صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

کروڑوں لوگوں کو اپنی آواز کے سحر میں گرفتار کرنے والی لتا منگیشکر کا انتقال

69,333

ممبئی: تقریباً چھ دہائیوں سے اپنی بے مثال اور جادوئی آواز میں 20 سے بھی زائد زبانوں اور پچاس ہزار سے بھی زیادہ نغموں کو اپنی آواز دے کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کرانے والی لتا منگیشکر نے آج صبح ممبئی کے برج کینڈی اسپتال میں آخری سانس لی۔ اُنکی عمر 92 برس تھی۔ وہ گذشتہ 29 دنوں سے اسی اسپتال میں زیر علاج تھیں اور کورونا سے متاثر تھیں۔ ریاستی حکومت نے دو دنوں کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔

  لتا منگیشکر 28 ستمبر 1929ء کو اندور میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصلی نام ہیما ہریکدر ہے۔ ان کے والد دِینا ناتھ منگیشکر بھی گلوکار اور اداکار تھے۔ چنانچہ وہ شروع سے ہی گلوکاری کی طرف مائل تھیں، لہذا انہوں نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی۔

سال 1942 میں تیرہ برس کی عمر میں لتا کے سر سے باپ کا سایہ اٹھا گیا اور خاندان کی ذمہ داری لتا منگیشکر کے اوپر آگئی۔ جس کے بعد ان کا پورا خاندان پونے سے ممبئی آگیا۔ حالانکہ لتا کو فلموں میں کام کرنا بالکل پسند نہ تھا۔ اس کے باوجود اپنے گھر والوں کی مالی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے لتا نے فلموں میں کام کرنا شروع کردیا۔

لتا نے اپنے والد کے انتقال کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کردی تھی۔ دینا ناتھ کی بیٹیوں میں نہ صرف لتا نے سروں کی دنیا میں مقبولیت حاصل کی بلکہ ان کی بہن آشا بھونسلے نے بھی گلوکاری میں اہم مقام حاصل کیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دونوں بہنوں کی آوازوں نے بھارتی فلم انڈسٹری پر قبضہ کرلیا۔

تقریباً چھ دہائیوں سے اپنی بے مثال اور جادوئی آواز میں 20 سے بھی زائد زبانوں اور پچاس ہزار سے بھی زیادہ نغموں کو اپنی آواز دے کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کرانے والی لتا منگیشکر آج بھی مداحوں کے دلوں پر راج کررہی ہیں۔

سال 1942 میں تیرہ برس کی عمر میں لتا کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا اور خاندان کی ذمہ داری لتا منگیشکر پر آگئی۔ اس کے بعد ان کا پورا خاندان پونے سے ممبئی آگیا۔ حالانکہ لتا کو فلموں میں کام کرنا بالکل پسند نہ تھا۔ اس کے باوجود اپنے گھر والوں کی مالی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے لتا نے فلموں میں کام کرنا شروع کردیا۔

سال 1945 میں لتا کی ملاقات موسیقار غلام حیدر سے ہوئی۔ غلام حیدر لتا کے گانے کے انداز سے کافی متاثر تھے۔ غلام حیدر نے فلم ڈائریکٹر ایس مکھرجی سے گزارش کی کہ وہ لتا کو اپنی فلم شہید میں گانے کا موقع دیں۔ ایس مکھرجی کو لتا کی آواز پسند نہیں آئی اور انہوں نے لتا کو اپنی فلم میں لانے سے انکار کردیا، اس بات کو لیکر غلام حیدر کافی ناراض ہوئے اور انہوں نے پیش گوئی کی کہ لڑکی آگے چل کر اتنی شہرت کمائے گی کہ بڑے بڑے ہدایت کار اسے اپنی فلموں میں گانے کے لئے اس سے گزارش کریں گے۔

سال 1949 میں فلم محل کے گانے کے بعد لتا بالی ووڈ میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔ اس کے بعد راج کپور کی فلم برسات کا گانا جیا بے قرار ہے ، ہوا میں اڑتا جائے جیسے نغموں کے بعد لتا بالی ووڈ میں ایک کامیاب پلے بیک سنگر بن گئیں۔

سری رام چندر کی موسیقی میں لتا نے پردیپ کے لکھے گیت پر ایک پروگرام کے دوران ایک غیر فلمی گیت ’’اے میرے وطن کے لوگوں‘‘ گایا۔ اس نغمے کو سن کر وزیراعظم جواہر لعل نہرو اتنے متاثر ہوئے کہ ان کی آنکھوں میں  آنسو آگئے۔ لتا منگیشر کے اس گانے کو سن کر آج بھی لوگوں کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ لتا کی موت سے ملک ہی نہیں بیرون ملک کے مداحوں کو بھی شدید صدمہ پہنچا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.