مسلم اور مراٹھا ریزرویش
عبدالمقیت ، بھوکر
مسلم ریزرویشن اور اس کی مانگ کا مسئلہ بھی عجیب ہے ۔ جب اسے سمجھنے اور اسکی ضرروت و افادیت سے زیادہ اس کے امکانات کی جانب توجہ دیتے ہیں توعجیب لگتا ہے ۔ اسے سمجھنا اور سمجھانا دونوں ایسے ہیں جس پر سمجھنے کا نہ سمجھانے کا محاورہ صادر آتا ہے۔ آزادی ، دستور سازی ، اس کے بعد فلاحی ریاست کاقیام کی جانب گامزن رہنے کا عزم ، پھر اس عزم کو درمیان میں چھوڑ کر ترقی یافتہ ریاست بننے کی خواہش ، غرض آزادی کے 70 سال بعد سے آج تک ہم لوگ صرف ادھوری دوڑ میں ہی مصروف رہے۔ ہر ادھوری دوڑ نے قدیم ان سلجھے مسائل کے ساتھ ساتھ نئے مسائل دیے۔ اب مسائل اتنے ہیں کہ انھیں سمجھنا اور ان کی درجہ بندی کر نا بھی کئی مسائل پیدا کردیتا ہے۔ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں مسائل اب بھی بڑھ ہی رہے ہیں ۔کمزور طبقات کو جس تیزی سے ترقی کرنی چاہے تھی وہ تو نہ ہوسکا مزید کمزور طبقات پیدا ہوچکے ہیں۔ دستور ساز اسمبلی نے کمزور طبقات کو قوی بنانے کے لیے دستور میں اہم نکات اور ریزرویشن جیسی سہولیات کو شامل کیا مگر یہ سہولیات کمزور طبقہ کی ہمہ جہت ترقی کے بجائے لومڑی نما چالاک چند افراد کی حد تک اور انھیں ہی فائدہ حاصل کرنے کے قابل بنانے تک محدود رہے۔ غرض پسماندہ طبقات اور ان کے حالات میں کوئی خاص فرق نہ آیا۔ ان حالات سے فائدہ حاصل کر کے فسطائی طاقتیں متحدہ طور پر ایک عفریت بن کر سامنے آچکی ہیں۔ جس نے کئی نئے مسائل مزید پیدا کردیے۔ امت مسلمہ کا حال تو ناقابل بیان ہوچکا ہے۔ مسلم لیڈر ہونے کا دعوی کرنے والوں کا الزام ہے کہ آزادی کے بعد بننے والی حکومتوں نے مسلمانوں کو مزید پسماندہ کردیا ہے۔ فسطائی ذہنیت والوں کا دعوی ہے کہ آزادی کے بعد بننے والی حکومتو ں نے مسلمانوں کو سرپر بٹھا رکھا ہے۔ جب سچر کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی تو سمجھ نہیں آیا کہ رپورٹ مسلم لیڈران کو دلاسہ دینے کے لیے بنائی گئی کہ ہاں آپ کی بات سچ ہے مسلمان قومی دھارے سے تو بہت دور ہوچکے ہیں بلکہ اب تو دھارے کو چھوڑ کر پسماندگی میں منجمد ہوتے جارہے ہیں ’یا‘ فسطائی ذہن والوں کا بتلا دیا کہ یہ دیکھو سچر رپورٹ کیا کہتی ہے کہ ہم نے انھیں سرپر بٹھایا ہے یا اپنے قدموں تلے روند کر دبا کچلا بنادیا؟ اب اپنی اس پستی کا رونا لے کر مسلمان اپنے لیے مذہبی تشخص کی بنیاد پر تحفظات (ریزرویشن) مانگ رہے ہیں۔
مطالبے کی نوعیت:
مسلمانوں کا حال اب ان کسانوں کی مانند ہوچکا ہے جو ایک زمانے نہ صرف خودکفیل تھے بلکہ حکومت کے سب سے اہم ستون بھی تھے ۔ جیسا کہ قدیم زمانے میں کسان اپنے خاندان کے ساتھ اپنی ریاست کا پیٹ بھرتے تھے۔ انھیں اپنی عرق ریزی کے ساتھ اگائی ہوئی فصل کا ایک ریاست کو دیتے ۔ اگر وہ حصہ دینے میں ناکام ہوجاتے تو انھیںاپنی زمین سے ہاتھ دھونا پڑتا۔ کسان زمین کو بچانے کے لیے ہر ممکنہ محنت کرتے فصل کو پانی اور کھاد کے ساتھ اپنے خون پسینے سے سینچا کرتے۔ جب کبھی قحط یا باڑھ سے فصل نہ اگ پائی ہوتو حکام اس پر اتنی ہی رعایت کرتے کہ ان کے ذمہ واجب الادا فصل کا کچھ فیصد معاف کردیتے یا پھر اگلے سال تک اس کی تلافی کے لیے مہلت دے دیتے یہ مہلت کسان کے لیے آب حیات سے کم نہ ہوتی وہ ہر ممکنہ اقدام کرکے اپنی زمین بچانے میں کامیاب ہوجاتا۔ ملک کو آزادی ملی حکومتوں نے کسانوں کے مسئلے کو سلجھانے کا عزم کیا۔ مگر وہ عزم آج تک محض وعدہ ہی رہا۔ حکومت نے کسانوں کو مہاجنوں کے سود سے نجات دلانے کے لیے امداد باہمی ادارے ( سہہ کاری سوسائٹیز) کو فروغ دیا اس کے لیے عوام کو ابھارا گیا مگر یہ ادارے بھی دولت مندبارسوخ لوگوں کے ہاتھوں میں ہی رہے اور ان کی شکل میں نیا مہاجنی طبقہ وجود میں آگیا۔ حکومت نے کسانوں کو قرض معافی کی مرعات دینی شروع کی۔ غرض مراعات کی ان سوغاتوں نے کسانوں کو مزید اپاہج بنادیا اب حال یہ ہوچلا ہے کہ اگر قرض بڑھ جائے تو کسان اس سے نکلنے کی سوچ بھی نہیں پار ہے ہیں بلکہ اپنی جان دے کر زمین کو بچانے کی آخری کوشش کر نے پر مجبور ہیں۔ جو کل تک حکومت کا پیٹ بھرتے تھے آج اپنا پیٹ جان دے کر بھی بھر نہیں پارہے ہیں۔
امت مسلمہ ہند بھی اب ایسے ہی کسانوں کی طرح ہوچکی ہے۔ یہاں پر حکومتی مراعات کے نام پر کچھ رہنما دیگر پسماندہ طبقات کی طرح اہل اسلام کے لیے ریزرویشن کی مانگ کر رہے ہیں۔ اس میں وقتی کامیابی مہاراشٹر کے مسلمانوں کو ملی بھی تھی مگر 2014 فیصلے میں ممبئی ہائیکورٹ نے یہ کہہ کر دستور ہند میں اس طرح کے مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کا تصور نہیں ہے ،مسلم رریزرویشن کے دروازے مکمل بند کردیے گئے ہیں۔ رہا پسماندہ مسلم طبقے کے لیے ریزرویشن تو وہ بھارتی سماجی ساخت کی بنیادمختلف مسلم برادریوں کے لیے پہلے سے ہی موجود ہے۔
دشواری اور امکانات :
دستور ہند جو کہ ہمارے ملک کی سب اہم کتاب ہے۔اسے سمجھنا اور سمجھانا معمہ کا کھیل سلجھانے سے کم نہیں ۔ اس کی ہر دفعہ میں کئی پیچ و خم اور رجعت قہقرئی (یو ٹرن) موجود ہیں۔ جہاں دستور مختلف دفعات کو ہر شہری کا حق اور اس کا پابند بناتا ہے ۔ وہیں اس میں ایسے بہت سے راستے موجود ہیںکہ ہر کوئی اپنی حکمت عملی سے ان سے بچ کر بھی نکل سکتا ہے۔ دستورمیں موجود بنیادی حقوق کے متعلق دفعات 14 تا 16 میں اس بات کا تیقن دیا گیا ہے کہ ہر فرد ترقی کرنے اور اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کے لیے آزاد ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تحفظ کو یقینی بنائے۔ وہیں دفعہ 25 اور 26 میں مذہبی آزادی اور حقوق کے حصول کی متعلق یقین دہانی کرائی گئی۔ دفعہ 350 میںمادری زبان کا حق دیا گیا۔ ان دفعات کی مدد سے زبان ثقافت اور مذہبی رسوما ت کی ادائیگی کی آزادی کا حق حاصل تو ہے وہیں اسی دستور کی دفعہ 25 میں ہندوستانی سماجی میں مذہب کے نام پر صرف چار مذاہب ہندو، سِکھ ، بدھ اور جین مذاہب کو ہی ہندوستانی تسلیم کیا اور دیگر مذاہب کو یک سر فراموش کر کے آزادی مساوات کی دعویداری کو اپنے ہی ہاتھوں تابوت میں بند کردیا ۔
دستور کے چوتھے حصے میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ دستو ر کی نظر میں ہندوستانی سماج میں صرف دو ہی طبقے ہیں ایک مرد اور دوسرا عورت ، البتہ بچوں کو تیسر ا طبقہ تسلیم کیا ہے مگر آگے چل وہ بھی جنس کی بناء پرپہلے یا دوسرے میں ضم ہوجاتے ہیں۔ 44 کے تحت یہ فتنہ بھی دستو ر میں رکھ چھوڑا کہ ریاست تمام شہریوں کی یکساں ترقی کے لیے یکساں سول کوڈ بنائے۔ اس ایشوکو اٹھانے والے اسے مردو عورت کے برابر حقوق کے بارے میں نہ سمجھتے ہوئے تمام ہندوستانیوں کے لیے بشمول ہر مذہب و طبقہ کے لیے حکم تسلیم کرتے ہیں مگر یہی دستور حق مساوات کے نام پر مخصوص پسماندہ برادری کے علحدہ تشخص کے تحفظ کو کسی قسم کی تبدیلی کے زمرے میں آنے سے روک دیتا ہے ۔ غرض یہ معمہ گری ایسی ہے کہ اس کی تشریح کے لیے دستور ہند کا انسائکلو پیڈیا لکھنا پڑے گا۔ مسلم ریزرویشن کی اس میں کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ البتہ دفعہ 25 کا ذیلی نکتہ 5 کے تحت مذہبی آزادی کے نام پر یہاں کے شہری اپنے لیے فلاحی اداروں کا قیام کر سکتے ہیںاوریہی حقوق بہ حیثیت مذہبی اقلیت دفعہ 30 کے تحت بھی حاصل ہیں۔
مسلم ریزرویشن تحریک:
حکومت مہاراشٹر نے مراٹھا برداری کی مانگ قبول کرتے ہوئے انھیں 16 فیصد ریزرویشن منظور کیا ہے۔ تازہ خبر ہے کہ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف پہلے سے ہی ریزرویشن کی حامل طبقے کے افراد نے اسے غیر دستوری قراردیتے ہوئے حکومت کے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہے۔
اس فیصلے کو دیکھ کر مسلمانوں میں بھی پھر سے ریزرویشن کی مانگ کے جن نے اپنے پیر پھیلانے شروع کر دیے اور ہر جا مراٹھا اتحاد اور کاوشوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ یہ بحث کانوں کو بھلی بھی لگ رہی ہے مگر مراٹھا احتجاج اور تحریک پر نظر ڈالیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ مراٹھا تحریک مکمل غیر سیاسی تحریک رہی سیاستداں صرف اس کی تائید و حمایت تک ہی محدود رہے۔یہاں تک کہ ریاست بھر اور بیرون ممالک میں بھی جو ریلیز نکالی گئیں ان میں کسی بھی سیاستد اں کو اسٹیج یا انتظامات میں راست شامل نہیں کیا گیا۔یہ منظم تحریک اور اس کے ذمہ داران نے وقتی سیاستد انوں سے محفوظ دوری بنائے رکھی اور مکمل اس کے پیچھے لگے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر خواص و عوام نے اس کی تائید کی۔ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ سچر کمیشن اور اس پر بنی تحریکات سے لے کر نام نہاد مسلم ریزرویشن تحریکات تک سب میں کہیں گلی کے کونسلر کے لیے بھی نااہل افرادخود ساختہ لیڈر بنے پھرتے ہیںتوکہیں بڑے سمجھے جانے والے لیڈران اور ان کے فین ہی شامل ہیں۔ سنجیدہ اور باشعور طبقہ اس سے وقتی طورپر تو جڑ تا ہے مگر اس ایشو پر غور کر کے فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ مسئلہ نہ حل ہونے والا ہے نہ حل ہو سکتا ہے۔یہ تحریک اور شور شرابہ محض سیاسی مفاد کی خاطر یا اپنے بے قابو جذبات کے دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں۔
قیادت و شعور کے فقدان کی اہم مثال:
چند سال قبل مہاراشٹر میں گئو دہشت گردوں سے اپنے تحفظ کی خاطر قصاب برادری نے بڑا زبردست احتجاج درج کرایا۔ ساری ریاست کے لوگ بشمول مسلم ، قہر درویش برجان درویش کی مثل بڑے کا گوشت نہ ملنے کی وجہ سے پریشاں ہوگئے ، دسترخوان سے لذت ہی غائب ہوگئی، شادیوں میں جہاں کھانا کم پڑجانے کا ڈر تھا یہاں بچ جانے کا ڈر ستانے لگا۔اس کا اثرریاست کی دیگر عوام پر بھی ہوا ۔ ایک ہفتے سے کم کے عرصے میں وزیر اعلی نے ملاقات اور معاملے کو سلجھانے کی پیش کش کی ۔ جب ملاقات ہوئی تو قصائیوں کا کوئی قابل رہنما نہ تھا اور نہ ہی کسی قابل رہنما نے قصائی برادری کا لیڈر بننے کی کوشش کی ۔غرض ملاقات میں قصائی برادری کے رہمنائوں نے قصاب بے حساب کی مانند راست گائو کشی کی سرپرستی کے لیے وزیر اعلی کو باور کرانے کی اور اس ذریعے معاش اورقصائیوں کی جان و مال کی حفاظت کا مطالبہ کیا ۔ وزیر اعلی نے تحفظ کا یقین دلایا ۔ ابھی قصائی برادری کے لوگ اپنی جیت کی خوش خبری لیے گھر ہی پہنچے تھے کہ ان کے گھر کی ٹی وی پر مہاراشٹر میں گئوکشی قانون کے نفاذ کی خبریں چل رہی تھیں۔ کاش اس برادری کے رہنما وزیر اعلی کو اپنے پیشے کو بند کرنے کی تیاری کا تیقن دلاتے جسے حکومت نے قانوناً بزور بند کروایااور حکومت سے مطالبہ کرتے کہ ہند و قصائی کی طرح انھیں بھی درج فہرست ذات یا قبائل میں شامل کیا جائے تاکہ معاشی تحفظ کی امید برقراررہے ۔ یہ تحفظ مخصوص برادری کو حاصل ہوتا جس کے لیے کسی قسم کی دستوری رکاوٹ موجود نہیں۔
موجودہ قیادت کا حال نام نہاد سیاسی لیڈران و علماء:
ہند میں امت مسلمہ کے ذہن میں قیاد ت کا روایتی اور محدود تصور ہی موجود ہے۔ امت صرف سیاسی لیڈر کو ہی قائد تسلیم کرتی ہے ساتھ ہی جو لیڈر جتنا جذباتی بیان دے سکتا ہے اور منہ سے جتنے زیادہ شعلے اگل سکتا ہے بلا لحاظ اس کے کہ ان شعلو ں کی آگ میں کتنے مسلمان اور خود اس کے ہی فین جھلسیں گے ۔ وہی کامیاب ، ماہر اور مسلمانوں کا محبوب لیڈر بن سکتاہے۔ اس کا مشاہد آئے دن ہوتا رہتا ہے ۔
ہمارے فارغین مدارس جنھیں لوگ علماء کے خطاب سے نوازتے ہیں اور ان کی بے دلیل اور غیر مستند باتوں کو بھی سننا ثواب سمجھتے ہیں۔ وہ ہر جمعہ چند ے کی اپیل سے پہلے ہند کے مدارس کا نظام اور اس کے اخراجات کا حساب بتاتے ہیں جسے مجموعی طور پر دیکھیں تو سارے ملک میں تقریباً دس ہزار کروڑ سے زائد سالانہ سے بھی تجاوز کرسکتا ہے۔ اس کے باوجو د مساجد کے باہر یتیم و یسیرکا مجمع دست سوال پھیلائے کھڑا نظر آتا ہے ۔ یہ کسی المیہ سے کم نہیں ۔اس قدر سخی امت کی مسجد کے باہر دو دن کے بھوکے کا دعوی کرنے والے مسلم ہرشہر میں کسی نہ مسجد کے سامنے نظر آجاتے ہیں مگر کیا یہ منظر کسی بھی گردوارے کے باہر ممکن ہے کہ وہاں کسی بھی مذہب کا شخص یہ دعوی کرے کہ وہ ایک وقت کا بھی بھوکا ہے؟
جس امت کی ایک مسجد کی تعمیر بھی کروڑوں سے تجاوز کرجاتی ہے ۔ جہاں کے بجلی پانی اور انتظامات کا تخمینہ ہی سالانہ لاکھوں میں نکلتا ہے وہ امت اپنے آپ کو ریزرویشن کے لیے کیسے پیش کرسکتی ہے اور مانگ بھی کس سے رہی ہے ؟ مانوموسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے فرعون کے دربار میں جاکر اس سے کہہ رہے ہیں اے فرعون ہم تیرے ملک کے باسی ہیں ہماری مشکلیں حل کر، اے قارون تو ہمارے ہی برادری کا ہے ہمیں فنڈ دے ۔ اسے المیہ سمجھیں یا لطیفہ۔
پسماندگی سے نکلنے کی آخری راہ اور امید:
دستور ہند کے مطابق ریزرویشن مذہب کی بنیاد پر نہیں دیا جاسکتا۔ پسماندہ مسلم برادریوں کو ریزرویشن پہلے سے ہی حاصل ہے۔امت کو اپنا ملی شعور اور ملی مسائل کے تئیں بیداری حاصل کرنا چاہیے اور خود آگے بڑھ کر اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی ایک تنظیم یا تحریک کا ساتھ دینا چاہیے اور یہ تحریک کوئی سیا سی جماعت نہ ہو بلکہ وہ تحریک ہو جس کے کردار کی گواہی ملت خود دیتی ہو اور جس کے پاس ان مسائل سے نمٹنے کا بلیو پرنٹ بھی موجود ہو۔ ان کے پاس زکوۃ کااجتماعی نظام اور اسے خرچ کرنے کی منصوبہ بند مصارف بھی موجود ہو۔ اللہ کا شکر ہے ایسی تحریکات ہند میں موجود ہیں ۔ بس امت اس جانب جان بوجھ کر توجہ نہیں کرنا چاہتی کیوں کہ ان تحریکات کے قائدین نام نہاد مسلم لیڈران کی طرح شعلہ بیا ن اور جذبات کے کھلاڑی نہیں ہیں۔ اللہ ہمیں دیدہ بینا دے ۔ آمین
عبدالمقیت ، بھوکر
Mob. 9867368440