عمر فراہی ۔ [email protected]
کوئی شخص اگر بھوکا ہے تو اسے اسی وقت تک روٹی دینا واجب ہے جب تک کہ وہ اپنی جان بچانے کیلئے روٹی اور رزق کی تلاش کرتے ہوئے ایک سماجی انقلاب میں ہاتھ بٹانے کے لائق نہ ہوجائے ۔ لیکن سماج میں کوئی جماعت اگر انصاف قائم کرنے یا اصلاح کی جدوجہد نہ کرے تو مستقل روٹی بانٹتے رہنا بھی بدعنوانی کو مزید فروغ دینا یا ایک بڑی آبادی کو ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج بنا دینے کے مترادف ہے ۔
سچ تو یہ ہے کہ انسانی سماج میں اگر انصاف قائم کردیا جائے تو امن و امان کے ماحول میں لوگ اپنا رزق خود تلاش کرلیں گے اور اس طرح ریاست بھی ترقی کے منازل طئے کرتے رہے گی ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی دو سالہ حکمرانی ایک ایسی مثال ہے جب ریاست میں کوئی شخص زکوۃ لینے والا بھی نہیں تھا ۔ معاشی کشادگی کے حالات یہاں تک بہتر ہوئے کہ برف باری کے موقع پر عمر بن عبدالعزیز نے برفیلے پہاڑوں پر دانے چھڑکنے کا بندوبست کیا تاکہ چڑیاں بھوک سے نہ مرنے پائیں ۔ یہ معاشی کشادگی کیوں آئی اس پر غور کرنےکی ضرورت ہے ۔ ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ ارباب اقتدار نے ٹیکس کی شکل میں رعایا کی ساری دولت اپنے ذاتی عیش وآرام ملبوسات اور محلات کی زیب و آرائش پر خرچ کیا ہے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز بذات خود ایک حکمراں خاندان کے خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن خلیفہ بنتے ہی انہوں نے اپنی ساری دولت بیت المال میں جمع کروا دی ۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار عید کے موقع پر ان کے بچوں کے پاس پہننے کیلئے نئے کپڑے بھی نہیں تھے اور انہوں نے پرانے کپڑوں میں عید کی نماز ادا کی ۔
آج ایک بار پھر دنیا کی اصلاحی تحریکیں اور ان کی جدوجہد سیاسی جبر کی زد میں مجبور اور ناکام ہیں اور عالمی استعماری طاقتیں ایک بار پھر فرعونوں نمرودوں اور شدادوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوامی ٹیکس کا ایک بہت بڑا حصہ جنگوں پر خرچ کررہی ہیں ۔ دوسرا بڑا حصہ سیاستدانوں کے قبضے میں ہے ۔ یقین نہ آئے تو دنیا کے حکمرانوں کے ذاتی اخراجات رہن سہن اور جائداد کو دیکھ لیں شاید اپنے وقت کے راجہ مہاراجہ بھی اتنے عیاش نہ رہے ہوں ۔عوامی ٹیکس کا ایک تیسرا سب سے بڑا سرمایہ ملک کے تاجر سرمایہ دار جنھیں کبھی مہاجن اور ساہوکار بھی کہا جاتا تھا جو اب کارپوریٹ صنعت میں تبدیل ہوچکے ہیں ان کے قبضے میں جاچکا ہے جو انہوں نے رشوت کے ذریعے قانونی طریقے سے کاروبار کے نام پر ہڑپ کر رکھا ہے ۔ مثال کے طورپر مختلف وزارتوں کی ترقیاتی پروجیکٹ کے جتنے بھی کنٹریکٹ ہیں وہ سیاسی اثر ورسوخ رکھنے والے ملک کے بڑے بڑے صنعت کاروں کو ہی ملتے ہیں رافیل اسکینڈل اس کی تازہ مثال ہے ۔ اس کے علاوہ تابوت گھوٹالا سے لیکر سیٹالائٹ کوئلہ کمیونی کیشن چارہ تاج کوری ڈور گھوٹالے وغیرہ میں عوامی ٹیکس کا تقریباً پچھتر فیصد سرمایہ رشوت اور بدعنوانی کی شکل میں سرکاری خزانے سے باہر ہوجاتا ہے ۔ سرکاری خزانے کا یہی سرمایہ حکومتیں اگر عوام پر خرچ کریں تو یقیناً حکومت کی طرف سے نہ صرف ہر شہری کو طبی سہولیات انصاف کی حصولیابی اور تعلیم مفت مل سکتی ہے اگر حقیقی انصاف قائم ہوجائے تو ہر شخص اپنا رزق خود تلاش کرلے اور جو معذور ہیں انہیں سرکاری خزانے سے امداد فراہم کرنا بھی مشکل نہیں ہے ۔ یہ بات دنیا کے حکمراں طبقات اور سرمایہ داروں کو بھی پتہ ہے شاید اسی لیے اس بدعنوانی کے خلاف دنیا میں کہیں بھی ایسا کوئی بھی صالح عوامی سیاسی انقلاب چاہے الیکش کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو کامیاب ہونا چاہتا ہے تو سب سے پہلے سیاسی بدعنوانی میں غرق عالمی استعماروں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور یہ لوگ خود ایسے ممالک میں منتخبہ حکومتوں کے خلاف فوجی بغاوت کروانے کی کوشس کرتے ہیں ۔
ہمیں یہ نشا ندہی کرنے کی ضرورت نہیں کہ ایسا کہاں نہیں ہوا کس نے کیا اور کون ان کے ساتھ رہے ؟
ممکن ہے کہ ایسا دنیا کے ہر ملک میں نہ ہوتا ہو اور ہم ابھی ایسے ماحول یا ایسی کسی فاشسٹ ریاست اور حکومت کے دور سے نہ گزر رہے ہوں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری ابھی وہ اوقات ہی نہ ہو کہ ہماری آواز ایوان حکومت میں زلزلہ پیدا کرسکے ۔ مگر ہم نے دیکھا ہے کہ جن کی آوازیں عوام پر اثر انداز ہوئیں اور وہ ایوان سیاست تک فاشسٹ تحریکوں کیلئے ذرہ برابر بھی رکاوٹ بنے یا خطرہ پیدا کرسکے تو انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا یا کچھ ممالک میں ایسی شخصیات کو ملک بدر ہونا پڑا ۔ حال میں ترکی کے اندر سعودی سفارتخانے میں جمال خاشقجی جنھوں نے سعودی حکمرانوں کے خوف سے امریکہ میں پناہ لے رکھی تھی ان کا قتل اسی سیاسی جبر اور بدعنوانی سے تعلق رکھتا ہے اور اب ان کا پورا خاندان مملکت سعود سے امریکہ ہجرت کرچکا ہے ۔
تقریباً ایک سال یا مہینہ پہلے برطانیہ کے اندر روس کی خفیہ ایجنسی کے ایک سابق افسر اور ان کی بیٹی پر روسی ایجنسیوں نے جو حملہ کیا وہ اسی وجہ سے تھا کہ اس افسر نے روسی صدر پوتین کے سخت گیر رویے سے نالاں ہوکر برطانیہ میں پناہ لے رکھی تھی ۔ یہ بات ہم اس لیے کہہ رہےہیں کہ ہم ابھی کچھ ممالک میں ایسے ظالم حکمرانوں کا نام لینےکیلئے اتنے مجبور تو نہیں ہیں لیکن وہ دن دور نہیں جب کسی بھی ملک میں کسی بھی ظالم حکمراں کو ظالم کہنا بھی محال ہو سکتا ہے ۔ حدیث ہے کہ ظالم حکمراں کے سامنے حق بات کہنا افضل جہاد ہے ۔ افضل جہاد اس لیے کہا گیا ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والے کبھی زندہ نہیں رہتے ۔ ہندوستان میں ہیمنت کرکرے جسٹس لویا شاہد اعظمی اور اس کے بعد دابھولکر کلبرگی اور بنگلور کی ایک خاتون جرنلسٹ گوری لنکیش کو اسی جرآت کی سزا ملی ۔ اس کے علاوہ کتنے نوجوان جھوٹے مقدمات میں سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ کچھ مسلم ممالک میں تو لوگ اپنے حکمرانوں سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ بھائی بھائی کے سامنے اپنے حاکم کے خلاف کوئی بات اس لیے کہنے سے ڈرتا ہے کہ کہیں اس کا بھائی خود حکومت کا جاسوس نہ ہو ۔ مشہور ہے کہ ان ممالک میں عوام پر وہاں کے حکمراں خاندان کی اتنی دہشت قائم ہے کہ منھ کھولنے والے کو اس طرح سے غائب کردیا جاتا ہے کہ پھر وہ اپنے عزیز و اقارب سے حشر کے میدان میں ہی مل سکتا ہے ۔