صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

شہزاد انکائونٹر پر رہائی منچ نے سوال اٹھائے

پولس نے نشانہ بنا کر مارا ہے ، کوئی ہمیں انصاف دلا دے : شہزاد کے والد

1,349

لکھنو : رہائی منچ نے سہارنپور کے فیراہیڑی میں مظفر نگر کھتولی کے شہزاد کے انکائونٹر میں مارے جانے کے پولس کے دعووں پر سوال اٹھایا ہے ۔ منچ نے کہا ہے کہ رشتہ داروں نے انکائونٹر سے پہلے ہی مقامی پولس سے اس کے غائب ہونے کی شکایت کی تھی ۔ ایسے میں بہت سے سوال ہیں جو اس انکائونٹر میں پولس کے لکردار پر نہ صرف سوال اٹھاتے ہیں بلکہ پولس کے مجرمانہ کردار کو بھی اجاگر کرتے ہیں ۔ رہائی منچ کا وفد کھتولی مظفر نگر میں رشتہ داروں سے ملاقات کرچکا ہے ۔

رہائی منچ کے صدر محمد شعیب نے کہا کہ مظفر نگر کھتولی کے شہزاد کے انکائونٹر پر رشتہ داروں کے ذریعہ سوال اٹھانے کے بعد انکائونٹر کے پولس کے دعوے پر سوال اٹھنا تب اور لازمی ہو جاتا ہے جب ان کی بیوی کا یہ دعویٰ کہ جب انہوں نے شام کو فون کیا تو انہیں جبراً کہیں لے جانے کی آواز موبائل پر سنائی دی ، چھوڑ دو ، چھوڑ دو ، گاڑی میں ڈالو اسے اور فون کٹ گیا ۔

پہلا سوال یہ کہ شہزاد انکائونٹر کی ایک تصویر میں ایک شخص زمین پر گرا ہوا ہے اور اس کے برابر ایک اسلحہ ہے جس پر اس کا ہاتھ رکھا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔ پہلی نظر میں اسلحہ پر رکھے ہاتھ کا منظر شک پیدا کرتا ہے ۔ وہیں داہنے پیر میں سفید چپل تو بائیں پیر کے پاس کالے رنگ کا جوتا ہے ؟

دوسرا سوال اسپتال کی تصویر میں کمر میں کارتوس کی بیلٹ بندھی ہوئی ہے اور شرٹ اوپر چڑھا ہوا ۔ اس سے شک ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کارتوس کی بیلٹ پہن کر معاملہ کو انجام دینے جائے گا تو کیا وہ مختصر شرٹ پہنے گا جس سے کارتوس سب کو نظر آجا جائے ؟

تیسرا سوال کہ شناخت کے لئے سہارنپور کے گگل ہیڑی تھانہ انچارج کے حکم پر کمار تیاگی نے گشتی تلاش جاری کیا کہ ’جس کی جامہ تلاشی سے ایک فوٹو کاپی راشن کارڈ جس میں ذرینہ بیوی شہزاد رہائش سردھنہ میرٹھ لکھا ہے اور ایک پرچی پر موبائل نمبر 9058675006 لکھا ہے ۔آخر کیوں کوئی اور وہ بھی بدمعاش راشن کارڈ کی فوٹو کاپی اور موبائل نمبر لکھی پرچی لے کر گھومے گا ۔

چوتھا سوال کہ رشتہ داروں کو جب صبح گیارہ تا بارہ بجے اطلاع دی جاچکی تھی تو شام پانچ بجکر دس منٹ پر ہوئے پوسٹمارٹم کو کیوں نامعلوم کے نام پر کیا گیا ۔ جبکہ ۲۶مئی کو گیارہ بجکر دس منٹ پر آئی خبر جس میں ایس ایس پی دنیش کمار کو بھی کوڈ کیا گیا ہے اس میں صاف لکھا ہے متوفی کی پہچان شہزاد رہائش نزد ریلوے اسٹیشن کھتولی مظفر نگر کے طور پر ہوئی ہے ؟

پانچواں سوال کہ پولس انکائونٹر میں کسی گاڑی کی برآمدگی کی خبر سامنے نہیں آئی ۔ جبکہ رشتہ داروں کو اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے (یوگی حکومت میں مجرم کے نام پر ہوئے فرضی انکائونٹروں میں ایف آئی آر ، پوسٹمارٹم یا دیگر دستاویز رشتہ داروں کو نہیں دیئے جاتے) جبکہ سہارنپور پولس نے ایس ایس پی دنیش کمار کا ویڈیو ٹوئٹ کیا ہے جس میں اس پر شبہ کرتے ہوئے تکنیکی تفتیش کئے جانے کی بات کہی گئی ہے کہ گاڑی تھی یا نہیں ٹول پلازہ گزری یا نہیں ؟

چھٹا سوال کہ زرینہ نے اپنے شوہر شہزاد کے گھر نہ آنے پر اپنی بہن سلمہ کے موبائل نمبر 9521373818سے جب شہزاد کے موبائل نمبر 8791405011پر فون کیا تو فون اٹھا مگر گالیوں کی آواز آئی ۔ چھوڑ دو گاڑی میں ڈالو اسے اور فون کٹ گیا ۔ آخر ایسا کیا ہو رہا تھا جو اس طرح کی آوازیں آرہی تھیں ۔ کیا شہزاد کو کوئی زبردستی کہیں لے جارہا تھا ۔ کیا وہ پولس تو نہیں تھی ؟

ساتواں سوال کہ سہارنپور کے فیراہیڑی گائوں کے کسان دیویندر تیاگی کا اغوا کرکے فوری طور سے دو کلو میٹر کی دوری پر جاکر آدھی رات بارہ بجکر پینتالیس منٹ پر اس کے بھائی کو فون کرکے دس لاکھ روپئے تاوان مانگا ، بھائی کے ذریعہ ۱۰۰ نمبر پر اطلاع دی گئی فون کا لوکیشن کے مطابق پولس کا پہنچنا ، بدمعاشوں کے ذریعہ فائرنگ ، انکائونٹر میں شہزاد کا مارا جانا اور اس کے ساتھی کو فرار بتایا جانا ۔ کیا دس لاکھ کے تاوان کی مانگ کرنے والے بدمعاش اتنی جلد بازی میں ہوں گے ۔ کسی گاڑی کی برآمدگی کا نہ ہونا بھی سوال پیدا کرتا ہے کہ کیا اتنے پروفیشنل بدمعاش اتنی بڑی پکڑ اتنی آسانی سے جانے دے گا ؟

آٹھواں سوال کہ محلہ والوں کا یہ کہنا کہ اس کو گولی سے نہیں پیٹ پیٹ کر مارا گیا ہے ۔ جب وہ لاش کو نہلارہے تھے تو اس کے خصیہ پھوٹے ہوئے ، دانت ٹوٹے ہوئے ، بائیں ٹانگ ٹوٹی ہوئی ، پسلیوں پر نشان لیکن گولیوں کا کوئی نششان نہیں تھا ۔ شاید اس کو پہلے مارا گیا بعد میں انکائونٹر دکھا دیا گیا ۔ ٹھیک یہی بات شہزاد کے بھائی نوشاد اور والد علا الدین بھی کہتے ہیں ۔ جبکہ پوسٹمارٹم رپورٹ میں چار زخم گولے سے ہیں ۔ پہلی چوٹ سر پر گولی اندر گئی ، دوسری چوٹ گولی سر کے باہر نکل گئی ، تیسری چوٹ سینے میں گولی اندر کی جانب گئی ، اور چوتھی چوٹ گولی پیٹھ سے باہر نکل گئی ۔ چوتھی چوٹ میں پیٹھ پر چار اور چوٹیں دکھائی گئیں ۔ سوال یہ ہے کہ شہزاد کو چوٹیں آئیں کیسے آئیں ۔ محلہ والوں اور رشتہ دار آخر کیوں کہہ رہے ہیں کہ گولی کا کوئی نشان نہیں ہے ۔

Have now sweetest dishes of Ramadan with all new latest addition of #nutella #malpuva #masala #milk #madinah #kalmi…

Posted by Tahoora Sweets on Friday, 17 May 2019

پولس انکائونٹر کے بعد رہائی منچ کے ایک وفد جس میں انجینئر عثمان ، رویش عالم ، آشو چودھری ، امیر احمد ، آرش تیاگی اور ساجد شامل تھے نے ان کے رشتہ داروں سے ملاقات ۔ منچ سے رشتہ داروں نے سہارنپور کے گگل ہیڑی میں پولس کے ذریعہ مارے گئے ۳۸سالہ شہزاد کے پولس انکائونٹر میں مارے جانے کو فرضی بتاتے ہوئے معاملہ کی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے ۔ شہزاد ریڈا چلاتا تھا اور غبارہ کا کام کرتا تھا ۔ شہزاد کے پانچ بچے ہیں جو چھوٹے ہیں اور ان کا ایک سہارا صرف شہزاد ہی تھا ۔

شہزاد کی بیوہ زرینہ نے بتایا کہ سنیچر کی شام چھ بجے وہ بیٹری چارج کروانے کے لئے گھر سے نکلے تھے ۔ راستے میں راجیو نام کا ایک شخص انہیں بلا کر لے گیا ۔ وہاں پہلے سے کئی اشخاص گھات لگائے بیٹھے تھے جو انہیں اٹھا کر لے گئے ۔ میں نے بہن کے موبائل سے کال کی تو شہزاد کا فون تو اٹھا مگر گالیوں کی آواز آئی ، چھوڑ دو ، چھوڑ دو ، گاڑی میں ڈالو اسے ، اس طرح کی آواز آئی اور فون کٹ گیا ۔ راجیو بدمعاش خصلت کا انسان ہے ۔ اس نے پولس والوں کے ساتھ مل کر اسے مروادیا ۔ ہم تو خانہ بدوش زندگی جی رہے تھے کبھی یہاں کبھی وہاں ۔ ابھی ہم بڑوت کے نیو کالونی کانشی رام محلہ میں رہے تھے ۔ انہیں وہیں سے اٹھایا گیا ۔ صبح دس بجے ہم پولس چوکی گئے جہاں بتایا گیا کہ آج اتوار ہے صاحب چار بجے آئیں گے ۔ پھر ہم اس کی عرضی بناکر دے آئے ۔ اتنے میں خبر ملی کہ شہزاد کو پولس نے مار دیا ۔ وہ محنت مزدوری کرکے پیٹ پال رہا ترھا ۔ اب ہم کیا کریں گے ؟

شہزاد کے ۶۸ سالہ والد علا الدین کی نظریں بہت کمزور ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ پڑوس کے کسی شخص نے بتایا کہ واٹص ایپ پر آیا ہے کہ شہزاد کی موت ہو گئی ہے ۔ مجھے تو کم دکھتا ہے مگر بچی نے شناخت کی ۔ شہزاد دس سال سے باہر رہ رہا تھا کبھی کبھی ملنے آتا تھا ۔ پچھلے مہینے بھی آیا تھا ۔ معلوم نہٰں تھا کہ اس طرح مار دیا جائے گا ۔ پولس نے نشانہ بنا کر مارا ہے ۔ کوئی ہمیں انصاف دلا دے ۔

محلہ والوں کا کہنا ہے کہ شہزاد کو گولی سے نہیں ، پیٹ پیٹ کر مارا گیا ۔ جب ہم لاش کو نہلا رہے تھے تو اس کے خصیے پھوٹے ہوئے تھے ، ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی ، پسلیوں پر نشان تھے ، گولی کا کوئی نشان نہیں تھا ۔ اس کو پہلے مارا گیا بعد میں دکھایا گیا کہ انکائونٹر ہوا ہے ۔ علاقہ والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گگل ہیڑی کے تھانہ انچارج کے حکم پر تیاگی جنہوں نے کسان دیویندر تیاگی کے اغوا کے نام پر شہزاد کو پولس مڈبھیڑ میں مارنے کا ڈرامہ رچا گیا ہے وہ پہلے کھتولی میں رہ چکے ہیں ۔

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.