صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

فضول خرچی اور اسراف ۔ ایک معاشرتی برائی 

خطبہ جمعہ برسر منبر , برائے أئمہ مساجد

1,484

برادران اسلام اور حاضرین مسجد! آج آپ کے سامنے ایک ایسی معاشرتی خرابی کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے جو بہت پھیل چکی ہے اور جس نے ہماری ملت کو بہت نقصان پہونچایا ہے ۔ وہ بیماری ہے فضول خرچی اور اسراف ۔ یہ معمولی بیماری نہیں ہے ۔یہ وہ بیماری ہے جس پر ہلاکت اور تباہی کے فیصلے ہوئے ہیں ایک جگہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے واہلکنا المسرفین ( الانبیاء ۹) یعنی ہم نے ہلاک کردیا اسراف کرنے والوں کو،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسراف  اور فضول خرچی کیسی تباہ کن اور برباد کن بیماری ہے۔ اب سمجھ لیجئے کہ اسراف کیا چیز ہے ۔ یہ خرچ کرنے میں غلو کرنے کا نام ہے ۔ غلو کو معمولی درجہ کی چیز مت سمجھئے  یہ وہ بیماری ہے جو ملت کو زوال اور اضمحلال تک پہونچاتی ہے ۔امام اوزاعی ایک بہت بڑے عالم دین گذرے ہیں ان کا قول ہے ’’مامن أمر امر اللہ بہ الا عارض الشیطان فیہی بخصلتین یعنی اللہ تعالی نے جو بھی حکم دیا ہے۔ اس کا مقابلہ شیطان ہمیشہ دو حرکتوں کے ساتھ کراتا ہے اور اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ بندہ ان دونوں حرکتوں میں سے کون سی حرکت میں مبتلا ہوتا ہے اس لئے کہ ان دونوں میں سے انسان جس حرکت کا بھی مرتکب ہوگا اس کی مراد پوری ہوری ہے اور وہ دو حرکتیں یہ ہیں ۱  غلو ( مناسب حد سے تجاوز کرنا ) ۲  تقصیر ( کسی کام کے کرنے میںکوتاہی کرنا اور ادھوراچھوڑدینا )

قرآن میں ہر چیز میں ، خرچ میں بھی اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کاحکم ہے اگر خرچ میانہ روی سے اعتدال سے زیادہ ہے تویہ غلو ہے اور یہی اسراف ہے  اور وہ یقینا شیطان کا حربہ ہے اور اللہ کے حکم کے خلاف انسان کو اکسانا ہے اور امر اللہ کا معارضہ کرنا ہے۔ اللہ کے حکم کا معارضہ کرنے کے لئے شیطان بندہ کو اکساتا ہے بہکاتا ہے ۔ اعتدال اور میانہ روی یہ ہے کہ انسان نہ تو بخل سے کام لے اور نہ فضول خرچی میں مبتلا ہو ۔ اگر اللہ تعالی نے مال کی شکل میں نعمت عطا کی ہے تو انسان کو نہ تو بخل سے کام لینا چاہئے اور نہ اسراف اور فضول خرچی میں مبتلا ہونا چاہئے ۔ ہمارے یہاں کھانے اور کھلانے میں فضول خرچی بہت ہوتی ہے شادی بیاہ میں جہاں چند ہزار سے کام چل سکتا ہے وہاں ہم لاکھوں روپے لٹا دیتے ہیں یہ اسراف کی بیماری ہے جو اللہ تعالی کو سخت نا پسند ہے اور اس پر اللہ کا عذاب بھی نازل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں واضح حکم ہے  کلواواشربو ا ولا تسرفوا یعنی کھائو پیو اور فضول خرچی نہ کرو ہماری برائی بیماری اور مزمن بیماری کی حد تک پہونچ گئی ہے۔ شادی کی تقریبات میں ہم صرف لاکھوں روپے شادی خانے کرایہ پر لینے میں خرچ کر ڈالتے ہیں ۔ کھانے میں اتنا زیادہ تنوع ہوتا ہے کہ لوگ کئی کئی دن اس کا تذکرہ کرتے ہیں یہ سب وہ اسراف ہے جس پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے اور قوموں پر ہلاکت کے فیصلے ہوجاتے ہیں ۔ اور خاص طور پر اس وقت جب ملت کو  اپنے استحکام کے لئے سرمایہ کی سخت ضرورت ہو اور وہ سرمایہ حاصل نہ ہو ۔ اگر امراء اور اہل ثروت ایسے وقت پرجب ملت کے استحکام کے کاموں لئے اور دین کی نشرو اشاعت کے لئے سرمایہ نہیں خرچ کریں گے اور مسلمانوں کی تعمیر واستحکام کے منصوبے محض خواب وخیال بن کر رہ جائیں اور تقریبات میں اسراف سے کام لیں گے توایسی امت کے لئے تباہی اور بربادی کے فیصلے آسمان پر ہوسکتے ہیں ۔ اس ملک میں مسلمانوں کی سر بلندی اور استحکام کے لئے بہت سے کام کرنے ہیں ، تعلیمی ادارے قائم کرنے ہیں ، مسلمانوں کو روزگارسے لگانا ہے، معاشی حالت درست کرنی ہے ،دین سے وابستگی پیدا کرنی ہے ، غریبوں اور مسکینوں کی مدد کا کام ہے ۔ انگلش میڈیم کی دینی درسگاہ کھولنے کی اہم ضرورت ہے ، اب اگر ہمارے اہل ثروت ان ضروری کاموں پر اپنا سرمایہ نہ لگا ئیں اور شادی میں لاکھوں روپے برباد کردیں تو ایسی قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے اور اسے برباد ہونے سے کون بچاسکتا ہے اور اسے عذاب میں مبتلا ہونے سے کون روک سکتا ہے قرآن میں ضرورت  حد سے زیادہ خرچ کرنے والوںکو یعنی ’ مبذرین‘کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیاہے ہمیشہ سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ ہم کہیں اس آیت کا مصداق تو نہیں بن گئے ہیں کہیں ہم سچ مچ شیطان کے بھائی تو نہیں بن گئے ہیں اللہ تعالی ہماری حفاظت فرمائی اور اسراف اور تبذیر میں مبتلا ہونے سے بچائے اور خیر کے کاموںمیں خرچ کرنے کی توفیق ارزانی کرے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.