صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

آرما گیڈون سے پہلے ۔۔۔؟

76,198

عمر فراہی

طاقتور بے دین ہوں تو وہ مال غنیمت کے حصول کیلئے چنگیز اور ہلاکو کی طرح اپنی سرحدوں کا تعین خود کرتے ہیں ۔طاقتور دیندار ہے تو اس کے ذولقرنین اور عمر ہونے کی بھی گواہی دی جاسکتی ہے مگر جو کمزور ہیں وہ چاہے دیندار ہو یا بے دین ان کے مظلوم ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ۔اسی بات کو علامہ اقبال اپنے لفظوں میں یوں کہتے ہیں ؎  تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے/ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ،تو ایک مقام پر یہ بھی کہتے ہیں ؎ جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو /جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ۔مگر حامل قرآن امام الہند اور اہنسا کے پجاری گاندھی اور سوشلسٹ نہرو جیسی جہاں دیدہ شخصیات بھی اس فلسفے کے برعکس سرمایہ دارانہ جمہوری تہذیب کے فریب میں الجھ کر رہ گئے۔ ان کے خلوص پر شک نہیں کیا جاسکتا مگر وہ جو عالم نو کی جدید تشکیل کا منصوبہ بنا رہے تھے انہوں نے بھی اپنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے کوئی غلطی نہیں کی۔

لداخ میں چین کی دراندازی اور بیس فوجیوں کی قربانی پر موجودہ سرکار کے رویے پر خوب شور شرابہ تو ہو رہا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ کسی کے پاس اس کا فوری حل بھی نہیں ہے ۔اگر ہم طاقتور ہوتے تو چین کی نیت خراب ہی نہ ہوتی ۔چین کی یہ دراندازی کوئی نئی بھی نہیں ہے۔ ایجنسیاں بہت شروع سے ہی چین کے ناپاک عزائم کی نشاندہی کرتی رہی ہیں جس کا حل بہت پہلے ہی ڈھونڈھ لینا چاہئے تھا لیکن ہمارے سیاستدانوں کو الیکشن اور کرپشن سے کبھی فرصت نہیں ملی ۔

یوں تو اروناچل پردیش پر چین کے دعوے کو لیکر بہت بحث ہو چکی ہے کچھ پانچ چھ سال پہلے ہندوستان ٹائمس میں ایک انٹلیجنس آفیسر کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کا عنوان ہی یہ تھا کہ  Dragon is breathing to the neck  اس کا کیا مطلب ؟

انڈین ایکسپریس کے سابق ایڈیٹر اور بی جے پی کے سابق ممبر آف پارلیمنٹ ارون شوری کی 2014 میں پانچ سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب شائع ہوچکی ہے جس کا نام ہے Self deceptionیعنی خود فریبی ،پوری کتاب میں چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات پر ارون شوری نے پنڈت جواہر لال نہرو سے لیکر من موہن سنگھ حکومت پر تنقید کی  ہے کہ کس طرح کانگریسی حکومتیں چین سے خوف کھا کر جھک کر فیصلہ کرتی رہی ہیں اور اس کا احساس بھارت میں چینی سفارتخانے کو بھی ہے اور وہ ہمارا مذاق بھی اڑاتے ہیں ۔

ارون شوری نے اسی کتاب میں کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی پنڈت نہرو نے بھارت کیلئے چین سے زیادہ پاکستان کو خطرہ سمجھا ۔نہرو کا سوچنا تھا کہ چین ایک سوشلسٹ اور کمیونسٹ ریاست ہے اس لئے وہ اپنی سرحدوں کو کبھی وسعت نہیں دینا چاہے گا جبکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہونے کی وجہ سے اپنے ماضی کے استعماری عزائم سے باز نہیں آسکتا۔انہوں نے چین کے ساتھ بھارت کے اتحاد اوردوستی کو فطری قرار دیتے ہوئے چین کو بھارت کا بڑا بھائی مانا ۔لیکن بڑے بھائی نے 1962 میں اچانک حملہ کر کے چھوٹے بھائی کے اس اعتماد کو چور چور کر دیا ۔ پنڈت جی اس صدمے کو برداشت نہیں کر سکے اور1965 میں دنیا ہی چھوڑ گئے۔

سچ تو یہ ہے کہ پنڈت جی ہوں یا گاندھی یا ابوالکلام آزاد یہ لوگ نظریہ سوشلزم اور مغربی طرز کے لبرل نظام کو نئی دنیا کی تشکیل کا مقدس آئین تصور کر بیٹھے تھے۔بدقسمتی سے سپر پاور کی سربراہی میں لیگ آف نیشن اور اقوام متحدہ کے قیام کے بعد تو جیسے کہ مسلم اور غیر مسلم دنیا کے دیگر اہل دانش اور سیاستدان بھی اس ادارے کی معتبریت پر ایسے ایمان لائے جیسے کہ اس ادارے کو نبوی تحریک کی طرح سند حاصل ہو اور اب دنیا سے جہالت کی تمام رسموں اور روایتوں کو روند دیا جائے گا ۔بظاہر سیکیورٹی کونسل کےنام سے دنیا میں امن و انصاف قائم کرنے کا عہد تو کیاگیا مگر فلسطینی آج بھی انصاف کے طلبگار ہیں ۔فرانس اور برطانیہ نے مل کر عرب ریاستوں کے درمیان فلسطینیوں کی زمین پر ریاست اسرائیل کا قیام کیا ہی اس لئے تاکہ ماضی کے شیروں کو اسرائیل کے ذریعے قابو میں رکھا جا سکے ۔جب عرب سرداروں کو بات سمجھ میں آئی تو بہت دیر ہو چکی تھی ۔پنڈت جی نے کسی انگریز کے مشورے پر تیسری دنیا کے ممالک جس میں مصر بھی شامل تھا ناوابستہ تحریک Non-Aligned Movementکی بنیاد رکھی تاکہ عالمی استعماری طاقتوں کے استحصال سے محفوظ رہا جا سکے۔ مگر یہاں پھر وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ اقوام متحدہ کا قیام ہی اس لئے ہوا تھا کہ کس طرح آزاد ممالک کو اب اس ادارے کے ذریعے نیو ورلڈ آرڈر کا پابند بنایا جائے ۔ناوابستہ تحریک اپنے انجام کو پہنچی اور سب نے اس وقت کی دو سپر پاور روس اور امریکہ کی بیعت کر لی۔ بھارت بنگلہ دیش کی جنگ ہوئی جس میں روس جو بھارت کا اتحادی تھا اس نے بھارت کا ساتھ دیا اور امریکہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان کا ساتھ نہ دے سکا تو اس لئے کہ وہ روس کے خلاف ٹکرانے سے ڈرتا تھا ۔ اس وقت کا امریکی صدر جھنجھلا کر اندراگاندھی کو صرف گالی دیکر خاموش ہو گیا۔بعد میں اسی روس کو پاکستان نے افغان مجاہدین اور امریکہ کی مدد سے باہر کا راستہ دکھا دیا اور امریکہ کو ایک قطبی طاقت تسلیم کیا جانے لگا ۔

ہمارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت اقوام متحدہ سیکولرزم اور سوشلزم جیسے خوبصورت نام سے جو لوگ مہذب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یہ سب ایک فریب ہے ۔جنگل کے راجاؤں نے خون پینا نہیں چھوڑا ہے اور ان سے محفوظ رہنے کا حل اپنی خود کی طاقت ہے ۔بھارت میں تقریباً ایک ہزار یونیورسٹی ہیں لیکن ابھی تک ایک بھی ہتھیاروں کی ایسی فیکٹری نہیں ہے جس میں ٹینک میزائل اور طیارے یا ڈرون بنائے جاتے ہوں ۔ آج بہتر سال بعد بھی بندوق سے لیکر موبائل تک ہم اٹلی فرانس اور چین سے خرید رہے ہیں ۔سوائے ترکی کے تمام مسلم ممالک کی صورتحال بھی یہی ہے ۔اس کے برعکس اسرائیل کا قیام بھی 1948میں ہوا اور ایک چھوٹا سا ملک اپنے جنگی ہیلی کاپٹر ٹینک اور دنیا کا اسی فیصد ڈرون خود بناتا ہے ۔سنا ہے ایک جولائی تک اسرائیلی پارلیمنٹ فلسطین کا مغربی کنارہ جسے ویسٹ بینک بھی کہتے ہیں قانونی طریقے سے اسرائیل کے نقشے میں شامل کر لے گا اور وہ دن دور نہیں جب اسرائیلی فوجی غزہ پر بھی قبضہ کرتے ہوئے شام میں دندناتی پھریں ۔عزیزان عرب اور مسلمانوں کے اہل دانش کی ابھی تعلیمی بیداری کے موضوع پر کانفرنس ہو رہی ہے اور سب کا اس بات پر اتفاق بھی ہو چکا ہے کہ ان کے پچھڑے پن کی وجہ تعلیم ہے ۔ابھی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں گی ۔بچے سائنٹسٹ بنیں گے اور پھر ہتھیاروں کی فیکٹریاں کھولی جائیں گی ۔ پھر کوئی صلاح الدین ایوبی جیسا جانباز پیدا ہوگا اور وہ بیت المقدس آزاد کرائے گا۔سوال بھارت کا ہےکہ ابھی ہمیں اور کتنی یونیورسٹیاں اور کالج کھولنے کی ضرورت ؟آخر کب ہمارے حکمرانوں کے اندر یہ سوچ بیدار ہوگی کہ اب ہمیں اپنے خود کے ٹینک طیارے مشین گن اور جنگی ہیلی کاپٹر بنانے چاہئیں ۔افسوس ان ایک ہزار یونیورسٹیوں سے ہماری سرکار ایسے باصلاحیت انجینئروں کی جماعت بھی نہیں تیار کر سکی جو عالمی بازار میں عالمی معیار کا ایک موبائل فروخت کر سکیں ۔خیر پہلی بار کسی وزیراعظم نے ’آتم نربھر‘ ہونے کی بات تو کی ہے ۔امید ہے ہم آرماگیڈون سے پہلے آتم نربھر ہو جائیں گے !

Leave A Reply

Your email address will not be published.