عمر فراہی
قرآن میں تقویٰ کے تعلق سے بے شمار آیات نازل ہوئی ہیں اور اسلام میں تقویٰ جسم کے اندر ایک ایسے روحانی لباس کی طرح ہے جس کے بغیر انسان زندہ تو رہ سکتا ہے لیکن ایسے انسانوں سے انسانیت کے اصل تقاضے کی تکمیل ممکن نہیں ہوسکتی ۔ قرآن کی ایک آیت ہے ’’بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے‘‘
قرآن کی دوسری آیت جو روزے کے تعلق سے نازل ہوئی ہے ’’ اے ایمان والو تمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کئے گئے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو‘‘۔
اس کے اثرات تو رمضان کے مہینہ کے بعد ہی دیکھنے کو ملیں گے کہ مسلمانوں کے اندر اس مقدس مہینہ کے روزوں سے کیا تبدیلی پیدا ہوئی لیکن تقویٰ کا کیا اثر ہوتا ہے اس کا مشاہدہ میں نے یوپی کے ایک قصبہ مئو کے عالم دین مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی کی دہلیز پر دور دیہاتوں سے دعا کیلئے آئے ہوئے لوگوں کی قطار اور بھیڑ سے دیکھا ۔ ویسے کسی کے آستانے اور دہلیز پر جمع ہونے والی بھیڑ اس کے متقی اور پرہیزگار ہونے کا پیمانہ بھی نہیں ہوتا جبکہ بھیڑ تو آشا رام باپو نرمل بابا اور خود کو بھگوان کہنے والے رجنیش بابا رام رحیم گُرمیت سنگھ اور طرح طرح کے ڈھونگی باباؤں کے آشرموں میں بھی ہوتی ہے اور رھی ہے ۔ کسی شخصیت کے تقویٰ اور پرہیز گاری کو اس کے رزق کےحصول اس کے رہن سہن اخراجات اور لوگوں سے معاملات میں پرکھا جاتاہے نہ کہ اس کے وعظ و نصیحت کی چاشنی اور ظاہری لباس اور حلیے کی رنگت سے ، جیسا کہ آج کل مسلمانوں میں بھی تبلیغ اور وعظ و نصیحت کو بھی ایک پیشہ بنا لیا گیا ہے اور کچھ مبلغوں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب تشہیر کی جاتی ہے اور لوگ اسے سن کر ثواب دارین حاصل کرتےہیں ۔ یہ انبیاء کرام کا طریقہ بالکل نہیں ہے ۔ اوپر ہم نے جتنے غیر مسلم باباؤں کا تذکرہ کیا ہے یہ لوگ کروڑوں کی گاڑیوں سے چلنے والے پاکھنڈی ہیں عام زندگی کے معاملات میں ان کا کوئی کردار ہی نہیں ہوتا ۔ جہاں تک ان کے جائز و ناجائز رزق کے حصول کا معاملہ ہے وہ ہمارے سامنے ہے ۔ اگر ایسا ہی پیشہ وارانہ طریقہ مسلمانوں میں سے بھی کوئی اختیار کرتا ہے تو یہ اسلام نہیں ہے ۔ مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی کے تعلق سے مشہور ہے کہ قصبے کے امیر ترین لوگوں کی خواہش کے باوجود وہ کسی کی دعوت کو اس وقت تک قبول نہیں کرتے تھے جب تک کہ انہیں اس کی تجارت کے حلال ہونے کی تصدیق نہ ہوجائے ۔ اکثر وہ اپنے مدرسے کی تعمیر کرنے والے غریب راجگیر کی دعوت اس لیے قبول کرلیتے تھے کہ اسے اپنے غریب ہونے کا احساس نہ ہواور خود اس راجگیر کے گھر کے اخراجات تعمیر مدرسہ کی آمدنی سے ہی پورا ہوتا تھا ۔ آپ میں سے اکثر لوگوں نے اور بھی بہت سے متقی اور پرہیزگار علمائے دین میں بھی ایسی صفات کا مشاہدہ کیا ہوگا لیکن حرام رزق کس طرح آدمی کو تباہ کرتا ہے میں نے اپنی زندگی میں ایسے بھی بے شمار واقعات دیکھے ہیں جسے اگر لکھ دیا جائے تو ایک مکمل دستاویز تیار ہوسکتا ہے ۔ ایک قصہ ابھی صرف کچھہ مہینے قبل کا ہے ۔ ایک مسجد کے ٹرسٹی کا انتقال ہوگیا میت ابھی ہاسپٹل میں ہی پڑی تھی کہ اس کے بھتیجوں نے سرگوشیاں کرنا شروع کردی کہ اچھا ہوا مرگیا اب دیکھتے ہیں کہ اس کے لونڈے ہمارا حصہ کیسے نہیں دیتےہیں ۔
دوسرے دن اتفاق سے اسی کمپاؤنڈ کے غیر مسلم دھنی سے ہماری ملاقات ہوئی کہنے لگا کہ اس نے بٹوارے میں اپنے بھائیوں سے بے ایمانی کی تھی ۔ اس کے بھائی کے بچے کہہ رہے تھے کہ چاچا تمہارے پاس جو پچاس لاکھ کی زمین ہے وہ تم اپنے پاس رکھو لیکن ہمیں تین تین لاکھ دے دو تاکہ ہم لوگ گاڑی خرید کر اپنے کھانے کمانے کا بندوبست کرلیں مگر اس نے جواب دیا کہ میں تمہیں ایک پیسہ بھی نہیں دونگا تم لوگوں کو جو کرنا ہو کر لو ۔ لیکن آج اس کے ہارٹ ٹرانسپلانٹیشن میں ساٹھ لاکھ روپئے خرچ ہوگئے اور وہ زندہ بھی نہیں رہا اور اسپتال والے بھی ابھی تک میت اس لیے نہیں دے رہے ہیں کہ ساٹھ لاکھ میں سے پندرہ لاکھ دینا باقی ہے ۔
کسی نے ایک بار لکھا تھا کہ حرام رزق اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے ۔ حرام کھانے والوں کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے بہت سے شہر اور قصبات میں ایسے علماء نظر آجاتے تھے اور مسجدوں کے سامنے بھی دعا کیلئے ہندو مسلمان سبھی کی قطار لگی رہتی تھی اور لوگ اتنا کثرت سے بڑی اور بُری بیماریوں میں بھی نہیں مبتلا ہوتے تھے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چودھویں صدی ہجری کے ختم ہوتے ہی جب سے انسانوں کے ذہن و اعصاب پر مادیت کا حملہ ہوا ہے نہ صرف علمائے دین کی اکثریت اس لعنت میں غرق ہوچکی ہے بلکہ عام لوگوں میں بھی حرام حلال کی تمیز نہ ہونے کی وجہ سے دعاؤں کا اثر جاتا رہا ہے ۔ اس کے برعکس سچائی یہ بھی ہے کہ دین کی تبلیغ میں ، مسجدوں مدرسوں کی تعمیر میں ، مصلیوں اور علمائے دین کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔ دعاؤں میں اثر بھی کیسے ہو مسجدوں اور مدرسوں کی تعمیر کیلئے بھی حرام و حلال کی تمیز باقی نہیں رہی ۔ رمضان کے مہینہ میں چندہ وصولنے والوں میں کمیشن خور مولویوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔ اکثر مولویوں نے ایمانداری کے ساتھ اعتراف کیا ہے کہ چندے کی رقومات میں اضافے کیلئے وہ قرآن کی تلاوت اور تراویح کی نماز سے بھی محروم ہوجاتے ہیں ۔ یعنی جب سے مسلمانوں نے حرام حلال کی تمیز کو ترک کردیا اللہ نے بھی ہماری طرف سے توجہ ہٹا لی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے درمیان نہ تو اب ایسے علمائے دین ہی رہے جن کی دعاؤں میں اثر ہو اور نہ ہی عوام کو ہی علمائے جدید پر اعتبار رہا ۔ افسوس غیروں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد توکلة علی اللہ سے دور انشورنس کی میڈی کلیم کمپنیوں اور اسپتالوں کے سامنے قطار لگانے کیلئے مجبور ہے ۔ مگر کیا کیا جائے جس اللہ نے اپنی کتاب میں کہا تھا دوڑو اپنے رب کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت زمین و آسمان سے بھی وسیع ہے ۔ موجودہ مادہ پرستانہ ماحول میں وہ چاہے عالم ہوں پنڈت ہوں ڈاکٹر ہوں انجینئر ہوں یا ماہرین معاشیات اور مزدور سب نام و نمود شہرت اور برانڈ کی طرف دوڑ رہے ہیں ۔ لوگوں نے اپنی لالچ اور اخراجات کا اس طرح پہاڑ کھڑا کرلیا ہے کہ اب اسے اپنی آمدنی اور رزق میں حرام حلال کی تمیز کا بھی احساس نہیں رہا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماحول کو بدلنے کیلئے معاشرے کی تربیت لازمی ہے اور معاشرے کی تربیت افراد سازی اور تنظیمی ڈھانچے کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ مشکل یہ ھے کہ مساجد و مدارس میں تو ڈیڑھ اینٹ کی خلافت قائم ہی ہے دعوت و تبلیغ میں مصروف علما کی اپنی تبلیغ اور تحریک بھی وعظ و نصیحت پمفلٹ بانٹنے اور فتوے کی دکان سے آگے بڑھ کر تنظیمی سطح پر انسانوں کی فلاح و بہبود اور مسائل کے حل کی عملی کوشس کیلئے تیار نہیں ہے ۔ یاد رہے انسان فطرتاً لالچی واقع ہوا ہے وعظ و نصیحت اور تبلیغ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن جس تحریک اور عمل سے انسانوں کو عملاً راحت پہنچےوہی لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتی ہے چاھے وہ آپ کی دعا ہی کیوں نہ ہو ۔ مگر ہم مسلمانوں کی دعا میں بھی اب وہ اثر کہاں رہا جو دوسروں کو فائدہ پہنچا سکے ۔ پھر ہم وما علینا الا البلاغ کا شور مچا کر لوگوں تک پہنچا کیا رہے ہیں ؟
جس ذرائع اور وسائل سے جو چیز پہنچائی جارہی ہے اس کے اپنے کردار اور عزم کی مضبوطی کیا ہے ؟
یاد رہے نشانے باز کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو اس کے بندوق کی گولی بھی کیوں نہ اصلی ہو اگر اس گولی کو اس کے مقام اور دوری تک پہنچانے والا ہتھیار ناکارہ ہے تو وہی بندوق کی گولی یا بلیٹ بیک فائر بھی ہوسکتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ نہ صرف آپ اپنے مقصد میں ناکام ہونگے بلکہ یہ ہتھیار خود آپ کی اپنی تباہی کا سبب بن سکتا ہے ۔ قرآن شاید انہیں حالات میں انسانوں کو تنبیہ کرتا ہے ’وانفقو فی سبیل اللہ ولا تلقو بایدیکم الی التھلکة ، واحسنوا ان اللہ یحب المحسنین‘ ۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو تباہ نہ کرو ۔ اور احسان کرو اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔
umarfarrahi@gmail.com