صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

مودی کی  عدم مقبولیت : آغاز تو اچھا ہے انجام خدا جانے

64,736

ڈاکٹر سلیم خان

وزیر اعظم کو سب سے زیادہ فکر اپنی مقبولیت کی ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ فی زمانہ  اقتدار کے کھیل کی کسوٹی کارکردگی کے بجائے دکھاوے کی حدتک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ اربابِ اقتدار اپنی ساکھ کا بھرم قائم رکھنے کی خاطر وقتاً فوقتاً سروے کروا کر عوام کو باور کراتے رہتے ہیں کہ اب بھی عوامی مقبولیت کی دوڑ میں وہی سب سے آگے ہیں۔ اگست 2020 کے اوائل میں مؤقر جریدے انڈیا ٹوڈے نے ایک جائزہ شائع کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ نریندر مودی کی مقبولیت کے آگے باقی تمام رہنما بونے ہیں لیکن اسی ماہ کے آخری تاریخ کو ان کے من کی بات پر ناظرین کی تعداد اور ناراضگی کے اوسط نے اس غبارے کی ہوا نکال دی۔ جائزوں کے سوالات کو خاص انداز میں مرتب کرنا اور مخصوص لوگوں سے پوچھنا ایک فن بن گیا ہے۔ اس میں حقائق کو پیش کرنے کی مہارت انہیں چھپانے کے بھی کام آتی  ہے۔  مثلاًاس جائزے کے ایک سوال میں نے یہ انکشاف کیا کہ ملک ۶۶ فیصد لوگ مودی کو دوبارہ وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں ۔ راہل گاندھی اور سونیاگاندھی کو کم تر دکھانے کے لیے یہ بتایا کیا گیا کہ ان کو تو بالترتیب ۸ اور ۵ فیصد لوگ ہی اگلے وزیر اعظم کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہندوستانی نظام سیاست چونکہ صدارتی نہیں بلکہ پارلیمانی ہے اس لیے یہ سوال کسی اہمیت کا حامل ہی نہیں ہے اس کے باوجود سروے سے خوش ہوکر خوشامدی صحافی شیکھر گپتا نے اعلان کردیا کہ اب مودی کو تو مودی ہی ہرا سکتا ہے۔

شیکھر گپتا جس مودی کو ناقابلِ تسخیر کہہ رہے ہیں ان کی مقبولیت کاپول من کی بات نے کھول دیا بعید نہیں کہ وہ جوش میں اعلان فرمادیں کہ مودی کو تو مودی ہی ڈسلائیک کرسکتا ہے لیکن جس طرح مودی ایک حلقۂ انتخاب میں دوبار ووٹ نہیں دے سکتے اسی طرح ایک یو ٹیوب چینل پر دو مرتبہ لائیک بھی نہیں کرسکتے ۔ ایسا کرنا اگر ممکن ہوتا تو بات ہی کیا ہوتی ؟ من کی بات کے بارے میں معروف ہندی شاعر سمپت سرل نے بڑی دلچسپ بات کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں انسان اگر اپنی بیوی سے دوری اختیار کرلے تو اسے زندگی بھر اپنے من کی بات ریڈیو پر سنانی پڑتی ہے۔ وزیر اعظم اسی مصیبت میں گرفتار ہیں  اس لیے بڑی یکسوئی کے ساتھ وہ گزشتہ ۶۸  مہینوں سے یہ کام کررہے ہیں۔ اس کے باوجود حیرت کی بات ہے کہ بی جے پی کے اپنے یوٹیوب چینل پر ۴۰ لاکھ سے زیاد ہ سبسکرائبرس ہونے کے باوجود ۲۳ گھنٹے بعد تک صرف گیارہ  لاکھ ۳۳ ہزار لوگوں نے مودی جی کے من کی بات جاننے کی کوشش کی۔ ان کی اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے ۲۸ لاکھ ۶۶ ہزار سبسکرائبر س دیگر کاموں مصروف رہے حالانکہ وزیر اعظم نے من کی بات سنانے کے لیے بڑی چالاکی سے اتوار کی چھٹی کے دن کا انتخاب کیا تھا تاکہ ملازمت وغیرہ کی رکاوٹ نہ ہو۔ اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ جو لوگ آئے ان میں  پسندیدگی کا اظہار کرنے والے صرف ۴۲ ہزار تھے اس کے برعکس  ناپسندیدگی کا بٹن دبانے والے ۳ لاکھ ۳۴ ہزار سے زیادہ ہیں ۔

اس فرق کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں مثلاً ملک کے طلباء اور ان کے سرپرست نیٹ اور جے ای ای کے بارے میں فکر مند ہیں۔ وہ سوچ رہے تھے وزیر اعظم کورونا کے سبب اس میں کسی راحت کا اعلان فرمائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ خیر اگر یہ امتحان زندگی اور موت کا سوال ہوگیا تھا تو اس میں کامیابی کے گر سکھاتے کہ جس طرح انتخابات میں فریب کاری کی جاتی ہے ویسا ہی کوئی حربہ یہاں بھی سجھا دیتے ۔ وزیر اعظم نے وہ بھی نہیں کیا۔ وہ تو امتحان کو بھول کر سیدھے تعطیلات کے موڈ میں چلے گئے۔ انہوں اول تو دیسی کھلونوں پر لمبا چوڑا پروچن سنایا اور  اس سے فارغ ہوئے تو ویڈیو گیم بنانے کی ترغیب دینے لگے ۔ والدین تو پہلے ہی بچوں میں ویڈیو گیم کی لت سے پریشان ہیں اب اگر ان پرکھیل بنانےکی دھن سوار ہوجائے تو بیڑہ ہی غرق ہوجائے گا ۔بچے امتحانات کی جھنجھٹ سے بے نیاز ہوجائیں گے ۔ اس میں مودی جی کا یہ فائدہ ہے کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار دینے کا بکھیڑا از خود ختم ہوجائے گا ۔ ویسے نوجوانوں کو ان پڑھ رکھنے کی ترکیب سجھانے والے مودی جی انہیں برسرِ روزگارکرنا اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ ایسے میں لوگ اگر ان کی تقریر پر اپنی ناراضگی کا اظہار نہ کریں تو کیا کریں ؟

وزیر اعظم کے اس رویہ سے عام لوگوں کی ناراضگی تو کسی قدر قابلِ فہم ہے لیکن بی جے پی کے اپنے چینل پر تو کوئی غیر نہیں آتا  ہوگا ؟ خیر اگر دوسروں کو آنے سے روک نہیں سکتے تو کم ازکم تقریر سننے کے لیے نہ سہی لائیک کا بٹن دبانے کے لیے تو یہ بھکت آہی سکتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب ان کا بھی موہ بھنگ ہوگیا ہے۔ ویسے بی جے پی والوں کی مودی جی کے من کی بات سے ناراضی کمل چھاپ سیاستدانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اس لیے کہ یہ سرکار کام پر نہیں نام پر چل رہی ہے ۔ بی جے پی کے علاوہ پی ایم او کے نام سے وزیر اعظم کے دفتر کا ایک یو ٹیوب چینل ہے۔ ظاہر اس پر مودی جی کے مداح ہی آتے ہوں گے ۔ وہاں بھی من کی بات کا حال اچھا نہیں تھا کیونکہ نشر ہونے کے ۲۳ گھنٹے بعد تک ۴۷ ہزار ڈسلائیک کرنے والوں کے مقابلے لائیک کرنے والے صرف ۱۸ ہزار تھے۔ ان دونوں کے علاوہ ایک سرکاری چینل بنام پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) بھی ہے۔ نہ جانے کیوں اس پر من کی بات نشر کی جاتی ہے۔ خیر وہاں تو ۲۳ گھنٹے بعد تک ایک لاکھ ناظر بھی نہیں پھٹکے اور جو آئے ان میں ناپسند کرنے والے 9 ہزار 200 تھے جبکہ پسند کرنے والے صرف  3 ہزار 600 تھے۔

ویسے یار دوستوں نے وزیر اعظم سے ناراضگی کی ایک اور دلچسپ وجہ ڈھونڈ نکالی ۔ ان ماہرین ِ مودیا ت کا کہنا ہے کہ اس بار مودی جی نے بڑے خلوص کے ساتھ دیسی کتوں کی جانب توجہ فرمائی ۔ ان کی مختلف قسموں اور صفات کو بیان کرکے نگہداشت پر زور دیا لیکن فتنہ پرور لوگوں کا ذہن ٹیلی ویژن کے اینکرس کی جانب چلا گیا ۔ اسی لیے ان اینکرس سے ناراض ناظرین نے اپنا غصہ مودی جی من کی بات پر اتار دیا ۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ جس کتے کے آگے ہڈی ڈالی جاچکی اور جو دن رات ان کے آگے دم ہلاتا رہتا ہے اس کی ذکر بھلا مودی جی اپنے من کی بات کیوں کریں گے ؟ دراصل چند روز قبل مودی جی کی ایک ویڈیو منظر عام پر آچکی تھی ۔اس میں وہ اپنے محل کے اندر مور ناچ دیکھتے اور دانہ کھلاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مودی جی اپنے رائے دہندگان کو بھی وہی مشورہ دینا چاہتےرہے ہوں گے لیکن مشکل یہ تھی کہ مور ناچ کے لیے عام لوگ اتنا بڑا گھر اور وسیع و عریض برآمدہ کہاں سے لائیں گے؟ اس کے علاوہ انہیں لوگوں کے لیے اتنے سارے مور کہاں سے میسر آئیں گے ؟ اس مسئلہ کا حل کتوں سے نکالا گیا کیونکہ وہ تو ہر گلی محلے میں آوارہ گردی کرتے ہوئے مل جاتے ہیں ۔ ویسے سوشیل میڈیا کی مقبولیت کے بعد بیروزگار بھکتوں کی عظیم اکثریت اینکر بن چکی ہے ۔ مودی جی اگر آگے اس طرح کی عوامی ناراضی سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں ان آوارہ کتوں سے خود کو دور رکھنا ہوگا اور عوام کو بھی دور رہنے کی تلقین کرنی ہوگی ۔

انڈیا ٹوڈےکے سروے کا موازنہ یوٹیوب کے اعدادو شمارکریں تو تضاد دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے انسان کس پر یقین کرے اور کسےمستردکر دے؟  مذکورہ سروے کے آخری سوال میں مودی سرکار کے اندر موجود مختلف وزراء کی مقبولیت کا ماضی سے موازنہ کیا گیا ہے ۔ اس فہرست میں ۷ وزراء شامل ہیں اور ہر وزیر کی مقبولیت میں جنوری سے لے کر اب تک کمی درج کی گئی ہے۔ اس میں سب سے کم خسارہ امیت شاہ کے حصے میں آیا یعنی ان کا بازار بھاو ۴۳ سے گھٹ کر ۳۹  فیصد پر پہنچا۔ ان کے علاوہ مودی کے دو سب سے بڑے حریف نتن گڈکری اور راجناتھ سنگھ کی مقبولیت میں بتدریج ۲۴ اور ۲۲ فیصد کی کمی درج کی گئی ہے۔ راجناتھ سے لوگ اگر چین کے سبب ناراض ہیں تب بھی بیچارے گڈکری کا کیا قصور جو چینی سرحد پر سڑک بنوا رہا ہے۔ اس فرق کو محض  اتفاق  وہی سمجھ سکتا ہے کہ مودی اور شاہ کے طریقۂ کار سے واقف نہ ہو۔

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نریندر مودی کی مقبولیت کاماضی سے موازنہ پیش ہی نہیں کیا گیاکیونکہ کمی کو چھپانا مقصود تھا لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر سارے ہی وزراء کی مقبولیت کم ہورہی ہو ان کا سردار اس سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ اس کو بلاواسطہ یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ مودی جی کی کام کی عوامی توثیق(approval rating ) ۸۳ سے گھٹ کر ۷۸ پر آگئی  ہے ۔ بی جے پی کی مقبولیت کا موازنہ کیا جائے تو این ڈی اے کے پاس جو ۳۵۳  نشستیں ہیں ان کا اندازہ گھٹ کر ۳۱۶ پر آگیا۔ سروے کے مطابق یہ کمی کانگریس کے بجائے  دیگر جماعتوں کے حصے میں چلی گئی۔ وہ کہیں بھی جائے لیکن اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مزید ۴ سال بعد این ڈی اے کہاں ہوگی اس کا قیاس مشکل نہیں ہے؟ ویسے اس سروے نے بی جے پی کو بھی ۳۰۳ سے گھٹا کر ۲۸۳ پر پہنچا دیا  ہے۔ یہ زعفرانیوں کے لیے فکر مندی اور دیگر لوگوں کے لیے اطمینان کا سبب ہے ۔ خیر یہ تو ابتداء ہے کیونکہ ’ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘ ۔ ایسے میں بے ساختہ استادوں کا استاد فلم میں اسد بھوپالی کا لکھا نغمہ ’ آغاز تو اچھا  ہے انجام ِ خدا جانے ‘ یاد آتا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.