صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

بابری مسجد معاملہ میں ہندو فریق کے وکلا نے نئے سوال اٹھا کر مقدمہ کو الجھانے کی کوشش کی

75,548

نئی دہلی : آج بحث کا 39 واں دن تھا ۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی کی عدالت میں پانچ رکنی بنچ کے سامنے ہندو فریقوں نے اپنی جوابی بحث کی ۔ سب سے پہلے سینئر ایڈوکیٹ پاراسرن نے مسلم ٹائٹل سوٹ پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کا جو کیس ہے وہ ٹائم کے بعد داخل کیا گیا تھا لہذا وہ Time bar ہوچکا ہےاور اس بناء پر اس پر دفعہ 120، 142 اور 144 نافذ نہیں ہوںگی ۔ یہ کیس پوری طرح سے Time bar ہے ۔ اگر کوئی ریلیف مل سکتا ہے تو دفعہ 6 کی روسے مل سکتا ہے ۔ جس میں صرف 6 مہینے کی مدت ہوتی ہے ۔
انہوں نے آگے کہا کہ مسلمانوں نے اپنی درخواست میں جو چیزیں مانگی ہیں کیا وہ ایک دوسرے سے متضاد نہیں ہیں ۔ مسلمان ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ وہ اس جگہ کے مالک ہیں اور دوسری طرف یہ کہتے ہیں ان کا قبضہ مخالفانہ ہے ۔ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی متضاد ہیں اور اس بنیاد پر یہ سوٹ بے معنی اور مسترد ہوجاتا ہے ۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیودھون نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ پاراسرن ایک نئی بحث کا آغاز کررہے ہیں جو نہ کبھی ہائی کورٹ کے سامنے آئی تھی اور نہ سپریم کورٹ کے سامنے ۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر مسلمانوں کو بھی اپنا کیس دوبارہ ترتیب دینے کا موقع ملنا چاہئے ۔
قانونی نکات کے اعتبار سے جسٹس چندرچوڑ نے ایڈووکیٹ پاراسرن کی بحث پر کئی سوال اٹھائے ۔ جسٹس بوبڑے نے بھی کئی مرتبہ پاراسرن سے دریافت کیا کہ اس نئی بحث کو اٹھانے کا آپ کا مقصد کیا ہے ۔ جتنی یہ بحث مسلمانوں کے خلاف جاتی ہے ، قانون کی رو سے اس سے کہیں زیادہ سوٹ 5 کے خلاف جاتی ہے ۔
custodia legisکے نقطہ پر بحث کرتے ہوئے پاراسرن نے کہا کہ مجسٹریٹ کا قبضہ اصل مالک کی طرف سے ہوتا ہے ، لہذا مسلمان قبضہ نہیں مانگ سکتے ۔ جس پر ڈاکٹر راجیو دھون نے اعتراض ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کا قبضہ ختم کرکے مجسٹریٹ نے ہندوئوں کو قبضہ دے دیا تھا اور وہاں پوجا کی اجازت دے دی تھی ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ Custodia Legis کا بنیادی اصول پوری طرح سے ناپید ہوگیا ۔
جسٹس بوبڑے اور جسٹس عبدالنظیر نے ایڈوکیٹ پاراسرن سے سوٹ 4 کے متعلق یہ بھی پوچھا کہ کیا مسلمان کا قبضہ مخالفانہ اور آپ کے خلاف حق مالکانہ نہیں مانگ سکتے ۔ کیوں کہ آپ بھی اپنا حق مالکانہ ثابت نہیں کرپائے ۔ ایویڈینس ایکٹ (Evidence Act.)کی دفعہ 110 کی رو سے یہ ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی کہ آپ ثابت کریں کہ آپ کے پاس مالکانہ حق کی بہتر دلیل موجود ہے ۔
کھانے کے وقفہ کے بعد سینئر ایڈوکیٹ ویدناتھن نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں نے وقف بائی یوزر یعنی (استعمال کے اعتبار سے وقف) کی بات پہلی بار سپریم کورٹ میں کہی ہے ۔ ہائی کورٹ کے سامنے اس طرح کا نہ کوئی ایشو تھا اور نہ یہ دلیل دی گئی تھی ۔ جس پر جسٹس چندر چوڑ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ میں سے ایشو نمبر 1BCکی طرف ان کا دھیان دلاتے ہوئے کہا کہ آپ غلطی کررہے ہیں ۔ یہ ایشو ہائی کورٹ کے سامنے موجود تھا ، جس پر دلائل بھی دیئے گئے تھے اور تینوں ججز نے اس پر اپنی رائے کا اظہار بھی کیا تھا اور ویدناتھن کو کہا کہ آپ مسلمانوں کی طرف سے دی گئی نوٹ میں جو خلاصہ ہے اسے ان کی دلیل سمجھ کر پڑھ رہے ہیں جبکہ اصل میں مسلمانوں نے ان سب ہی باتوں کو سپریم کورٹ کے سامنے اپنی اپیلوں میں چیلنج کیا ہے ۔ جس پر سی ایس ویدناتھن نے کہا کہ مسلم فریق یہ ثابت نہیں کرسکا کہ یہ وقف بابر سے منسوب ہے ۔

سی ایس ویدناتھن نے 1860کی گرانٹ کو دکھاتے ہوئے کہا کہ اس کا ترجمہ غلط کیا گیا جس پر چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہا کہ ترجمہ کے معمولی فرق پر آپ کوئی بڑی بحث نہیں کرسکتے ، اس کو یہیں چھوڑ کر آگے بڑھئے ۔ اس کے بعد سی ایس ویدناتھن نے گرانٹ میں جن معافی داروں کے نام تھے ان کو لے کر یہ اعتراض کیا کہ اس سے نماز کا ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ جس پر جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ یہ صرف گرانٹ کی سند ہے اور اس میں گرانٹ کا مقصد بیان کیا گیا ہے جو کہ مسجد اور اس کی دیکھ بھال سے متعلق ہے ، اس میں نماز کا ذکر کیسے آئے گا ۔ البتہ یہ ضرور مسجد کے دیکھ بھال سے متعلق ہدایات کو ثابت کرتا ہے ۔
آج کی بحث کے دوران ڈاکٹر دھون کے علاوہ مسلم پرسنل بورڈ کی سینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑہ اور بورڈ کے سیکریٹری سینئر ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی بھی موجود تھے ۔ اسی طرح بورڈ کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کے طور پر ایڈوکیٹ شکیل احمد سید، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ ارشاد احمد اور ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی بھی موجود رہے ان کے علاوہ ان کے جونیئر وکلاء بھی موجود تھے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.