صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

مشہور شاعر اور انقلاب کے قطعہ نگار اِرتضیٰ نشاط انتقال کرگئے

67,040

ایم ایم ویلی قبرستان (کوسہ) میں سپرد خاک کیا گیا،ریت کی رسی اور تکذبان جیسے شعری مجموعوں کے خالق اور انقلاب کےالف نون کے انتقال سے ادبی فضا سوگوار

وسیع التجربہ صحافی، کہنہ مشق شاعر اور انقلاب کے قطعہ نگار ارتضیٰ نشاط منگل کی شب رحلت فرماگئے۔ انتقال کے وقت اُن کی عمر ۸۵؍ سال تھی۔

ریت کی رسی، تکذبان، کہرام اور واقعی جیسے شعری مجموعوں کے خالق ارتضیٰ نشاط کا تعلق اُتر پردیش کے مردم خیز شہر بدایوں سے تھا۔ اُن کے والد شاہد بدایونی ممتاز شعراء میں شمار کئے جاتے تھے۔ ارتضیٰ نشاط کو تخلیق شعر کا فن وراثت میں ملا۔ ابتداء میں بی ای ایس ٹی میں ملازمت کی مگر اُن جیسے شاعر نے جزوقتی شاعر بننا پسند نہیں کیا چنانچہ ملازمت سے سبکدوشی اختیار کرلی اور شعر و ادب کی خدمت کو اپنا وطیرہ بنالیا۔ بعد ازاں روزنامہ انقلاب سے وابستہ ہوئے۔ یہ وقت وہ تھا جب انقلاب کی ادارت ظ انصاری صاحب کے ذمہ تھی۔ اُن کی جوہر شناس نظروں نے ارتضیٰ نشاط کی صلاحیتوں کو آنک لیا تھا لہٰذا انقلاب کے ادارتی عملے میں شمولیت کی خود دعوت دی۔ اس طرح وہ اِس اخبار سے کم و بیش بیس برس وابستہ رہے۔ اُنہوں نے ظ صاحب ہی کے اصرار پر انقلاب کیلئے روزانہ ایک ہزل لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور پھر روزانہ قطعہ اُن کی پہچان بن گیا۔ انقلاب کے جتنے قاری اُنہیں الف نون کے نام سے جانتے تھے، اُس سے کہیں زیادہ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ یہ الف نون ہے کون؟ارتضیٰ نشاط نے شعر گوئی کا سلسلہ تب شروع کیا جب ترقی پسندی کا سورج نصف النہار پر تھا مگر وہ کسی اور جہان کی سیر کرنا چاہتے تھے۔ روایت سے خوب خوب استفادہ کیا، جدیدیت کی راہ اپنائی اور اپنی غیر معمولی شعری صلاحیت سے بہتوں کو متاثر کیا۔ طبیعت کی بے نیازی مانع نہ ہوتی تو اُن کی شہرت اور مقبولیت کا اور ہی جلوہ ہوتا۔ اولین شعری مجموعہ کے ذریعہ ہی وہ اپنی دھاک جمانے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔

ارتضیٰ نشاط کو الوداع کہنے کیلئے ممبئی، ممبرا، نوی ممبئی ، بھیونڈی اور کئی دیگر علاقوں کے ادباء، شعراء، اُن کے متعلقین اور مداح بڑی تعداد میں جمع ہوئے تھے۔ ایم ایم ویلی قبرستان ،کوسہ میں اُنہیں سپرد خاک کیا گیا۔ پسماندگان میں چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ اُن کے کئی اشعار ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ شعر تو بہت مشہور ہوا:کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہےکچھ کرنہیں سکتے تو اُتر کیوں نہیں جاتے؟

Leave A Reply

Your email address will not be published.