صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

رہائی منچ کے صدر ایڈووکیٹ محمد شعیب کی غیر قانونی گرفتاری کیخلاف سماعت ۳ ؍ مئی کو بھی ہوگی

353,812

لکھنو : لکھنو پولس کے ذریعہ ۱۹ ؍ دسمبر ۲۰۱۹کو اپنے ہی گھر سے اٹھائے جانے کے بعد اتر پردیش کے مایہ ناز سینئر وکیل محمد شعیب نے الہ آباد ہائی کورٹ میں حیبیس کورپس کی درخواست دائر کی تھی ۔ ۲۱ ؍ دسمبر ۲۰۱۹ کو پہلی مرتبہ سماعت ہوئی تھی ۔ مذکورہ تاریخ کو سرکاری وکیل کو جواب اور درخواست گزار کو اس پر اپنا جواب داخلکرنے کی ہدایت دی گئی تھی ۔ معاملہ ۲ ؍ جنوری ۲۰۲۰ کے لئے رکھا گیا تھا ۔

۲ ؍ جنوری کو جب معاملہ سماعت کیلئے آیا تو اپنے جواب میں سرکاری وکیل نے کہا کہ محمد شعیب کو ۲۰ ؍ دسمبر ۲۰۱۹ کو کلارکس اودھ تراہا سے صبح ۸:۴۵ بجے گرفتار کیا گیا تھا ۔ جبکہ اپنے جواب میں محمد شعیب نے کہا کہ انہیں ان کے گھر سے ۱۹ ؍ دسمبر ۲۰۱۹ کو رات ۱۱:۴۵ بجے کئی گھنٹے نظر بند رکھنے کے بعد بغیر کسی وجہ بتائے اٹھایا گیا تھا ۔ اس کے ثبوت میں انہوں نے تصاویر اور کال ریکارڈس جیسے دستاویز پیش کئے ہیں ۔ کورٹ نے گرفتاری کے وقت کا عوامی سی سی ٹی وی فوٹیج پیش کرنے کو کہا ہے ۔ اس پر سرکاری وکیل نے پولس سے صلاح کرنے کے لئے وقت مانگا ہے ۔ اب یہ معاملہ ۳ ؍ جنوری ۲۰۲۰ کو سماعت کیلئے پیش ہوگا ۔

رہائی منچ صدر ایڈووکیٹ محمد شعیب کو لکھنو پولس نے غیر دستوری شہریت ترمیم قانون کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کا اعلان کرنے کے الزام میں پہلے ۱۸ ؍ دسمبر ۲۰۱۹ سے انہیں گھر میں نظر بند رکھا اور ۱۹ ؍ دسمبر کی شب بارہ بجے کے قریب گفتگو کرنے کے بہانے تھانے بلاکر گرفتار کرلیا گیا ۔

طالب علمی کے زمانہ سے سماج وادی نظریات کیلئے جد وجہد کرنے والے ایڈووکیٹ محمد شعیب کو پہلی بار گرفتار نہیں کیا گیا ہے ۔ ذات پات کی سیاست سے بلند ہو کر متاثرین و پسماندہ عوام کی حمایت کی وجہ سے وہ ہمیشہ صاحب اقتدار کی آنکھوں کی کرکری بنے رہے ۔ کئی مرتبہ فرضی مقدموں میں انہیں ماخوذ کیا گیا لیکن انہوں نے کبھی اپنے نظریہ سے سمجھوتہ نہیں کیا ۔

نظر بندی کے دوران محمد شعیب کے گھر کے باہر تعینات پولس اہلکار

۱۹۷۵ کے ایمرجنسی کے دور میں بھی انہیں ڈی آئی آر کے تحت گونڈہ میں دو مہینے تک جیل میں رہنا پڑا تھا ۔

لکھنو میں وکالت شروع کرنے کے بعد بھی انہوں نے اپنے پیشہ سے اپنے نظریہ کو وابستہ رکھا ۔ سماج دبے کچلے طبقہ کے متاثرین کے مقدموں کی بلا معاوضہ صرف پیروی ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی مالی معاونت بھی کیا کرتے تھے ۔ قانون کے احترام کے تحت انہوں نے کبھی کسی کو فیس کیلئے واپس نہیں کیا ۔

دہشت گردی کے نام پر گرفتار کئے گئے نوجوانوں کے مقدمے لڑنے کیخلاف جب بار ایسوسی ایشن کے فرمان جاری ہورہے تھے تب بھی انہوں نے ان کے مقدمے لڑے ۔ ان پر لکھنو عدالت کے احاطہ میں آر ایس ایس ذہنیت کے وکیلوں نے حملہ بھی کیا لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی اور ۱۴ بے قصوروں کو رہائی دلائی ۔ دستور ہند اور قانون سے ازحد لگائو اور اس کا احترام ملحوظ رکھنے والے محمد شعیب ایڈووکیٹ نے پرتشدد حملوں تک کا سامنا کیا لیکن کسی کیخلاف انتقام کے جذبے سے کچھ نہیں کیا ۔

یہ ملک اور سماج کیلئے شرمناک ہے کہ جسے اتر پردیش حکومت نے جمہوریت کی حفاظت کے لئے خود ہی مجاہد جمہوریت کا درجہ دیا ہو اس پر دستور کی حد سے باہر جاکر تشدد کا سہارا لینے کا الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا جائے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.