صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

روزہ، قرآن اور تقوی کا باہمی ربط 

1,685

 

 

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (القرآن، سورۃ البقرہ، آیت ۱۸۳)

ترجمہ: "اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ”۔

امت مسلمہ پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔ جس طرح پچھلی تمام امتوں پر روزہ فرض تھا۔ اسی لئےدنیا کے تمام مذاہب میں روزہ مختلف شکل میں پائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس عبادت کو ہر زمانے میں فرض کیا ہے۔ بلاشبہ روزہ نفس کی تربیت کے لئے بہترین عمل ہے۔ جس سےانسان کو ضبط نفس کی عادت ہوتی ہے۔ اور اسے بار بار یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ہم دنیا میں شتر بے مہار نہیں ہیں۔اللہ تعالی ہمارا آقا، مالک اور حاکم ہے۔ اور اسی کے بتائے ہوئےطریقہ پر عمل کرنا ہے۔اور ہمیں ہمارے اعمال کا حساب دینا ہے۔ روزے کا بنیادی مقصد تقوی کا حصول ہے۔ تقوی لفظ و- ق- ی سے ماخوذ ہے۔ معنی کسی چیز سے حفاظت کرنا اور بچنا۔

‘ تقوی’ دراصل قلب کی اس کیفیت کا نام ہے جو انسان کو گناہوں کے بارے میں حساس بنا دیتی ہے اور اس کے احکامات کا پابند بناتی ہے۔ اسی کو تقوی کہتے ہے۔ تقوی کے دو پہلو ہیں۔ ایک ظاہری اور دوسرا باطنی، یہ دونوں پہلو ناگزیر ہے۔ تب ہی انسان کے اندر للہیت اور اخلاص پیدا ہوگا۔ جب انسان ہر عمل سے پہلے اپنے رب کو یاد کرے گا تو ظاہر ہے وہ اللہ تعالی کی خوشنودی اور اس کے غضب کو یاد کرے گا۔اس کے لئے اچھائی کرنا آسان اور برائی کا ارتکاب کرنا مشکل ہوگا۔ اس لئے کہ روزہ میں حلال چیزیں بھی حرام ہو جاتی ہے۔ اور اس طرح انسان کے لئے دوسرے دنوں میں حرام چیزوں سے بچنا آسان ہوتا ہے۔ تقوی قابل قدر صفت ہے جو انسان کی تعمیر سیرت و کردار میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔

دراصل انسان کا جسم دو چیزوں کا مرکب ہے ایک مادی جسم دوسرا روحانی جسم یہ دونوں کا توازن میں رہنا بےحد ضروری ہے۔ جب انسان اپنی بھوک ، پیاس اور نفسانی خواہش کو قابو میں کرتا ہے۔ تو گویا وہ انسان اپنے مادی جسم کو قابو میں کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ انسان کی سب سے بڑی کمزوری اس کی بھوک، پیاس اور نفسانی خواہش ہے۔ اور روزہ کے ذریعے نفس کی تربیت ہوتی ہے۔ جو اس کو بڑے محاذ کے لئے تیار کرتی ہے۔ انسان کے لئے قرآن کے احکامات پر عمل کرنا آسان ہوتا ہے۔ روزہ دراصل انسان کو برائیوں اور محرمات سے بچاتا ہے۔ اور اس میں خشیت الہی کو پروان چڑھاتا ہے۔ اور صبر و ثبات کی خوبیاں پیدا کرکے انسان کے اندر حوصلہ اور استقامت عطا کرتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اس کے پہلے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ (بخاری)

قرآن کا نزول بھی رمضان میں ہوا ہے۔ جو تمام نوع انسانی کے لئے ہدایات اور رحمت ہے۔

يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَـةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَـآءٌ لِّمَا فِى الصُّدُوْرِۙ وَهُدًى وَّرَحْـمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ (سورہ یونس، آیت ۵۷ )

ترجمہ : "اے لوگو! تمہارے رب سے نصیحت اور دلوں کے روگ کی شفا تمہارے پاس آئی ہے، اور ایمان داروں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے”۔

قُلْ بِفَضْلِ اللّـٰهِ وَبِرَحْـمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْاۖ هُوَ خَيْـرٌ مِّمَّا يَجْـمَعُوْنَ (سورہ یونس، آیت ۵۸)

ترجمہ:”کہہ دو اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے سو اسی پر انہیں خوش ہونا چاہیے، یہ ان چیزوں سے بہتر ہے جو جمع کرتے ہیں”۔ (سورہ یونس، آیت ۵۸)

اگر ہم غور کرے تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان، قرآن اور تقوی ان کے درمیان گہرا ربط ہے۔ رمضان کی اصل فضیلت قرآن کی وجہ سے ہیں۔ اور قرآن کا نزول ہی رمضان کی اصل پہچان ہے جو اس کو دوسرے مہینوں سے ممتاز بناتی ہے۔

شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس وبینٰت من الھدی والفرقان فمن شھد منکم الشہر فلیصمہ۔(سورۃ البقرہ،آیت ۱۷۵ )

ترجمہ: "ماہ رمضا ن وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا اس حال میں کہ وہ لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں حق و باطل میں تمیز پیدا کرنے والی روشن دلیلیں ہیں ، تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزہ رکھے”۔ 

اللہ تعالی کا ہر حکم اس کے کامل علم کی بنیاد پر مبنی ہیں۔ اور اس کی حکمت بالغہ اس کے ہر حکم میں شامل ہے۔ اسی طرح رمضان، روزہ اور تقوی کا باہمی ربط بالکل اس گھڑی کی مانند ہے۔ جس کے سارے پرزے رکھ دیئے جاتے ہیں۔ اور ان کو باہم جوڑ دیا جاتا ہے۔ تو وہ حرکت میں آتے ہیں۔ بالکل اسی طرح عبادتوں کے باہمی ربط سے بندہ مومن کی ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔ اور اس کو بندگی کے معراج تک لے جاتی ہے۔ رمضان کا ایک ماہ مسلسل ٹرینگ اور روح کی صفائی کا مہینہ ہے۔ ایک طرف قرآن جو ہدایت کا سر چشمہ ہے وہی ساتھ ہی ساتھ روزہ ہماری عملی، اخلاقی اور روحانی زندگی پر اثرات قائم کرتا ہے۔ اس لئے کہ ہم باہر کی مشکلات سے نہیں اپنے اندر کی کمزوریوں سے ہارتے ہیں۔ اگر راستے پرکنکر ہو تو اچھا جوتا پہن کر چلا جا سکتا ہے پر اگر جوتے میں ایک بھی کنکر ہو تو اچھی سڑک پر بھی چلنا مشکل ہوتا ہے۔ روزہ ہمیں اس بڑے محاذ کے لئے تیار کرتی ہیں۔ تاکہ ہم اپنے نفس کا تزکیہ اور تربیت کرسکے۔ تربیت کا مقصد ہی برائیوں کو ترک کرنا اور اچھائوں کو اپنانا ہیں۔

"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق ایک حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا رتو اللہ تعالیٰ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑے”۔ ( بخاری)

رمضان میں قرآن کا نزول اللہ تبارک و تعالی کی بے پیاں رحمت کا مظہر ہے۔ کہ اس نے سسکتی انسانیت کو ہدایت کا سر چشمہ عطا کیا۔ اور حق اور باطل میں فرق کرنے والی کتاب دی۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس رمضان المبارک کوہماری زندگی کا بہترین رمضان بنا ئے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ قرآن سے شغف پیدا کرنے والا بنائے۔ یہ غم گساری کا مہینہ ہے تو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے دکھ درد میں شامل ہوا جائے۔ قرآن کے احکامات پر عمل کیا جائے۔ اس کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے والا بنائے۔ اور اس ماہ کی سعادتوں سے بھرپور استفادہ کرنے والا بنائے۔

 

سعیدہ زبیر شیخ 

[email protected]
اندھیری ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.