1528ء کوایودھیا ضلع فیض آباد اودھ کے مقام پر مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی جانب سے اودھ کے گورنر میر باقی کے زیر اہتمام تعمیرکی گئی ۔
تنازعہ کا آغاز : 15 جنوری 1885ء کو سب جج فیض آباد کی عدالت میں مسجد سے سو قدم کے فاصلے پر رگھُبیر داس نام کے ایک شخص نے مندر تعمیر کرانے کی اجازت مانگی جو رد ہوگئی ۔
مسجد کو نقصان : 1936ءکے فرقہ وارانہ فسادات میں مسجد کو کچھ نقصان پہنچا ۔
ناجائز قبضہ : 22،23 دسمبر 1949ء کی درمیانی سرد رات میں کچھ لوگوں نے اندھیرے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مسجد میں رام للا کی مورتیاں رکھ دیں ۔
23دسمبر کو فیض آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے وزیر اعلیٰ یوپی پنڈت گووند ولبھ پنت چیف سکریٹری اور ہوم سکریٹری کے نام اس مضمون کا تار روانہ کیا ۔ 23 دسمبر کی رات میں جب مسجد میں کوئی نہ تھا اچانک کچھ لوگ وہاں گھس گئے اور غیر قانونی طور سے ایک مورتی وہاں نصب کردی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ نے فوراً ہی جائے واردات پر پہنچ کر صورتحال کو قابو میں کیا ۔ یہ بیان ایک کانسٹبل ماتا دین کی عینی شہادت پر مبنی تھا ۔
وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے وزیر اعلیٰ کو سخت ہدایت دی کہ مسجد کے ساتھ ناانصافی کو ختم کیا جائے ۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اس پر عمل کرنے کے بجائے استعفیٰ دے دیا ۔ ضلع فیض آباد کانگریس کمیٹی کے سکریٹری اکشے برہمچاری نے اس زیادتی پر سخت احتجاج کیا ۔
1950ء میں انہوں نے مسجد پر ناجائز قبضہ کے خلاف دو مرتبہ برت بھی رکھا ۔ 29دسمبر 1949 ء ایک ضلع مجسٹریٹ نے حالات کو جوں کا توں برقراررکھتے ہوئے اس عمارت کو سرکاری تحویل میں لے لینے کا حکم دیا اور اس کا ایک رسیور مقرر کردیا ۔ مسلمانو ں پر مسجد میں داخلہ پر پابندی عائد کردی اورپوجا کے لئے چار پجاری مقرر کردیئے ۔
1950ء میں مسجد میں تالا لگا دیا گیا مگرمحدود پیمانے پر پوجا ہوتی رہی 16جنوری 1950ء کو گوپال سنگھ وکیل کی درخواست پر سول جج نے فیصلہ سناتے ہوئے وہاں حسب سابق مورتیاں رکھی رہنے اور پوجا کے عمل کو جاری رہنے کا حکم دیا ۔
17اکتوبر 1984ء کو رام جنم بھومی ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا اور 1985ء کے آغاز میں تالا کھولنے کی تحریک کو وشو ہندو پریشد نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔
25 ؍جنوری 1986ء کووکیل نے منصف کی عدالت میں تالا کھولے جانے کیلئے درخواست دی منصف نے اس پر کوئی فیصلہ نہیں دیا ۔
31 جنوری 1986ء کو وکیل نے ڈسٹرکٹ جج ایم کے پانڈے کی عدالت میں اپیل کی جج نے سرسری سماعت کے بعد یکم فروری 1986ء کو تالا کھلوا کر عام پوجا کی اجازت دے دی صدر دروازہ کا تالا کھول دیا گیا اور پھر اس جگہ رام مندر کی تعمیر کا مطالبہ زور پکڑتا گیا ۔
وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے دور میں 31 اکتوبر اور2 نومبر 1990ء کو کارسیوکوں کی ایک بھیڑ نے مسجد پر حملے کئے ، سی آر پی ایف نے گولی چلائی کچھ شرپسند ہلاک ہوئے ۔ مسجد کو کچھ نقصان پہنچا اور کلیان سنگھ کی وزارت کے دور میں بھی ایک بار 31 اکتوبر کو حملہ کرکے مسجد کی بیرونی دیوار کو نقصان پہنچا یا گیا ۔
شہادت : 6دسمبر 1992ء کو دوپہر میں مسجد پر منظم حملہ کیا گیا اور افسوس کہ اس دن شام تک 464 سالہ یہ قدیم تاریخی مسجد زمین بوس ہوگئی ۔
آثار قدیمہ : اپریل 2002ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازعہ زمین کے حق ملکیت سے متعلق مقدموں کی سماعت شروع کی ۔ عدالت کے حکم پر ماہرین آثار قدیمہ نے یہ پتہ لگانے کے لئے کھدائی شروع کی کہ آیا اس جگہ کبھی رام مندر تعمیر تھا یا نہیں ۔
غیر واضح : اگست 2003ء میں ماہرین نے کہا ، انھیں مندر کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں لیکن کوئی پختہ ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہے ، مسلمانوں نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا ۔
لبراہن کمیشن : جون 2009ء میں لبراہن کمیشن نے جانچ شروع کرنے کے 17سال بعد اپنی رپورٹ پیش کی ۔
فیصلہ محفوظ : 26 جولائی 2010ء الہ آباد کی لکھنؤ بنچ نے مقدمہ پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا فیصلہ سنانے کی تاریخ 24 ستمبر رکھی ایک رٹ دائر ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ کو مؤخر کردیا اور سماعت کی تاریخ 28 ستمبر طے کی ۔ 28 ستمبر کو عدالت عالیہ نے رٹ کو خارج کردیا اور فیصلہ سنانے کی تاریخ 30 ستمبر قرار پائی ۔
تین حصوں میں تقسیم : 30 ستمبر 2010ء الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا ، متنازعہ حصہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔