صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

جدید مادی انقلاب اور انسان

1,355

عمر فراہی ۔ ای میل : [email protected]

ایک عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ اٹھارہویں صدی کے جدید سائنسی انقلاب کے بعد لوگوں کے ذہن و اعصاب پر مادیت کا غلبہ ہوا ہے جبکہ یہ بات درست نہیں ہے ۔دنیا اپنے وجود کے بعد سے ہر پل جدید ہوتے رہی ہے اور لوگوں میں آج سے پہلے بھی بخیلی اور مادہ پرستی اسی رفتار سے غالب آنا شروع ہوچکی تھی جیسے کہ آج ہے ۔انسانی معاشرے کی اسی اصلاح اور لوگوں کے رخ کو دوبارہ اپنے خالق حقیقی کی طرف  موڑنے کیلئے دنیا میں تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام آئے ۔ قرآن میں سبت کے واقعہ کا ذکر آتا ہے جہاں ایک قوم اپنی اسی مادہ پرستانہ نظریات اور اللہ کے احکامات سے بغاوت کی وجہ سے بندر اور سور بنا دی گئی ۔یہ قوم بندر اور سور ہی کیوں بنائی گئی جبکہ دنیا میں اس سے بھی بدصورت جانور موجود ہیں ۔ دراصل بندروں اور سوروں کی فطرت میں سکون نہیں ہے اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دیگر جانوروں کی بنسبت انہیں بہت کم نیند آتی ہے اور جب دیکھو یہ دونوں جانور پیٹ کی بھوک کیلئے ادھر ادھر منھ مارتے رہتے ہیں۔ ہاں اس دور میں اور آج کے مشینی دور میں اتنا فرق ضرور تھا کہ اس وقت آبادی میں اتنا اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ضروریات زندگی میں بھی فراوانی نہیں تھی ۔شاید اسی لیے انسان کے پاس بہت وقت بھی تھا اور اپنے اسی وقت کا استعمال کرتے ہوئے انسانوں نے ہزاروں سال پہلے ہی لوہے تانبے سونے شیشے اور  ہیرے جواہرات وغیرہ جیسی قیمتی اور اہم معدنیات کی دریافت کر لی تھی ۔

ہر دور میں انسانوں کی گمراہی کی وجہ انسان کی مادہ پرستانہ سوچ ہی رہی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ انسانوں کے جنت سے نکالے جانے اور لباس اتروا کر رسوا ہونےکی وجہ بھی یہی لالچ اور مادیت تھی جو حضرت آدم علیہ السلام پر ان کی بشریت کی وجہ سے غالب آئی ۔دوسرے لفظوں میں مادہ پرستی انسان کی فطری کمزوری ہے ۔قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ انسان فطرتاً لالچی واقع ہوا ہے ۔سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تنبیہ کیا ہے کہ اے بنی آدم کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان پھر دنیا میں تمہارے لباس اتروا دے جیسا کہ اس نے جنت میں آدم کے ساتھ کیا تھا ۔ہم دیکھ بھی سکتے ہیں موجودہ لبرل طرز سیاست میں کس طرح فحاشی اور عریانیت کو تجارت کا درجہ حاصل ہوچکا ہے اور کارپوریٹ ادارے کس طرح کاسمٹکس اور عورتوں کے شوق سنگار کی مارکیٹنگ کیلئے خوبصورت دوشیزاؤں کے نیم عریاں جسمانی اعضاء کے اظہار کے ساتھ اشتہارات پیش کر رہے ہیں ۔

شیطان نے ہر دور میں مختلف رسم ورواج اور شکل میں عریانیت کو فروغ دینےکی کوشش کی ہے اور اللہ نے عذاب کی شکل میں انسانوں کو سزا بھی دی ۔یہاں تک کہ آخری رسول کے دور تک یہ سلسلہ دراز ہوتا رہا ۔خود خانہ کعبہ میں عورت اور مرد اپنی منتیں پوری کرنے کیلئے برہنہ ہوکر طواف کرتے تھے ۔یہ منتیں اس کے سوا اور کچھہ نہیں تھیں کہ لوگ اپنے بتوں سے دولت جائداد اولاد اور خوشحالی کے متمنی تھے۔قرآن کی سورۃ اعراف میں اسی تناظر میں آیت نازل ہوئی کہ ’ائے بنی آدم مسجد میں داخل ہوتے وقت اپنی زینت سے آراستہ رہو ‘۔اور پھر کہا کہ کھاؤ پیو لیکن اسراف نہ کرو۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے دور میں بھی مادہ پرستی کا فتنہ اپنے عروج پر تھا۔ابولہب کو اپنی اسی دولت پر فخر تھا ۔مورخین نے لکھا ہے اللہ کے رسول ﷺ کی تحریک کو روکنے کیلئے ابو لہب نے جنگ بدر میں اپنی دولت کا بہت بڑا حصہ جھونک دیا تھا۔قرآن نے اسی پس منظر میں یہ بات کہیہے کہ ’ٹوٹ گئے ابو لہب کے ہاتھ اور نہیں کام آئے اس کے مال و اسباب‘ ۔

عرب میں فحاشی کا یہ عالم تھا کہ معزز خاندانوں کی عورتیں بھی اس وقت کے بہادر اور خوبصورت نوجوانوں کو کھلے عام زنا کی دعوت دیتی تھیں تاکہ وہ وقت کے رئیسوں اور شیخوں کی خوبصورت اور بہادر اولادوں کی ماں بنیں ۔تحریک نبویﷺ کے اسلامی  انقلاب کے بعد تقریباًبارہ سو سالوں تک ان خرافات پر پابندی رہی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملوکیت کے دور میں بھی کچھ برائیاں پھر بھی رہی ہیں اور مسلم حکمرانوں کی کمزور پڑتی ہوئی گرفت سے ان میں کچھ اضافہ بھی ہوا لیکن اٹھارہویں صدی کے آخر آخر تک عام انسانوں کے ذہن و اعصاب پر مادیت پوری طرح غالب نہیں ہو پائی تھی ۔افسوس کہ دنیا سے مسلم سلطنتوں کے خاتمہ یعنی قرآنی اصول کے خاتمے کے بعد تو جیسے کہ پوری دنیا میں مادیت کا سیلاب امڈ پڑا ۔اتفاق سے اٹھارہویں صدی کا یہی وہ دور تھا جہاں ایک طرف سائنسی اور مشینی دور کو عروج حاصل ہوا تو دوسری طرف ترکی اور ہندوستان میں سلطنت عثمانیہ اورمغلیہ سلطنتوں کے زوال کا بھی وقت رہا ہے ۔شاید اسی لیے مسلمانوں کے اہل دانش اور علماء کو یہ سمجھنا مشکل ہوگیا کہ زوال امت کی اصل وجہ مسلمانوں کا  اقتدار سے محروم ہوجانا ہے یا سائنس کا عروج ؟

سچائی یہ  ہے کہ انسانوں کی گمراہی اور برائیوں میں غرق ہونے کی وجہ سائنس اور ٹکنالوجی کا عروج نہیں بلکہ اس نظام الہٰی کا خاتمہ ہے جس نے انسانوں کو اس کی تمام فطری کمزوریوں کے باوجود تقریباً تیرہ سو سالوں تک اس کی انسانی غیرت کو نیلام نہیں ہونے دیا ۔مگر ایسٹ انڈیا کے مادی سیلاب میں بہہ کر آدمی نہ صرف اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل اور حصول کیلئے انسان نما بندر اور سور بن چکا ہےبلکہ بنت حوا خود برہنہ ہونے کیلئے تیار ہے۔اب قانون اور عدلیہ کے ذریعے بھی ہم جنس پرستی اور زنا جیسی برائی کو تحفظ فراہم کرنا کس بات کا اشارہ ہے ۔اس لادینی سیکولرنظام کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے ۔ دنیا پر اسلامی نظام اگر آج بھی غالب ہوجائے تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ سائنس اور ٹکنالوجی کے عروج کے دور میں بھی دنیا ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن سکتی ہے ۔مگر یہ بھی ہے کہ جدید علمائے دین ابھی تک لوگوں میں دین توحید اور دعوت کے فرق کو ہی نہیں واضح کرسکے ہیں ۔ایسے میں دین توحید اور دعوت کے تعلق سے مولانا وحیدالدین خان راشد شاز اور غامدی جیسے لوگوں کے مبہم خیالات انتشار تو پیدا کرتے ہی ہیں مسلمانوں کے جدید لبرل سیکولر دانشوروں کے مادہ پرستانہ خیالات ونظریات پر مبنی جدید اسلام کے تشکیل نو کا منصوبہ کسی  عذاب سے کم نہیں !

Leave A Reply

Your email address will not be published.