ملک وملت کی سلامتی کے لئے باہمی اتحاد و اتفاق سے پریشر گروپ کا قیام وقت کی اہم ضرورت
شہر کے چنندہ علمائے کرام و دانشوران کی خصوصی ملاقات میں مولانا سلمان حسینی ندوی کا اظہار خیال
ممبئی : دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاذ حدیث اور معروف عالم دین مولانا سید سلمان حسینی ندوی کی عروس البلاد ممبئی آمد پر شہر کے ممتاز علمائے کرام و دانشوروں کی ایک خصوصی نشست منعقد کی گئی جس میں مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے چنندہ افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر اپنے خصوصی خطاب میں مولانا ندوی نے ملک کے موجودہ حالات پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک جس سمت میں جارہا ہے اس سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ آنے والا وقت صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ عمومی طور پر ہر انصاف پسند شہری اور امن پسند باشندوں کے لیے بہت ہی مشکل اور آزمائش کا ہوگا، جس کے مقابلے کے لئے اگر ہم نے ابھی سے تیاری نہیں کی تو پھر ہمارے لئے حالات اتنے بدتر ہوجائیں گے کہ کوئی بھی ہمارا پرسان حال نہیں ہوگا ۔
مولانا ندوی نے ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں جب مسلمان آئے تو انہوں نے اپنے اخلاق و کردار کے ذریعے یہاں کے لوگوں کے دلوں کو فتح کیا اور پھر ان کے دلوں میں ایمان کی جوت جگائی اور اس طرح اس کفرستان میں اسلام کی شمع جلی اور پھر جلتی ہی چلی گئی ۔ مولانا ندوی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے آباو اجداد نے جس ایمانی حرارت اورحسن اخلاق سے یہاں کی عوام کے دلوں کو فتح کیا آج ہم ان کے درمیان زندگی گذارنے اور باہمی معاملات کرنے کے باوجود ایمان کی جوت جگانا تو دور ہم انہیں اپنے سے قریب بھی نہیں کر پارہے ہیں جوکہ یقیناً قابل افسوس بات ہے اور اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ہم کہیں نہ کہیں کمزور ہیں ۔
ہم ایمانی اور اخلاقی اعتبار سے نہایت ہی کمزور ہوچکے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے ساتھ رہنے والا انسان ہم سے متاثر نہیں ہو پارہا ہے ، ہمیں ایمانی اور اخلاقی اعتبار سے پکا سچا مسلمان بننا ہوگا تبھی ہم اپنے برادران وطن کو اپنے سے قریب کرپائیں گے اور نفرت کی فضا کو ختم کرکے محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کر سکیں گے ، مولانا ندوی نے ملک کے موجودہ پس منظر میں اور آنے والے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم تمام طرح کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف ملک و ملت کی فلاح و بہبود کی خاطر باہمی اتحاد و اتفاق سے ایک پریشر گروپ بنائیں جو پورے ملک میں مسلم ووٹوں کو منتشر ہونے سے بچا سکے ، اگر ہم نے یہ کام کر لیا تو سمجھ لیں کہ آنے والا وقت ملک و ملت کے مفاد میں ہوگا ۔
اس موقع پر کاروان امن و انصاف کے صدر اور مشہور اسلامی اسکالر ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی نے کہا کہ یہ زمانہ سوشل میڈیا کا ہے اور سوشل میڈیا بہت ہی مضبوط اور موثر ہتھیار ہے ہمیں چاہیے کہ اپنے عظیم مقاصد کے حصول کے لیے سوشل میڈیا کا مثبت اور تعمیری استعمال کریں ، اس وقت جب کہ بیشتر میڈیا ہاؤس بک چکے ہیں سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم واحد ایسا پلیٹ فارم ہے جس کا مثبت اور تعمیری استعمال بہت ہی موثر اور کارگر ثابت ہوگا ۔
روزنامہ ہندوستان کے ایڈیٹر سرفراز آرزو نے کہا کہ اب سوچنے اور میٹنگیں کرنے کا وقت ختم ہو چکا ہے اب جو کچھ بھی کرنا ہے اسے عملی طور پر کرکے دکھانا ہوگا تبھی ہم کامیاب ہو سکیں گے اس موقع پر انہوں نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں زمینی سطح پر کام کرنا ہوگا اور اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہم پارلیمانی حلقہ کے حساب سے ملک بھر میں ایک لوکل باڈی پریشر گروپ تیار کریں جو مسلمانوں سمیت دیگر رائے دہندگان کو اچھے اور برے امیدواروں کے درمیان تمیز پیدا کرکے اچھے امیدوار کو منتخب کرنے کی ترغیب دے اور اس طرح سے ہم پارلیمنٹ میں اچھے لوگوں کی ٹیم تیار کرکے بھیجنے میں کامیاب ہو سکیں گے ۔
اس خصوصی نشست کو خطاب کرنے والوں میں سینئر صحافی خلیل زاہد ، سماجی کارکن طاہر اشرفی ، بصیرت آن لائن کے چیف ایڈیٹر غفران ساجد قاسمی ، سلیمان فاروقی ، ہارون افروزشامل تھے ۔ تمام مقررین نے اتحاد و اتفاق کے ساتھ کام کرنے کی اہمیت پر زور دیا ، یہ پروگرام ابنائے ندوہ ممبئی کے صدر مولانا لقمان ندوی کی تحریک پر عبد الرحمن شاکر پٹنی کے مکان پر منعقد ہوا جس میں شہر کے اہم علماء کرام و دانشوروں نے شرکت کی ، قابل ذکر افراد میں جامعۃ الابرار کے مہتمم مولانا شمیم اختر ندوی ، مولانا عبدالرزاق ندوی ، مولانا مزمل ، مولانا مطیع الرحمٰن قاسمی نائب قاضی شریعت دارالقضاء آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ وغیرہ ہیں ۔
اس سلسلے میں ایک تحریک کاروان اتحاد کے عنوان سے شروع کرنے کی تجویز اتفاق رائے سے منظور کی گئی جس کا مقصد ۲۰۱۹ کے پارلیمانی الیکشن کے مد نظر ملک بھر کے پارلیمانی حلقوں میں پہنچ کر عوام کی حمایت حاصل کرنا ہے ، تاکہ متعدد امیدواروں کے ذریعہ ووٹوں کے انتشار سے قابل اور جیتنے والے امیدوار کو معمولی ووٹوں سے شکست کا منھ نہ دیکھنا پڑے اور اس حکمت عملی کے ذریعہ ہم پارلیمینٹ میں اپنی نمائندگی بڑھانے میں کامیابی حاصل کرسکیں ۔