اسرائیل کی جوابی حملہ کی دھمکی ، ہنگامی میٹنگیں، کشیدگی برقرار
اسرائیل کی جوابی حملہ کی دھمکی ، ہنگامی میٹنگیں، کشیدگی برقرار
مگر جنگی کابینہ۳؍ گھنٹہ طویل میٹنگ کے بعد بھی یہ طے نہیں کرسکی کہ کیسے اور کب جواب دے، امریکہ نے ساتھ نہ دینے کا اعلان کیا مگر تل ابیب کو ۱۴؍ بلین ڈالر کی فنڈنگ کی کارروائی تیز
ایران کے براہ راست حملے سے اسرائیل بوکھلا اٹھا ہے۔اس نے تہران کے اس انتباہ کے باوجود کہ جوابی حملے کی صورت میں اس سے بھی شدید حملہ کیا جائےگا، جوابی کارروائی کا اعلان کیا ہے مگر یہ طے نہیں کر پارہا کہ کیسے اور کب جواب دے۔اس بیچ اس کے اتحادیوں کی جانب سے اس پر تحمل اور جوابی کارروائی سے اجتناب کا دباؤ ہے جبکہ امریکہ نے اعلان کردیاہے کہ وہ کسی بھی جوابی کارروائی میں اسرائیل کا ساتھ نہیں دےگا۔ البتہ اپنے دہرے معیار پر برقرار رہتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کی ۱۴؍ بلین ڈالر کی امداد جلد از جلد جاری کرنے کیلئے کوکوششیں تیز کردی ہیں۔
اسرائیلی جنگی کابینہ کی ۳؍ گھنٹہ طویل میٹنگ ایران کے حملے کے بعد ۳؍گھنٹہ سے بھی زیادہ چلنے والی اسرائیل کی جنگی کابینہ کی ہنگامی میٹنگ میں اس بات کی تو تمام اراکین نے تائید کی کہ ایران کے حملے کا جواب دینا ضروری ہے مگر یہ طے نہیں ہوسکا کہ کب اور کس طرح جواب دیا جائےگا۔ بتایا جارہاہے کہ امریکہ اسرائیل پر تحمل کا دباؤ ڈال رہاہے اور جو بائیڈن نے براہ راست وزیراعظم نیتن یاہو کو فون کرکے ’’محتاط اور حربی انداز میں سوچنے‘‘ کا مشورہ دیا ہے۔ اتوارکو ۳؍ گھنٹہ طویل میٹنگ میں کسی نتیجہ پر نہ پہنچنے کے بعد پیر کو بھی جنگی کابینہ کی میٹنگ ہوئی اور ایران کے حملے کے جواب کے متبادلات پر غور کیاگیا۔ اس بیچ اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران کے اس بڑے حملے کا جواب ناگزیر ہوگا۔ اسرائیلی وزیراعظم دفتر نے امریکی ٹی وی این بی سی سی سے گفتگو میں کہا ہے کہ اتنے بڑے حملے کا چھوٹا یا بڑا جواب نہ دیا جانا ممکن نہ ہوگا۔ نیتن یاہو کے دفتر کے ذرائع کے مطابق ’’ اتحادیوں سے مشورے ہوں گے لیکن فیصلہ ہمارا ہوگا۔ ‘‘
مشرق وسطیٰ پر جنگ کے بادل جس وقت یہ خبر لکھی جارہی ہے، پیر کو اسرائیل میں جنگی کابینہ کا دوسرا اجلاس جاری ہے جس میں اس بات پر غور کیا جارہاہے کہ ایران کے خلاف کس طرح کی کارروائی کی جائے۔ جوابی کارروائی کی اسرائیل کی ضد کی وجہ سے مشرق وسطیٰ پر میں جنگ کے پھیلنے کے امکانات بڑھنے لگے ہیں۔ یا درہے کہ ایران نے اسرائیل پر سنیچر کی رات ۳۰۰؍ سے زائد میزائل اور ڈرون حملے یکم اپریل کو شام میں اس کے سفارتخانہ پر حملے کے جوا ب میں کئے تھے۔ ایران نے اپنے فوجی مشن کی تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے اسی وقت متنبہ کردیاتھاکہ اگر اسرائیل کی جانب سے جواب الجواب ہوا تو پھر ایران کی طرف سے کارروائی اور بھی زیادہ شدید تر ہوگی۔ ایسے میں پوری دنیا میں بے بسی کے عالم میں اسرائیل اورایران کی طرف دیکھ رہی ہے اور ان سے تحمل کی اپیل کررہی ہے۔ ایران کے ساتھ ٹکراؤ اسرائیل کی حکمت عملی
تحمل کی تمام اپیلوں کے باوجود اسرائیل کی جانب سے ایران کے حملے کے جواب کے اعلان نے جہاں جنگ کے اندیشوں کوبڑھا د یا ہے وہیں حربی ماہرین اس بات پر بھی غور کررہے ہیں کہ آخر اسرائیل ایران کو اس جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کیوں کررہاہے۔اس کا جواب چاتھم ہاؤس کے ریسرچ اسکالرنومی باریاکو نے یہ دیا کہ ’’نیتن یاہو کا پلان بہت ہی واضح ہے۔ وہ غزہ سے پوری دنیا کی توجہ ہٹا نا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ اور اپنے دیگر مغربی اتحادیوں کو بھی اس تنازع میں کھینچنا چاہتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق امریکہ پر اسرائیل کے انحصار کو دیکھ کر یہ ممکن ہی نظر نہیں آتا کہ شام میں ایرانی سفارتخانہ پر حملہ امریکہ کو اعتماد میں لئے بغیر کیاگیاہوگا۔
اسرائیل کو ۱۴؍ ارب ڈالر کی امریکی امداد جو بائیڈن انتظامیہ ایک طرف مشرق وسطیٰ کی جنگ میں کودنے سے بچ رہاہے اوراس نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اسرائیل کی کسی بھی کارروائی میں اس کا ساتھ نہیں دے گا وہیں دوسری جانب اس نے اسرائیل کیلئے ۱۴؍ ارب ڈالرز کے امدادی بل کی منظوری کیلئے کوشش تیز کردی ہے۔ ایران کا امریکہ پر منافت کا الزام
اس بیچ ایران نے امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے رویہ کو منافقانہ قرار دے دیا ہے۔اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر امیر سعید ایروانی نے کہا ہے کہ یہ ممالک کئی ماہ سے اسرائیل کو نہ صرف غزہ میں قتل عام پر جوابدہی سے بچا رہے ہیں بلکہ فلسطینی عوام کی نسل کشی کو بھی جائز قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کو متنبہ کیا کہ وہ ایران کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی سے دور رہے۔