صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

متھرا شاہی عید گاہ کے سروے پر روک میں توسیع

125,774

متھرا شاہی عید گاہ کے سروے پر روک میں توسیع

الٰہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پر جنوری میں سپریم کورٹ نے جو روک لگائی تھی اسے اگست تک برقرار رکھنے کا حکم دیا لیکن زمین کی ملکیت کے مقدمہ کی ہا ئی کورٹ میں سماعت روکنے سے انکار

سپریم کورٹ نے متھرا کی شاہی عید گاہ کے سروے کیلئے کورٹ کمشنر کی تقرری کے الٰہ آبادہائی کورٹ کے حکم پر روک میںاگست تک توسیع کردی۔جسٹس سنجیو کھنہ اور دیپانکر دتہ کی بینچ نے اس تفصیلی سماعت کے لیے اگست کے دوسرے ہفتہ میں معاملہ کو لسٹ کرنے کا حکم جاری کیا۔ سماعت کی اگلی تاریخ پر سپریم کورٹ میں متعدد درخواستوں پرغور کئے جانے کا امکان ہے جس میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کےذریعہ شاہی عیدگاہ سے متعلق ۱۸؍ مقدمات کو سو ِل عدالتوں سےیکطرفہ طور پر اپنے پاس منتقل کرنے کامعاملہ بھی شامل ہے۔سپریم کورٹ نے اس سے قبل مقامی کمشنر کی تقرری کے لیے ہائی کورٹ میں دائر درخواست کو انتہائی مبہم اور غیر معمولی قرار دیتے ہوئےاس پر روک لگا دی تھی۔سپریم کورٹ نےیہ بھی کہا کہ زمین کی ملکیت کے تعلق سے ہائی کورٹ میںجومقدمات کی سماعت جاری ہے ان پرروک نہیں رہےگی ۔واضح رہے کہ ایڈوکیٹ کمشنرکی نگرانی میں عید گاہ کے سروے کی ہدایت الہ آباد ہائی کورٹ نے ۱۴؍ دسمبر کو دی تھی جس کے بعد۱۶؍ جنوری کو سپریم کورٹ نے اس پر روک لگا دی تھی ۔اب اس روک میںاگست تک مزید توسیع کی گئی ہے۔

عدالت نے کہا تھا کہ عرضی میں اس بات کی وضاحت ہونی چاہئے تھی کہ کمشنر کی تقرری سے کیا مقصود ہے ،تاہم اس کو عدالت کی صوابدید پر چھوڑدیاگیا۔ جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی موجودہ بینچ نے ہی اس معاملہ میں مسجد انتظامیہ کمیٹی کے ذریعہ اٹھائے گئے قانونی نکات کا حوالہ دیا۔ مسجد انتظامیہ کمیٹی کے وکیل نے دلیل دی تھی کہ سپریم کورٹ میں عبادتگاہوں کے تحفظ قانون سے متعلق عرضی زیرالتواء ہونے کی صورت میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کو کمشنر کی تقرری کا حکم جاری نہیں کرنا چاہئے تھا۔اس میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کا بھی حوالہ دیاجس میں کہا گیا تھا کہ جب عرضی کا قابل سماعت ہوناسوالات کے دائرے میں ہو،ایسے میں عدالتوں کو عبوری راحت فراہم کرتےہوئے کم ازکم اس کے دائرہ کار پرفیصلہ کرنا چاہئے ۔

سپریم کورٹ کی بینچ نے مسجد انتظامیہ کمیٹی کے اس قانونی نکتے کو تسلیم کرتے ہوئےشاہی عیدگاہ مسجد کے سروے کیلئے کورٹ کمشنر کی تقرری کیلئے دائر کردہ درخواست کے طریقہ کار پر سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس سے قبل بینچ نے متھرا کی شاہی مسجد کو کرشن جنم بھومی قرار دے کراس کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والی مفاد عامہ کی درخواست پر غور کرنے سے انکار کردیا تھا۔عرضی میں کئی دعوے کئے گئے تھے ،تاہم بینچ نے کہا تھا کہ متعدد سو ِل مقدمات کے زیر التواء ہونے کے پیش نظر اس کی ضرورت نہیں۔ فریق مخالف عرضی گزار نےدعویٰ کیا تھا کہ شاہی عیدگاہ مسجد جہاں تعمیر کی گئی ہے وہیں کرشن کا جنم ہوا تھا ، اس جگہ پر مسجدجبراً تعمیر کروائی گئی تھی ۔ مسلم فریق اس دلیل کو بے بنیاد مانتا ہے اور اس کی دلیل ہےکہ مسجدکرشنا جنم بھومی کے احاطے میں واقع نہیں ہے ۔ اس میں زمین کو ہندوؤں کو منتقل کرنے کاحکم جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔عرضی میں شاہی عیدگاہ کی محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کے ذریعہ جی پی آر ایس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کھدائی کا بھی مطالبہ کیاگیا تھا۔تاہم ،بینچ نے کہا تھا کہ عرضی موجودہ شکل میں قابل غور نہیں۔

آئندہ تین ماہ میں تمام دلائل پیش کرنے کی ہدایت سپریم کورٹ کی ڈویژن بینچ نے جو متھرا کے زیر بحث شری کرشنا جنم بھومی تنازع کی سماعت کر رہی ہے ۔ سپریم کورٹ نے اگست۲۰۲۴ءمیں کیس کو دوبارہ درج کرنے اورقانونی چارہ جوئی میں شامل تمام فریقوں کو اگلے تقریباً تین ماہ میں عدالت میں اپنے دلائل رکھنے کی ہدایت دی ۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ متھرا کرشنا جنم بھومی مندر سے متعلق تمام درخواستوں کی سماعت اگست میں ایک ساتھ کی جائے گی۔ مقدمے میں شامل فریق مخالف کا موقف ہے کہ مسجد کے احاطے میں کئی نشانات موجود ہیں، جو ثابت کرتے ہیں کہ یہ تاریخ میں ایک مندر تھا۔ حکم امتناعی جاری رکھنے کے حکم کے علاوہ سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ ہائی کورٹ میں زیر التواء زمین کی ملکیت کے معاملےپر پر سماعت جاری رہے گی۔ بینچ نے کہا کہ سول پروسیجر کوڈ (سی پی سی) کے آرڈر۷؍ ضابطہ۱۱؍ کے تحت ہائی کورٹ میں زمین کے تنازع پر سماعت جاری رہے گی۔ عدالت نے ہندو فریق کو مسجد کمیٹی کی جانب سے دائر درخواست پر جواب داخل کرنے کی بھی ہدایت دی ہے ۔

معاملہ کیا ہے، تنازع سپریم کورٹ تک کیسے پہنچا؟

قابل ذکر ہے کہ متھرا میں کرشنا جنم بھومی مندر سے متصل شاہی عیدگاہ مسجد احاطے پر زمین کی ملکیت کا تنازع کافی عرصے سے چل رہا ہے۔ زمین کی ملکیت کے حوالے سے جاری قانونی چارہ جوئی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب عدالت کی نگرانی میں سروے کا مطالبہ شروع ہوا۔عرضی گزاروں نے سب سے پہلے الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تاکہ عیدگاہ کمپلیکس کا سروے کروایا جا سکے۔ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر سروے پر عبوری روک لگا دی گئی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.