سے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہوگئے ہیں ۔ بینکوں میں گاہکوں کی جمع رقومات بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ ملک میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی سے عام آدمی سخت پریشان ہے ۔ ان حالات میں عام شہریوں کو زندہ رہنے کی فکر ستا رہی ہے ۔ ایسے حالات میں ملک کے چار اہم ستون پارلمینٹ ، قانون ساز ادارے ، عدلیہ اوربیوروکریسی میں بھی شدید اختلافات ابھر کر سامنے آرہے ہیں ۔ یعنی ملک ایک شدید بحرانی دور سے گزر رہا ہے ۔ جو جمہوریت کے لیے نقصاندہ ہے اور شہریوں یا ملک کے مفاد میں بالکل نہیں ہے ۔ ایسے حالات میں گذشتہ دنوں ملک کے دارُالحکومت دہلی کےتیس ہزاری کورٹ کےاحاطہ میں پولس کی گاڑیوں کے پاس ایک وکیل کے ذریعہ گاڑی پارک کرنے کے معاملے نے طول پکڑا اور تشدد پھوٹ پڑا ۔ جس کے بعد پولیس کے ذریعہ کیے گئے مظاہرہ نے دہلی کے نظم و نسق میں ابتری پیدا کی اور راجدھا نی دہلی میں ۷۲؍ گھنٹوں تک لاقانونیت کا دور دورہ رہا ۔ دوسری جانب مہاراشٹر میں حکومت سازی کو لے کر کیے گئے تماشہ نے عوام کو بیزار کردیا ہے ۔ اور عوام کا ان سیاسی جماعتوں پر رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوا ہے ۔ ایک دوسرے کو شہ اور مات کے چکر میں ان سیاسی پارٹیوں نے سر کار بنا نے کی بجائے شطرنج کی سیاسی بساط ہی الٹ دی ۔ جس کے بعد برسر اقتدار پارٹی نے اس مو قع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا اور مہاراشٹر کوصدر راج کے حوالے کردیا ۔

اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے کے باوجود عوام سیاسی جماعتوں کا یہ تماشہ بے بسی سے دیکھتی رہی ۔ اور یہ سوچ رہی ہے ان عوامی نمائندوں کو ایوان میں اس لیے بھیجا جاتا ہے کہ وہ عوام کو در پیش مسائل کا تدارک کریں تاکہ انھیں راحت نصیب ہو ۔ لیکن جب ان سیاسی جماعتوں کو اپنا مفاد ہی عزیر ہے تو پھر انتخابی عمل کا یہ ڈھکوسلہ کیوں کیا جاتا ہے ؟ ان تمام حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ۱۰؍ نومبر کے مراٹھی روزنا مہ ’سامنا‘ کے ایگزیکیوٹیوایڈیٹر سنجئے رائوت اپنے کالم ’روکھ ٹھوک‘ میں لکھتے ہیں کہ ملک کو ایک مضبوط اور طاقتور وزیر داخلہ نصیب ہوا ہے ۔ پھر بھی دارُالحکومت دہلی میں پولیس نے بغاوت کی ہے ۔ پہلے پولیس اور وکیلوں کے درمیان تشدد ہوا جس کے بعد پولیس اور ان کے اہل خانہ انصاف کے حصول کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ۔ لہٰذا دہلی کا امن و امان مکمل طور پر غارت ہوا اورانتشار پیدا ہوا ۔ مذکورہ معاملے میں پولیس والوں نے دہلی پولیس کمشنر کے حکم کو بالائے طاق رکھا اور وکیلوں نے بھی ہائی کورٹ کے احکامات کی تعمیل نہیں کی ۔ ملک کے دارُالحکومت دہلی میں ۷۲؍ گھنٹوں تک نظم و نسق میں ابتری پیدا ہوئی اورلاقانونیت کا ماحول پایا گیا ، جو ملکی مفاد کے لیے مناسب نہیں ہے ۔ یہ سب کیسے ہوا ؟ دہلی آج بھی مرکزی حکومت کے ماتحت ہے جہاں پر وزارت داخلہ موجود ہے ۔ لہٰذا دہلی میں امن و امان کو قائم رکھنا مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ بابا صاحب بھوسلے جب مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ تھے اس وقت بھی پولیس میں بغاوت ہوئی تھی اورپولیس والے بندوقیں تھامے سڑکوں پر اُتر آئے تھے ۔ انھوں نے رِیاست کو یرغمال بنالیا تھا ۔ دہلی کے ماحول میں پولیس کی شورش کی وجہ سے یہی ہوا ہے ۔

اخلاقیات کی باتیں کون کر رہا ہے ؟ منفی ذہنیت رکھنے والےجب دوسروں کو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں تو حیرت ہو تی ہے ۔ وہ اس غلط فہمی میں مبتلاء ہیں کہ عوام ذہنی بیماری کا شکار ہیں ۔ اس لیے انھوں نے یہ طے کیا ہے کہ ان پر کسی بھی فیصلہ کو مسلط کیا جاسکتا ہے ۔ جب شہنشاہ سیو ہیرس قریب المرگ تھا تب اس کے آخری کلمات یہ تھے ۔ ’ہمیں کام کی ضرورت ہے‘ آج ملک میں اکثریتی محنت کش طبقہ کے پاس کام نہیں ہے ۔ کاشتکاری پر زندگی گزار نے والے بھی بے روز گار ہوگئے ہیں کیونکہ حکمرانوں کا دل لگا کر کام کرنے اور اس پر عمل پیرا ہو نے کا جذبہ ختم ہو گیا ہے ۔ گویا یہ طے کیا گیا ہے کہ مسلسل سیاست اورسازش کرنے کا مطلب ہی کام ہے ۔ شیواجی مہاراج کے مہاراشٹر میں یہ کیوں ہو رہا ہے ؟ شیواجی مہاراج کی حکومت میں بھی سپاہی جنگی مہم پر جاتے تھے ۔ اور جب جنگی مہم نہیں ہوتی تھی تب وہ گھر کی کفالت کے لیے کاشتکاری کیا کر تے تھے ۔ رومن سلطنت کی توسیع بھی مسلسل محنت کی وجہ سے ہوئی تھی ۔ اسی محنت کی وجہ سے رومن سپہ سالارکا اقتدار قائم رہا تھا ۔ اٹلی میں قدیم عہد میں کسانوں اور افسران طبقہ کو معاشرہ میں یکساں درجہ حاصل رہا ہے ۔ اس تعلق سے پلینی نامی مصنف یوں رقم طراز ہے کہ ’جنگ میں فتح حاصل کر نے کے بعد گھر لوٹنے پرسپہ سالار اور فوجی افسران خوشی خوشی کھیت میں ہل چلانے جاتے تھے ۔ وہ زمین میں ہل چلانا پسند کر تے تھے ۔ بعد ازاں ہر دھندے میں غلاموں کو کام پرلگانے کا رواج عام ہو گیا ۔ تب لوگوں نے محسوس کیا کہ محنت کرنا غلاموں کا کام  ہےجس میں کمتری کا احساس پایا جا تا ہے ۔ اور جب حکمرانوں میں کاہلی اور عیاشی داخل ہوئی تب رومن سلطنت نے اپنے آخری دن گننا شروع کیے ۔

اس حقیقت سےکوئی انکار نہیں کر سکتا کہ درمیانی عرصہ کے دوران مہاراشٹر میں رومن سلطنت جیسی صورتحال پیدا ہوگئی تھی ۔ رِیاست کی توسیع کرنے والوں کو بھی ایسے وقت میں دشمن جان کر حاشیہ بردار کیا جاتا ہے جب یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ ’میں راجہ باقی سارے غلام‘ ۔ اس طرح کی ساری سیاست پر قدغن لگانا چاہئے ۔ موجودہ دور کا مہاراشٹر اسی ذہنیت کا حامل ہے ۔ یکش کے ذریعہ یودھشٹر سے پوچھے گئے کئی سوالات میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ ’بہتر خوشی کا مطلب کیا ہے؟ اور یو دھشٹر نے کمال ہوشیاری سے یکش کے سوال کا جو جواب دیا ہے اس میں خوشی کی بہترین تعریف مو جود ہے ۔ یودھشٹر کہتا ہے کہ اطمینان میں ساری خوشی ہے ۔ خوشی کی تعریف اطمینان میں موجود ہے ۔ سیاست میں فہم و فراست اور اطمینان کے ختم ہونے سے آج اضطراب پیدا ہوا ہے ۔

دہلی میں اگر کچھ ہوتا ہے تو اس کا اثر مہاراشٹر پر پڑتا ہے ۔ مہاراشٹر کی سیاست مہاراشٹر میں ہونی چاہیئے ۔ مہاراشٹر دہلی کا غلام نہیں ہے ۔ یہاں کے فیصلے یہیں ہو نے چاہئیں ۔ انتخابی نتائج کے بعد دوسرے روز وزیر اعظم مودی نے وزیراعلی فرنویس کی تعریف کی اور آشیرواد دیا کہ فرنویس ہی دو بارہ وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوں گے ، لیکن پندرہ دنوں کے بعد بھی شری فرنویس حلف نہیں لے سکے ۔ کیونکہ امیت شاہ رِیاست کےامور سے الگ تھلگ رہے ہیں ۔ متحدہ محاذ کی سب سے بڑی پارٹی شیوسینا ہے جو رخصت پذیر وزیراعلی سے گفتگو کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، یہ بی جے پی کی سب سے بڑی شکست ہے ۔ جس کی وجہ سے دہلی کا آشیر واد حاصل کر نے کے باوجود بھی بی جے پی حکومت نہیں بناسکی ۔ اس وقت رِیاست کا سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ اب مہاراشٹر کا وزیراعلیٰ کون ہوگا ؟ یہ ادھو ٹھاکرے طے کریں گے ۔ اس معاملے میں رِیاست کے قد آور لیڈر شرد پوار کا کر دار اہم ہوگا ۔ رِیاست کے متعدد کانگریسی اراکین اسمبلی نے سونیا گاندھی سے ملاقات کی اورانھوں نے سونیا گاندھی سے کہا کہ مہاراشٹر کا فیصلہ مہاراشٹر پر ہی چھوڑا جائے ۔ مہاراشٹر میں ایک ہی صدا گونج رہی ہے کہ کچھ بھی ہوا تو دوبارہ بی جے پی کا وزیراعلیٰ نہیں ہونا چاہئے ۔ کیونکہ سبھی چاہتے ہیں کہ انتقام ، ٹانگ کھینچنے اور غلامی کی سیاست کو ختم کیا جا نا چاہیئے ۔ پانچ برسوں تک دوسروں کوخوفزدہ کرکے حکومت کرنے والے افراد آج خود ہی دہشت زدہ ہیں ۔ یہ متحدہ محاذ کا پلٹ وار ہے کہ خوفزدہ کر نے کے باوجود بھی بی جے پی کو راستہ نظر نہیں آرہا ہے اور حمایت بھی حاصل نہیں ہورہی ہے ۔ جب ایسا ہوتا ہے تب اس بات کو مان لینا چاہیئے کہ ہٹلر کی موت ہوگئی ہے اور غلامی کا سایہ دور ہوا ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاتا ہے کہ پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کو اس کے بعد بے خوف و خطر ہوکر کام کرنا چاہیئے!

[email protected]    Mob:9029449982

Leave A Reply

Your email address will not be published.