صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

امریکی انٹیلی جنس نے جمال خاشقجی کے قتل کا الزام سعودی ولی عہد پر عائد کیا

15,658

واشنگٹن : امریکہ نے وہ ڈی کلاسیفائیڈ انٹیلی جنس رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ سعودی عرب کے انتہائی طاقتور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی جمال خاشقجی کے ترکی میں سعودی قونصل خانے میں قتل کی منظوری دی تھی۔

اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ایسا ہونا قطعی ناممکن ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کی منظوری کے بغیر یہ کارروائی کی گئی ہو۔

جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں دو اکتوبر 2018 کو قتل کیا گیا تھا۔ قتل کے بعد ان کی لاش کو غائب کر دیا گیا تھا۔ جب کہ ان کی باقیات آج تک نہیں مل سکی ہیں۔ بعد ازاں سعودی عرب نے تسلیم کیا تھا کہ جمال خاشقجی ایک آپریشن میں غلطی سے قتل ہو گئے تھے۔ تاہم ریاض نے اس بات کی تردید کی تھی کہ اس میں کسی بھی طرح محمد بن سلمان ملوث تھے۔

محمد بن سلمان کا نام خاشقجی کے قتل میں دسمبر 2018 میں سامنے آنا شروع ہوا تھا۔ وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن سعودی عرب سے امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ صدر جو بائیڈن واضح کر چکے ہیں کہ تعلقات امریکی اقدار کے آئینہ دار ہونا ضروری ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اور یہ بھی بالکل واضح رہنا چاہیے کہ سعودی عرب کی جانب سے بیرون ملک موجود انسانی حقوق کے کارکنوں، اختلافِ رائے رکھنے والے افراد اور صحافیوں کے لیے خطرہ اور حملے لازمی طور پر ختم ہونے چاہئیں۔

سعودی عرب نے امریکہ میں جاری ہونے والی اس رپورٹ کو قطعی طور پر مسترد کر دیا ہے۔ سعودی وزارتِ خارجہ نے اس رپورٹ کو ‘منفی، جھوٹ اور ناقابلِ قبول’ قرار دیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے مطابق اس رپورٹ میں غلط معلومات اور نتائج درج ہیں۔

جمال خاشقجی سعودی عرب کے شہری تھے جب کہ ان کو امریکہ میں قانونی طور پر رہنے کی اجازت تھی۔ وہ امریکہ کے اخبار ‘واشنگٹن پوسٹ’ میں کالم لکھتے تھے۔ جن میں عمومی طور پر سعودی ولی عہد پر تنقید بھی شامل ہوتی تھی۔ ان کے چار بچے ہیں۔

جمعے کو جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کو، جو ان کی آمرانہ طرز حکمرانی کے ناقد تھے، گرفتار کرنے یا ہلاک کرنے کے لیے ممکنہ طور پر ایک آپریشن کی منظوری دی تھی۔ اس رپورٹ کے اجرا کے بعد ممکنہ پر سعودی عرب کے 76 شہریوں پر امریکہ میں داخل ہونے کے لیے ویزہ پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔

امریکہ کی وزارتِ خزانہ نے پہلے ہی سعودی عرب کے جنرل انٹیلی جنس اور ریپیڈ انٹروینشن فورس کے سابق نائب سربراہ محمد العسیری پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان پر پابندیاں صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے تعلق ہونے کے باعث عائد کی گئی ہیں۔

اس حوالے سے وزیرِ خزانہ جینٹ یالین کا کہنا تھا کہ امریکہ تشدد اور دہشت کے خلاف صحافیوں اور سیاسی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ آزادیٔ اظہار رائے کا دفاع جاری رکھے گا جو کہ ایک آزاد معاشرے کا بنیادی جز ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جس پر مقتول صحافی جمال خاشقجی کی 2018 میں بنائی گئی انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ‘ڈان’ نے تنقید کی ہے۔

ڈان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ لیہ ویٹسن کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن نے جمال خاشقجی کے قتل میں احتساب کا جو وعدہ کیا تھا تو اگر اس کے مطابق چلیں تو محمد بن سلمان پر پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔

جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے جاری ہونے والی رپورٹ پر امریکہ کی ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس ارویل ہینس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ رپورٹ انٹیلی جنس کمیونٹی کی معاونت سے بنائی گئی ہے۔ جب کہ معلومات کو کافی حد تک سامنے لایا گیا ہے۔ البتہ انٹیلی جنس کے اہم ترین ذرائع اور معلومات جمع کرنے کے طریقۂ کار کو مخفی رکھا گیا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.