صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

اٹل بہاری واجپائی۔ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا

1,615
شبیع الزماں ۔ پونہ
16اگست کو بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا 93سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔اٹل بہاری واجپائی طویل عرصہ تک ہندوستانی پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔ تین مرتبہ وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں۔ انکی موت کے بعد دو  طرح کے رد عمل سامنے آئے ہیں اکثر لوگ انہیں سنت (saint) ثابت کرنے پر تلے ہیں اور بعض نے حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے انکے کاموں کا تنقیدی جائزہ  لیاہے۔ مسلمانوں میں بھی بعض لیڈر انھیں right person in wrong partyکے نام سے یاد کرنے لگے اور کچھ حالات کی دہائی دیکر اور کچھ سیرت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا سہارا لیکر مسلمانوں کو انکی تنقید سے روکتے رہے۔
ان مسلم رہنماؤں اور علماء سے تو خیر کوئی گلہ نہیں سادہ لوحی صرف عادت ہی نہیں بلکہ ان کے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ لیکن حیرت ان مسلم و غیر مسلم لیڈران اور صحافیوں پر ہوئی جو دن رات عملی سیاست میں پڑھ،لکھ اور دیکھ رہے ہیں۔ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح اٹل بہاری واجپائی نے پچھلے چالیس سال میں  ہندوتوا برانڈ کی سیاست کو کھڑا کیا۔ وہ بھی انہیں لبرل  لیڈر کہہ کر شردھانجلی دے رہے ہیں۔
بات اس حد تک تو درست ہے کہ کسی شخص کی موت پر اس کی شخصی برائیاں اور عیوب بیان کرنا بری بات ہے لیکن کسی سیاسی لیڈر کے کاموں کا تنقیدی جائزہ لینا کوئی معیوب بات نہیں پوری صحافتی دنیا میں یہی طریقہ رائج ہے۔
اٹل بہاری کی موت پر مختلف لوگوں نے جن باتوں کے ذریعہ انکو صحیح آدمی اور لبرل لیڈر بنانے کی کوشش کی اس میں عجیب طرح کی باتیں پیش کی گئی ہیں جیسے کہ وہ چکن بڑے شوق سے کھاتے تھے،وہسکی انکو بہت پسند تھی ،اپنے اوپر تنقید کو بڑا دل کرکے برداشت کرتے تھے،شاعر تھے،موسییقی کا خاص ذوق رکھتے تھے، مخالفین سے ہنس کر ملتے تھے، صحافیوں کو پیار سے ڈانٹتے تھے ۔ ممکن ہو یہ تمام صفات ان میں پائی جاتی تھی لیکن یہ سب باتیں انکی پہچان یا شناخت نہیں تھی انکی پہچان وہی تھی جو  وہ خود بیان کیا کرتے تھے کہ اول سیوم سیوک ہوں۔اور آخر سیوم سیوک ہوں۔ یا جوانی میں جو نظم انہوں نے لکھی تھی جو آج بھی سنگھ کی شاکھاوں میں پڑھی جاتی ہے۔
"ہندو تن من ہندو جیون ۔رگ رگ میرا ہندو پریچئے "
اٹل بہاری کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ نہیں دیکھنا ہے کہ دنیا انہیں کن ناموں سے یاد کرتی ہے بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ خود وہ کیا کہتے اور کرتے رہے ہیں۔
اٹل بہاری واجپائی اس تنظیم کے ممبر تھے جسکا مقصد ملک میں اکثریت کا غلبہ اور دبدبہ قائم کرنا ہے اور اقلیتوں کو سیکنڈ کلاس سیٹیزن بنانا ہے۔ اس نظریہ سے انکو کبھی بھی اختلاف نہیں رہا بلکہ زندگی بھر وہ اس خیال کی آبیاری کرتے رہے ہیں۔ اورجب کبھی موقع آیا کہ سنگھ یا  لبرل سیاست میں سے انکو کسی ایک کو چننا ہے تو انہوں نے نقصان اٹھانا گوارا کیا لیکن سنگھی سیاست سے علیحدہ ہونا گوارا نہیں کیا۔
اس سیاست میں وہ کوئی برائے نام ،حاشیہ پہ پڑے ہوئے لیڈر نہیں تھے کہ سنگھی سیاست سے غلطی سے وابستہ ہوگئے اور بحالت مجبوری اسے گھسیٹ رہے ہیں بلکہ وہ بہت ہی متحرک اورآگے بڑھ کر لیڈ کرنے والے قائد تھے۔
اختلاف صرف طریقہ کار میں تھا اٹل بہاری واجپائی یہ کام تشدد سے نہیں چاہتے تھے لیکن مقصد تو  بہر حال وہی تھا جو سنگھ کا ہے۔لیکن جب کبھی بھی تشدد کا استعمال کیا گیا اس پر کبھی انھوں نے کوئی تنقید نہیں کی بلکہ اسے ڈیفنڈ کرتے رہے اور جب بھی کبھی انکے اندر کا سنگھی بے قرار ہوکر باہر آجاتا وہ بھی وہی تشدد کی زبان بولنے لگتے جو سنگھ پریوار کا خاصہ ہے۔ انکی تمام تر زندگی اسی سنگھی فکر سے عبارت تھی۔
 1970 میں لوک سبھا میں احمد آباد اور بھیونڈی فسادات پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا "جو کچھ بھی وجہ ہو لیکن مسلمان دن بہ دن کمیونل ہوتا جا رہا ہے جسکے ‘رد عمل’ میں ہندو زیادہ سے زیادہ aggressive ہوتا جا رہا ہے۔ ورنہ کوئی اور چیز ہندوؤں کو  aggressiveنہیں بناتی ہے۔ اگر اس کا ذمہ دار آپ ہمیں بنانا چاہتے ہو تو بناؤ لیکن اس ملک میں  ہندو اب مزید ظلم نہیں سہے گا۔ ہندو شروعات نہیں کرے گا  لیکن اگر تم مسلم فرقہ پرستی کو ہوا دوگے تو دوسروں کے جذبات بھی بھڑکیں گے۔ کمیونلزم دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔میں مانتا ہوں بدلہ کی بھاونا اچھی نہیں ہے ۔ ہم کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ لیکن کیا یہ قانون صرف ہندوؤں کے لیے ہے؟ کیا یہ مسلمانوں کے لیے apply نہیں ہوگا۔”
 کیا یہ گفتگو کسی لبرل لیڈر کی ہوسکتی ہے۔ ہر لفظ سے  گھٹیا سنگھی فرقہ پرست ذہنیت جھلکتی ہے۔
1983 میں آسام کے انتخابات میں بنگلہ دیشی در اندازوں کے موضوع پر زہریلی تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ” بیرونی لوگ یہاں گھس گئے اور حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ اگر وہ یہاں کے بجائے پنجاب میں گھسے ہوتے تو لوگ انکے ٹکڑے ٹکڑے کرکے واپس پھینک دیتے”
 واجپئی کے اس بیان کے بعد آسام میں مسلمانوں پر زبردست حملہ کیا گیا جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین  ہزار اور غیر سرکاری ڈاٹا کے مطابق دس ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ اوپر کے دونوں بیانات کسی right person کے بیانات نہیں ہیں بلکہ یہ ہندوتوا دی نظریے اور فکر کے صحیح ترجمان کے الفاظ ہیں۔
بابری مسجد کی شہادت سے ایک رات قبل کی انکی مکمل تقریر سنیے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کار سیوا کرنی ہے اور کار سیوا کرکے ہم کورٹ کے حکم کے پیروی کرینگے۔ وہاں کافی ‘نکیلے پتھر’ نکل آئے ہیں ہمیں زمین ہموار کرنی ہوگی۔ پوری تقریر کو شروع سے لیکر آخر تک بغور سنیے۔ مکارانہ فن خطابت کا بہترین نمونہ ہے۔ اس تقریر سے واضح ہوتا ہے کہ اٹل بہاری واجپائی کوئی درد مند دل رکھنے والا فنکار نہیں بلکہ ایک گھاگ اور عیار سیاستدان ہے۔ وہ ذو معنی الفاظ کا استعمال کرکے اپنی بات عوام کے سامنے رکھ رہے تھے اور عوام کے جذبات،انکی نعرہ بازی اور طنزیہ ہنسی یہ بات واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ انکا نیتا نہایت مکاری کے ساتھ ایک پیغام دے رہا ہے تاکہ وہ قانون کی گرفت سے بآسانی باہر رہ سکے اور اسکے کیڈر تک پیغام بھی پہنچ جائے۔ لوگ تقریر اسکے لب لہجہ اور پیغام کو decodeکر رہے تھے۔ کیڈر سمجھ رہا تھا کہ انکا لیڈر ان سے کیا کہنا چاہ رہا ہے اور کل انہیں کیا کرنا ہیں۔ اس گفتگو میں اٹل بہاری کی عیاری پوری طرح عیاں ہوتی ہے کہ ایک جرم کرتے ہوئے آپ اپنے آپ کو اس جرم سے کیسے بری  کر سکتے ہیں۔ یعنی آپ قتل تو کریں لیکن خون کے داغ آپ کے دامن پر نہ ہوں۔ اٹل بہاری اس فن کے ماہر تھے۔؂
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
گجرات فسادات کے معاملہ میں انکا کردار دیکھ لیجیے فسادات کو روکنے کے لیے کوئی کوشش انکی طرف سے دکھائی نہیں دیتی ہے اس کے بعد جس راج دھرم والے کمنٹ کے لیے انہیں سر پر بٹھایا جاتا وہ ویڈیو دیکھ ل یں۔ اس میں وہ خود سے کچھ نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ایک رپورٹر کے پوچھنے پر  بحالت مجبوری یہ کہہ رہے  ہیں کہ میں نریندر بھائی سے کہوں گا کہ راج دھرم کا پالن کرے۔ انکے بغل میں بیٹھے نریندر بھائی نہایت عیارانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے ہیں وہی تو کر رہے ہیں صاحب اور اسکے بعد اٹل بہاری چالاکی کے ساتھ اپنا لب و لہجہ بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نریندر بھائی وہی کر رہے ہیں۔
لیکن گوا میں انکے اندر کا پرچارک پوری طرح باہر آجاتا ہے اور وہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہوئے کہتے "اگر سابرمتی ایکسپریس میں معصوم،بے گناہ اور بے بس لوگوں کو زندہ جلایا نہیں گیا ہوتا تو گجرات واقعہ کو ٹالا جا سکتا تھا ۔گجرات واقعہ قابل مذمت ہے لیکن آگ لگائی کس نے اور اور آگ پھیلائی کس نے۔مسلمان جہاں بھی رہتے ہیں وہ دوسروں کے ساتھ نہ ہی مل کر رہتے ہیں اور نہ ہی باہمی مفاہمت کے ساتھ رہتے ہیں ۔ وہ اپنے خیالات امن پسندی کے ساتھ پہچانے کے بجائے وہ اپنی بات خوف اور دہشت کی بنا پر منوانا چاہتے ہیں "
پارلیمنٹ میں جب ان سے اس بیان کے بارے میں وضاحت طلب کی گئی تو کہا کہ میری مراد ملٹنٹ اسلام کو ماننے والوں سے تھی نہ کہ سبھی مسلمانوں سے ۔ گودھرا آتش زنی آج تک ثابت نہیں ہوئی کہ کس کا ہاتھ اس میں تھا لیکن ملک کا سب سے زیادہ ذمہ دارآدمی مسلمانوں کو بنا کسی ثبوت کے اس کے لیے مجرم ٹھہرا رہا ہے اور اس طرح گجرات نسل کشی کی تاویل کر رہا ہے۔
بعض مسلمان بہت دور کی کوڑی لائے کہ ہمیں ہمارے دشمنوں سے بھی سیکھنا چاہیے اور انکی اچھی باتوں کو appreciateکرنا چاہیے ۔ اصولی طور پر تو یہ بات درست ہے لیکن پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر غیر ضروری طور پر دشمن میں وہ صفات تلاش کرنا جو کہ اس میں تھی ہی نہیں اعلیٰ ظرفی کی نہیں ذہنی مرعوبیت کی علامت ہے ۔
 بحیثیت اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعظم اٹل بہاری کا کوئی خاص کارنامہ نہیں ہے جس کے لیے انہیں یاد رکھا جائے۔ اپوزیشن میں  تو ایک کمزور حالت میں تھے دو سیٹ والے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے لیکن اس زمانے کے پارلیمنٹ کلچر اور روایات کے چلتے انہیں موقع دیا جاتا رہا ہے۔
 اسی طرح جب وہ وزیر اعظم تھے تب بھی کوئی قابل ذکر کارنامہ انکا نظر نہیں آتا۔بلکہ اس دور میں تو وہ تنقید تک سننے کے ردودار نہیں تھے اور تھوڑی سے مخالفت پر تلملا اٹھتے تھے۔ اس زمانے میں آؤٹ لک میگزین نے righing prime Minister کے نام سے کور اسٹوری چلادی تھی اور اسکی بڑی قیمت میگزین کے ایڈیٹر کو چکانی پڑی اور میگزین کے پروپرائیٹر کے گھر پر انکم ٹیکس کے بڑے چھاپے پڑے تھے۔
 اٹل جی کے زمانے میں کوئی نئی اور مضبوط معاشی پالیسیز نہیں بنی بلکہ وہی سرمایا دارانہ پالیسیز جو نرسمہا راؤ نے بنائی تھی انہوں نے اس کو آگے بڑھایا۔ بعد میں منموہن سنگھ نے ان پالیسیز کو مزید ترقی دی ۔ اس میں انہوں نے کچھ بھی نیا نہیں  کیا۔
 اسی طرح پوکھران نیوکلیر تجربہ بھی اٹل جی کے وزیر اعظم بننے کے دو ماہ بعد کیا گیا ظاہر ہے اس طرح کے پروجیکٹ برسوں کی پلاننگ اور محنت کے بعد بنتے ہیں ۔ پوکھران کی پوری پلاننگ نرسمہا راؤ کے زمانے میں ہوگئی تھی اٹل جی نے آکر صرف بٹن دبا دیا۔ اس میں  انکا کوئی contributionنہیں تھا
 اس طرح اگر دیکھا جائے تو انکے عہد میں کوئی بھی ایسا بڑا remarkableکام نہیں ہوا۔
 جس سے کہ دیش یا عوام کو کوئی بڑا فائدہ پہنچا ہو۔
بلکہ ان کے دور میں کئی ایسے کام ہوئے جس سے کہ دیش کو نقصان ہوا اور دیش اب تک انہیں بھگت رہا ہے ۔جیسے تعلیم کا بھگوان کرن ان ہی کے دور میں شروع ہوا۔ آج دانشوروں کو اینٹی نیشنل کہا جارہا ہے۔ یہ شروعات انہیں کے دور میں ہوئی اور آج  اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے ۔اٹل بہاری کے زمانے میں جو اسکالرز کمیونل پالیٹکس کی مخالفت کر رہے تھے مرلی منوہر جوشی نے انکے لیے "intellectual terrorism…. more dangerous than cross-border terrorism” کے الفاظ استعمال کیے تھے ۔ اس دورکے بالمقابل آج اس میں ترقی ہوئی اب گالیاں دینے کے ساتھ دانشوروں کع آسانی سے قتل بھی کر دیا جا رہا ہے۔  چیزیں تدریج کے ساتھ ہی آگے بڑھتی ہیں، اہم کام ایسے کاموں کی شروعات کرنا ہے۔
 کھندمال فسادات انہی کے دور میں ہوے۔ فادر اسٹینس کو انہیں کے زمانے میں ہندو شدت پسندوں نے زندہ جلایا جس پر تبصرہ کرتے ہوئے اٹل بہاری واجپئی نے کہا تھا کہ دھرم پریورتن پر ملکی سطح پر بحث ہونی چاہیے۔ یعنی ایک شخص کو اسکے معصوم بچوں سمیت زندہ جلا دیا گیا اور ملک کا وزیر اعظم اس بے رحمانہ قتل کے خلاف کھڑا ہونے کے بجائے کہہ رہا ہے کہ دھرم پریورتن پر گفتگو ہونی چاہیے۔ یہی اٹل بہاری واجپائی کی چالاکی تھی کہ اصل موضوع سے توجہ کو deflect کر دیتے تھے۔
واجپائی کا کردار سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس دور کو سمجھا جائے جب انہوں نے اپنی سیاسی اننگز کی شروعات کی تھی۔ ساورکر کا ملٹنٹ ہندوتوا کا فارمولا ناکام ہوچکا تھا۔ اسکے بعد سنگھ نے ملٹنٹ ہندوتوا کے بجائے سیاسی اور سماجی طور پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ سنگھ کی تمام تر سیاست ہی مکر اور فریب کی سیاست ہے۔ یہ عیاری ،مکاری، چالاکی اور موقع پرستی سے بھری ہوئی سیاست ہے۔ سنگھ کو اپنی اس سیاست کے لیے  ایسے منجھے ہوئے اور چالاک سیاست داں کی ضرورت تھی جو نظریات کے اعتبار سے تو پورا سنگھی ہو لیکن سماج میں اسکی شبیہ ایک موڈریٹ اور لبرل لیڈر کی ہو جسکو ہندوستانی عوام تسلیم کر سکے ۔ کثیر پارٹی سیکولر جمہوری ہندوستان میں جو چل سکے۔ ہندوتوا کی ہارڈ لائن کے لیے اسکے پاس کئی لیڈرس تھے لیکن موڈریٹ امیج والا سنگھی کوئی نہیں تھا۔ سنگھ کو ایک مکھوٹے کی ضرورت تھی اور اس ضرورت کو اٹل بہاری واجپائی نے پورا کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اٹل بہاری واجپائی نے کبھی بھی اپنے آپ کو سیکولر یا موڈریٹ نہیں کہا بلکہ وہ ہمیشہ اس سے انکار کرتے رہے بلکہ اسے سازش قرار دیتے رہے کہ لوگ انہیں لبرل اور موڈریٹ کہتے ہیں اور پارٹی کو فاشسٹ۔  وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے میں اول بھی سیوم سیوک ہوں اور آخر بھی سیوم سیوک ۔ وہ غلط پارٹی کے صحیح آدمی نہیں تھے بلکہ غلط پارٹی کے غلط آدمی تھے۔ انکی اصلی جگہ سنگھ  پریوار ہی تھی  اور وہ صحیح جگہ پہنچے تھے۔
آخر گِل اپنی، صرفِ درِ میکدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیرتھا

Leave A Reply

Your email address will not be published.